انٹرویو: وجہیہ جواد، ہفت روزہ
میگ، کراچی، اشاعت: مورخہ: 16 جولائی، 2011ء
ترجمہ: امین صدرالدین بھایانی، اٹلانٹا، امریکا۔ـ
تمام احباب کی خدمت میں یہ احقر اپنے پسندیدہ ترین اداکار ندیم کے تازہ
ترین انٹرویو کے ترجمے جو کے ہفت روزہ میگ کراچی کئ 16 تا 22 جولائی 2011ء
کی اشاعت میں شائع ہوا ہے، کے ساتھ حاضر ہے۔ یہ ایک انتہائی دلچسپ انٹرویو
ہے جو کہ تمام دوستوں کو یقیناْ حد پسند آییگا۔ اس انٹرویو میں جہاں ندیم
صاحب نے اپنے فلمی کیرئیر پر سیر حاصل گفتگو کی ہے وہیں انہوں نے بھارتی
فلمی اداکار امیتابھ بچن کے فن پر بھی بطور ِ خاص روشنی ڈالی ہے جو کہ
پڑھنے والوں کی خصوصی دلچسپی کا باعث ثابت ہوگا۔ (امین صدرالدین بھایانی)
-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-
قوم کے دل کی دھڑکن، ندیم ایک مشہور فلم سٹار جو گزشتہ چار دہائیوں سے اپنی
غیر معمولی اداکارانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہمیں محظوظ کررہے ہیں۔ مرزا
نذیر بیگ، بلمعروف العام ندیم، پاکستانی سنیما کے ایک زندہ لیجنڈ اداکار
ہیں، فلم ’’چکوری‘‘ کے ساتھ ابتداء کی اور اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں
دیکھا. اس عظیم اداکار کے کریڈٹ میں کئی کامیاب فلمیں ہیں اور وہ انتہائی
مہارت کے ساتھ ہر قسم کے کردار باآسانی ادا کرلیتے ہیں. انہوں نے 1979 سے
1992 تک چودہ مسلسل نگار ایوارڈ حاصل کئے. صدارتی ایوارڈ برائے حسن ِ
کارکردگی ان کی پاکستانی سنیما کے لئے سر انجام دی گئیں خدمات کے اعتراف کا
ایک ثبوت ہے. حال ہی میں میگ نے افسانوی شہرت کے حامل اس اداکار سے رابطہ
کیا اور ان کی زندگی کے بارے میں ان سے پوچھا:۔
آپ شوبز میں کس طرح آئے؟
میں اسے ایک حادثہ ہی کہوں گا. میرے والد صاحب مشرقی پاکستان میں مقیم تھے
اور میں ان سے ملنے وہاں گیا ہوا تھا. ڈھاکہ میں قیام کے دوران میری کیپٹن
احتشام سے ملاقات ہوئی. میری درخواست پر انہوں نے مجھے اپنی آئندہ آنے
والی فلم ’’چکوری‘‘ کے لئے ایک گیت گانے کا موقعہ فراہم کیا لیکن بعدازاں
حالات نے میرے حق میں کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ مجھے اس فلم میں اداکاری کی
پیشکش ہوئی. ابتدائی طور پر میں اس پیشکش کو قبول کرنے میں ہچکچا رہا تھا،
کیونکہ میں نہیں سمجھتا تھا کہ اداکاری میرے بس کا روگ ہے لیکن قسمت نے
میرے لئے کچھ اور ہی فیصلہ کر رکھا تھا اور آخر ِکار میں نے اس فلم میں
مرکزی کردار ادا کیا. خوش قسمتی سے فلم میگا ہٹ ہوئی اور لوگوں نے میری
کارکردگی اور گلوکاری کو پسند کیا اور اس طرح سے آغاز ہوا۔
آپ پاکستان فلم انڈسٹری کے بہترین اداکار کے طور پر شمار کئے جاتے ہیں.
اپنی کامیابی کے بارے میں آپ ہمیں کیا بتا سکتے ہیں؟
مجھے نہیں لگتا کہ مجھ میں کوئی غیر معمولی خصوصیات ہیں جن کی بناء پر میں
ایک اسٹار بن گیا ، یہ سب اٌس وقت کی مرہون ِ منت تھا جب میں شو بز کی دنیا
میں داخل ہوا اور مجھے چند بہت اچھے مصنفوں، ہدایتکاروں ، فلمسازوں، ساتھی
فنکاروں اور شاعروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا. ان سب نے میری مدد کی
اور میری کامیابی کے لئے ایک بہت اہم کردار ادا کیا. اس کے علاوہ میری
انتھک محنت کے سبب مجھے پزیرائی ملی. میرا یہ پختہ یقین ہے کہ کوئی بھی
انسان محنت اور لگن سے اپنے شبعے میں عروج حاصل کرسکتا ہے. میں ہمیشہ خلوص
نیت اور سخت محنت کے ساتھ اپنا کام کرتا ہوں اور نتیجہ خدا پر چھوڑ دیتا
ہوں. وہ ہمیشہ مجھے میری امید سے بڑھ کر دیتا ہے .
ابتداء میں آپ نے کس طرح سے شہرت کا سامنا کیا؟
ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک کامیاب اداکار بننے کے ساتھ آنی والی شہرت کا
سامنا کرنے میں ہر کسی کو بہت مشکل پیش آتی ہے اور اس کے لئے پاؤں زمین پر
رکھنا مشکل ہوجاتا ہے. مزید برآں، جب کسی کو شہرت ملتی تو وہ اسکا مزید
متقاضی ہوجاتا ہے اور اسکی کوئی حد نہیں رہتی، میں نے اداکاری کو ایک عمومی
کام ہی کے طور پر لیا اور خود کو کبھی ایک اسٹار نہیں سمجھا اور نہ ہی کبھی
شہرت کو اپنے سر پر سوار کیا۔
آپ کسی فلم کی پیشکش کو قبول کرنے سے پہلے کن چیزوں پر غور کرتے ہیں؟
میری پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ میں یہ دیکھوں کے جس کردار کے لئے مجھے
منتخب کیا گیا ہے وہ میری شخصیت سے (جسمانی اور نفسیاتی) طور پر قریب ہے کہ
نہیں. فلمساز عام طور پر اپنی فلم میں کسی خاص اداکار کو باکس آفس پر اسکی
قدر و منزلت کو مد ِنظر رکھتے ہوئے کاسٹ کرتے ہیں، لیکن یہ فیصلہ کرنا
اداکار کی ذمہ داری ہے کہ اٌس کردار کے ساتھ انصاف کر سکتا ہے یا نہیں۔
کمرشل سنیما میں شاز و نارد ہی عمیق مطالعہ کی ضرورت پیش آتی ہے ، ہمارے
مرکزی کرداروں کے لئے بہت زیادہ غور و فکر کی ضرورت نہیں پڑتی ہے لیکن میں
نے ہمیشہ بہت منتخب کام کیا گیا ہے.
کہا جاتا ہے کہ ہر ہدایتکار دوسرے ہدایتکار سے بہت مختلف ہوتا ہے ، ایک فلم
بنانے میں ہدایتکار کا کیا کردار ہوتا ہے؟
ٹیلی ویژن اور فلم ہدایتکار کے میڈیم ہیں، تکنیکی عملے سے لیکر اداکاروں تک
وہ سب سے بہترین کام لے سکتا ہے، ، ہدایتکار فلم کے جمالیاتی اور ڈرامائی
پہلوؤں کو کنٹرول کرتا ہے. میری نظر میں وہ فلم کے یونٹ کا اہم رکن ہے جو
ایک بٌرے ڈرامہ کو ایک اچھوتا موڑ دے سکتا ہے اور وہ اپنی کارکردگی سے ایک
سست اختتام کو مہارت کے ساتھ نمٹنے ہوئے اسکے سٌقم چھپا سکتا ہے۔
اداکاری میں چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج کی کتنی اہم ہیں؟
اداکار کو اپنی باڈی لینگویج پر مکمل دسترس ہونی چاہئے. وہ اپنے ہاتھوں،
چہرے کے تاثرات اور اشاروں کی مدد سے اپنے کردار میں ذندگی پھونک سکتا ہے.
ایک اداکار اپنے ناظرین پر اس وقت تک تاثر نہیں چھوڑ سکتا ہیے جب تک اس کی
اداکاری بھرپور اور اسکے چہرے کے تاثرات، باڈی لینگویج میں اکملیت نہ ہو۔
کیا آپ نے کبھی تھیٹر کیا ہے؟
میں نے تھیٹر کبھی نہیں کیا، کیونکہ میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو ہدایتکار کا
زیر ِ نگیں (ڈاریکڑز بوائے) سمجھا ہے. جبکہ تھیٹر خالصتاْ ایک اداکار کا
میڈیم ہے اور جب ایک بار کوئی اداکار اسٹیج پر آ کھڑا ہوتا ہے تو اب یہ اس
کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس طرح اٌس کردار کو ادا کرتا ہے. اسٹیج پر اداکار کے
کاندھوں پر ہی سارا بوجھ ہوتا ہے اور وہ کسی وقفے اور ریٹیک کے بناء ہی
اپنی غیر معمولی اور بے عیب کارکردگی سے عوام کو تفریح مہیا کرتا ہے اور
اسکے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
کیا آپ نے کبھی کوئی مکمل کامیڈی فلم کی ہے؟
میں نے کئی فلموں میں مزاحیہ کردار کئے ہیں. میری دوسری فلم ’’چھوٹے صاحب‘‘
ایک مزاحیہ فلم تھی. دیگر مزاحیہ فلموں میں ’’نادان‘‘ اور ’’اناڑی‘‘ شامل
ہیں. مجھے ہمیشہ مزاحیہ کردارنگاری میں سنجیدہ اداکاری سے زیادہ لطف آیا
ہے۔
کیا آپ نے کبھی کوئی منفی کردار بھی ادا کیا؟
میں نے فلم ’’سماج‘‘ میں ایک منفی کردار ادا کیا. یہ وہ وقت تھا جب میں
اپنے پیشے کی چوٹی پر تھا اور سب نے مجھے خبردار کیا کے میں اِس وقت ایک
منفی کردار کر رہا ہوں اور اٌن کا خیال تھا کہ اس سے ہیرو کے طور پر میرا
تاثر خراب ہوسکتا ہے اور مجھے کبھی بھی کسی اہم کردار میں کاسٹ نہ کیا جائے
گا۔ لیکن اس کے برخلاف میں نے ایک رسک لیا اور ولن کا کردار ادا کیا.
بعدازاں میں نے خود کو درست ثابت کر دیا کیونکہ اس منفی کردار میں میری
کارکردگی کی بے انتہا تعریف ہوئی۔
آپ نے بالی وڈ میں بھی کام کیا ہے ، ہمیں اس کے بارے میں کچھ بتائیں؟
میں نے ایک بھارتی فلم ’’دور دیش‘‘ میں کام کیا. یہ کہانی ایک ایسے نفسیاتی
شخص کے ارد گرد گھومتی ہے جو ایک لڑکی کو اغوا کرتا ہے لیکن بعد میں اسے اس
سے محبت ہوجاتی ہے. یہ فلم شمالی امریکہ اور کینیڈا میں فلمائی گئی تھی. یہ
ایک شاندار تجربہ تھا اور میں نے بھارتی فلم انڈسٹری کے لوگوں کو بہت
پروفیشنل پایا۔
یا آپ نے کبھی بالی وڈ کے لئے ایک اور فلم کرنے کے سوچا؟
حال ہی میں چند آفرز موصول ہوئی تھیں، لیکن میں نے ان کو مسترد کر دیا
کیونکہ مجھے ان میں کوئی کشش نظر نہ آئی. اگر کوئی اچھی تجویز میرے سامنے
آئی تو میں نے اسے ضرور آزماؤں گا۔
اپنے ذاتی پروڈکشن ہاؤس کے بارے میں کچھ بتائیں؟
میرا ایک چھوٹا سا پروڈکشن ہاؤس ’'لینس اینڈ لائٹ'‘ کے نام سے ہے. میں نے
اس کے بینر تحت فلم ’’آئینہ‘‘ کا ایک ڈرامہ ورژن بنایا جسکی ہدایتکاری
میرے صاجبزادے نے کی تھی. ایک اور ڈرامہ سیریل زیر ِتکمیل ہے جس کی ہدایت
میرے بڑے صاحبزادے دے رہیں ہے. تاہم اس بینر کے تحت فی الحال کوئی فلم زیر
ِغور نہیں۔
جب آپ اپنے کیرئیر کے عروج پر تھے تو کیا آپ کے لئے اپنے گھر والوں کے لئے
وقت نکالنا مشکل تھا؟
اپنے گھر والوں کیلئے وقت نکالنا میرے لئے کبھی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ میں
نے ہمیشہ بہت منتخب کام کیا. میں اپنے فلمساروں کو یہ بتادیا کرتا تھا کہ
میں صرف ابتدائی شفٹوں ہی میں کام کروں گا، میرا دیگر وقت اپنے گھر والوں
اور دوستوں کے لئے تھا. میں تمام فلمساز اور ہدایتکار میں اس بات کے لئے
مشہور تھا کہ میں اپنی استعداد سے زیادہ کام نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ اپنے
کیرئیر کے عروج میں بھی ہفتے میں ایک روز اتوار یا جمعہ کو چھٹی کیا کرتا
تھا تاکہ میں اپنے خاندان کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکوں۔.
آپ کے لئے ہیرؤ سے کیریکڑ ایکٹر تک کی منتقلی کس قدر مشکل تھی؟
میرے لئے یہ مشکل نہ تھا کیونکہ میں نے اسے بڑی ہی خوشی کے ساتھ قبول کیا
ہے، یہ ہیرو سے کیریکڑ ایکٹر میں منتقل ہونے کا صحیح وقت ہے. میں نے اوائل
عمری میں ہیرو کے کردار ادا کئے اور اب میں باغ میں گانے اور رقص کر تے کسی
نوجوان لڑکی کے ہمراہ رومانس نہیں کر سکتا. میری عمر مجھے ایسا کرنے کی
اجازت نہیں دیتی۔
پاکستانی فلم انڈسٹری نے آپ کو اتنا کچھ دیا ہے. کیاآپ نے اسے اچھی فلموں
کی شکل میں کچھ واپس دینے کا سوچا؟
میں نے دو فلموں بنائیں ہیں. میری پہلی ’’مٹی کے پتلے‘‘ مزدور و سرمایہ دار
کے سنگین مسئلہ پر روشنی ڈالتی ہے. یہ باکس آفس پر ایک کامیاب فلم نہیں تھی
کیونکہ اس میں معاشرے کی مسخ شدہ تصویر پیش کی گئی تھی لیکن اسے روس نے
ایوارڈ سے نوازا تھا. میں نے ایک پنجابی فلم ’’مکھڑا‘‘، بنائی تھی جو کہ
ایک ہٹ فلم تھی۔ اِس وقت ہماری فلمی صنعت کی حالت بہت خراب ہے اور میں
سرمایہ کاری کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، اسی وجہ سے میری مکمل توجہ ڈراموں
کی پروڈکشن پر ہے۔
ایک طویل عرصے تک فلم انڈسٹری کا حصہ رہنے کے بعد ٹیلی ویژن پر کام کرننا
کس قدر مشکل تھا ؟
بلاشبہ دونوں میڈیم میں فرق کی وجہ سے تھوڑا مشکل تھا ، لیکن میں جلد ہی اس
کا عادی ہو گیا. فلموں اور ٹیلی ویژن میں رفتار کا فرق بھی ہے. فلموں میں
پوری کہانی ڈھائی گھنٹے کے اندر اندر بیان کرتے ہیں جبکہ ایک ڈرامہ میں
چونکہ بہت سا وقت ہوتا ہے وہ 13-14 اقساط تک چلتا ہے اور کہانی آہستہ آہستہ
آگے بڑھتی ہے. میں نے خود کو ٹیلی ویژن کے لئے ایڈجسٹ تو کرلیا لیکن مجھے
نہیں معلوم کہ میں کس حد تک کامیاب رہا ہوں۔
بالی وڈ کے لیجنڈ اداکار امیتابھ بچن کی فلموں میں ایک بڑی شاندار واپسی
ہوئی ہے، کیا ہمیں آپ سے بھی یہ ہی امید کرنی چاہئے؟
میں نے فلم انڈسٹری کو نہیں چھوڑا ہے ، وہ میری پہلی ترجیح ہے اور اس میں
زیادہ آرام دہ محسوس کرتا ہوں فلموں میں کام کرنے سے صرف اس لئے پیچھے ہٹا
ہوں کیونکہ ہماری فلمی صنعت میں اچھی فلمیں نہیں بن رہیں۔ پھر سے اچھی
فلمیں دوبارہ تیار کرنے کے قابل ہو نے میں ابھی وقت درکار ہے. اس کے برعکس
بھارتی فلم انڈسٹری عروج پر ہے اور اداکاروں کو اپنی صلاحیتوں کا لوہا
منوانے کے لئے زیادہ مواقع فراہم کررہی ہے. جہاں تک امیتابھ کا تعلق ہے تو
وہ ایک لیجنڈ اداکار ہے. میں نے کسی کو بھی ان سے زیادہ پھرپور لگن کے ساتھ
سخت محنت کرتے نہیں دیکھا ہے اور وہ ایک عام کردار کو یادگار بنانے کی
پھرپور صلاحیت رکھتے ہیں. انہیں ہدایتکاروں، فلمساروں، اور مصنفوں سے، جو
ان کو ذہن میں رکھتے ہوئے کردار لکھتے ہیں سےبھرپور مدد ملتی ہے. اگر ہماری
صنعت بہتر حالت میں ہوتی تو میں ٹیلی ویژن سے فلموں میں کام کرنا ذیادہ
پسند کرتا۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ اداکار عام زندگی گزارتے ہیں؟
یقینا ان کی زندگی ایک عام انسان کی طرح ہی ہے ماسواء یہ کہ وہ عوام کی
ملکیت بن جاتے ہیں. اپنے کالج کے دنوں کے دوران میں نے بہت کرکٹ کھیلی. میں
نے ناظم آباد اور پاپوش نگر کے تمام میدانوں میں کرکٹ کھیلی ہے. دوستوں کے
ساتھ باہر جانا اور باہر کھانا مجھے بے حد پسند تھا لیکن اب میں ایک عام
آدمی کی طرح یہاں وہاں گھوم نہیں سکتا کیونکہ میں ایک جانا جاتا چہرہ ہوں
اور جب بھی میں گھر سے باہر قدم رکھتا ہوں لوگ مجھے پہچان لیتے ہیں۔ مجھے
اپنے الفاظ اور اعمال کے حوالے سے بہت محتاط رہنا پڑتا ہے کیونکہ میں نہیں
چاہتا میرے پرستاروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔
آپ کی خیال میں کامیاب ہونے کے لئے کس شئے کی ضرورت ہوتی ہے -- صلاحیت یا
تعلیم ؟
کوئی بھی تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا ہے. ایک شخص جو چھوٹا سا
پان شاپ یا ایک کثیر القومی کمپنی چلا رہا ہے دونوں ہی کے لئے یہ ضروری ہے
. یہ تعلیم ہی ہے کہ جو ہماری زندگی ہماری سوچ میں مثبت تبدیلی لاتی ہے اور
ہماری حدود کو وسعت بخشتی ہے. اگر ایک اداکار باصلاحیت ہے تو تعلیم اس کی
شخصیت کو مزید نکھارنے میں مدومعاون ثانت ہوتی ہے۔
فلم اسٹار ندیم بطور ایک انسان کیسے ہیں؟
میں ایک عام انسان ہوں اور مجھ میں شخصیت کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں.
میں ایک سادہ انسان ہوں اور میں خود کو کبھی ایک فلم سٹار نہیں سمجھتا، یہ
صرف میرے لئے ایک کام ہے جسے میں نے مکمل مہارت کے ساتھ کرنے کی کوشش کی
ہے۔
کیا آپ نے کبھی اپنا شخصی تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے؟
میں ہر لمحہ اپنا تجزیہ کرتا ہوں. ایک اداکار کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ
فلموں میں مختلف کردار ادا کرتا ہے اور اس کی اصل شخصیت کہیں کھو کر رہ
جاتی ہے. یہ بہتر ہو گا اگر آپ ان کرداروں کی نفی کرکے اپنی ذاتی شخصیت کو
برقرار رکھنے کے قابل رہیں. میرے معاملے میں، وہ خصوصیات جو مجھے اپنے
خاندان سے وراثت میں ملیں ہیں، میری شخصیت پر انکو غلبہ حاصل ہے۔
آپ کے پسندیدہ اداکار کون ہے؟
ویسے میرے پسندیدہ فنکاروں کی فہرست بہت طویل ہے اور ان میں سینئر اور چند
جونیئرز فنکار بھی شامل ہے. دلیپ کمار ہمیشہ سے میرے پسندیدہ اداکار ہیں.
لوگوں کا کہنا ہے کہ میں نے انہیں کاپی کیا ، لیکن یہ سچ نہیں ہے. ان کی
طرف سے میری بہت زیادہ حوصلہ افزائی ہوئی. شروع میں میں نے ان کی اداکاری
کے اسٹائل کی کاپی کرنے کی کوشش کی لیکن بعدازاں میں نے اداکاری میں اپنا
ذاتی انداز اختیار کیا۔
آپ نے چند ٹی وی شوز بھی کی میزبانی کی ہے لیکن آپ نے میزبانی کے سلسلے کو
برقرار نہیں رکھا. کیا آپ کسی پروگرام کی دوبارہ میزبانی کریں گے؟
جی ہاں میں نے پی ٹی وی پر ’’میرے ندیم‘‘ کی میزبانی کی لیکن میں اسے جاری
نہ رکھ سکا کیونکہ مجھے بیرون ملک جانا تھا. میں نے ایک نجی چینل پر ایک
پروگرام کی میزبانی بھی کی ہے. مستقبل میں اگر میں کوئی اچھی آفر موصول
ہوئی تو میں ضرور کروں گا۔
اپنے ڈریم کردار کے بارے میں ہمیں بتائیں؟
کوئی بھی کردار ایسا نہیں ہے کہ میں اسے اپنے ڈریم کردار کہوں. میں صرف ایک
ایسا کردار، جس میں کارکردگی کی گنجائش ہو کرنا چاہتا ہوں. میں ایسا
چیلنجنگ کردار ادا کرنا چاہتا ہوں جو کوئی دوسرا اداکار نہ کرنا چاہے۔.
کیا آپ نے کبھی بھی اداکاری کے میدان میں نوجوانوں کی تربیت بارے میں سوچا
ہے؟
نہیں، میں نے کبھی نہیں سوچا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ اگر کوئی انفرادی طور
ایسا کرتا ہے تو اسکا بنیادی مقصد آمدنی پیدا کرنا ہو سکتا ہے. مجھے نہیں
لگتا کہ یہ ایک شخص کا کام ہے. لوگوں کے ایک تجربہ کار گروپ کی مشترکہ
کوششوں کی ضرورت ہے جو طالب علموں مین اپنی دانش اور مہارت منتقل کر سکے.
طلباء کی کوششوں کو تسلیم کرنے کے لئے کوئی پروفیشنل ڈگری بھی ہونی چاہیے۔.
کیا آپ کو زندگی میں کوئی پچھتاوا ہے؟
نہیں ، مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے. لوگ مجھے چاہتے ہیں اور ان کی دعائیں
میرے ساتھ ہے اور مجھے کیا چاہیے؟
ٹیلی وژن کے مقابلے میں ، ایک فلمی اداکار کبھی نہیں مرتا آپ اس بات کو کس
طرح دیکھتے ہیں؟
فلم زندگی/حقیت سے بالا تر (لارجر دھین لائف) شئے ہے اور فلم کے تاثر کو
ٹیلی ویژن پر محسوس نہیں کیا جا سکتا ہے. ایک شخص اپنے کمرے میں ٹی وی
دیکھتے ہوئےدوسرا کام بھی کرسکتا ہے ، لیکن ایک فلم دیکھنے کے لئے وہ اپنے
گھر سے باہر قدم رکھتا ہے اور فلم کے مزے کا تجربہ کرنے کے لئے سنیما جاتا
ہے. کیونکہ اس فلم کو دیکھنے کے وہ رقم خرچ کرکے ٹکٹ خریدتا ہے، لہٰذا وہ
پابند ہے کہ وہ مکمل توجہ کے ساتھ ہر منظر کو دیکھے. وہ اداکاروں کی
کارکردگی کو جانچتا اور پھر اسی معیار سے انکی کارکردگی کا تعین کرتا ہے.
لیکن ٹی وی پر ایک ڈرامہ سیریل میں کئی اقساط ہوتیں ہیں اور ہم بعض اوقات
ایک اداکار کے سب سے زیادہ طاقتور منظر دیکھنے سے ہی محروم رھ جاتے ہیں. اس
لحاظ سے ایک فلم اداکار کا تاثر ہمیشہ ایک ٹی وی اداکار کے مقابلے میں
ذیادہ ہوتا ہے۔.
آپ ہماری فلم انڈسٹری کا ایک حصہ ہیں. کیاآپ ہمیں فلمی صنعت کے خاتمے کی
وجوہات بتا سکتے ہیں؟
پہلی وجہ پاکستان کی تقسیم تھا. ہم نے ایک اہم سرکٹ ڈھاکہ کو کھو دیا، بہت
سے اچھے فلم ساز یا تو وفات پاگئے یا صنعت کو چھوڑ گئے اور فلم انڈسٹری میں
ناخواندہ لوگوں کا غلبہ ہوگیا. انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے صنعت کو
برباد کر دیا۔
ہماری فلمی صنعت کو پھر سے زندہ کرنے کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے؟
ہماری فلمی صعنت راکھ سے اسی وقت ابھر کر باہر آسکے گی جب تعلیم یافتہ اور
نوجوان لوگوں اس میں داخل ہونگے۔ شعیب منصور کی ’’خدا کےلئے‘‘ اور ’’بول‘‘
کے ساتھ ہی اس عمل کا آغاز ہو چکا ہے. مہرین جبار نے بھی ایک اچھی فلم
بنائی ہے. ہمیں مذید اچھے فلم میکروں اور اچھی فلموں کی ضرورت ہے جو لوگوں
کو سینما گھروں میں واپس لاسکے. حکومت کی طرف سے حالات کو بہتر بنانے کے
لئےچند اہم اقدامات ناگزیر ہیں. کراچی میں ضروری بنیادی ڈھانچہ میسر ہے اور
اسے بہت اچھی فلمیں بنانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کیا آپ کو فلم انڈسٹری کی کمی محسوس ہوتی ہے؟
یقینا میں اسے بہت یاد کرتا ہوں. میں جو کچھ بھی آج ہوں وہ اس فلمی صنعت ہی
کے باعث ہے. میرا خیال تھا کہ ہماری فلموں کی آئیندہ سالوں میں بہت زیادہ
ترقی ہو گی اور ہمیں کام کرنے کے مزید مواقع ملے گے لیکن افسوس کی بات ہے
کے یہ نہیں ہوا. ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف چلے گئے۔
بشکریہ میگ دی ویکلی، کراچی، اشاعت: مورخہ 16 تا 22 جولائی، 2011ء
Nadeem – A Living Legend by WAJIHA JAWAID |