موت کا فرشتہ
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
تحریر: ذوالفقار علی بخاری
”نوکری کے لئے آئے ہو۔“ ہمارے سامنے بیٹھے اللہ بخش صاحب نے اپنے چشمے کو ٹھیک کرتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں جناب۔ہم توبیمہ کروانے آئے ہیں۔“ ہم نے یوں جواب دیا تھا کہ ہماری معصومیت شکل سے ٹپک رہی تھی جیسے غریب کے گھر کی چھت بارش کے زمانے میں قطرہ قطرہ پانی زمین پر نازل کرتی ہے۔
”ارے تم اندھے ہومیاں زلفی۔“ اللہ بخش صاحب نے بات سنتے ہی ہمارے اندھے ہونے کا فتوی جاری کر دیا۔
”جناب اندھے ہونے کا بیمہ سے کیا تعلق ہے۔“ ہم نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے اُلٹا سوال کیا۔
”بھئی بات سنو۔۔۔تم اس وقت تھانے میں ہو کسی بیمہ کروانے والے ادارے میں نہیں آئے ہو۔“ اللہ بخش صاحب کی بات سنتے ہی ہمارے کان کھڑے ہوگئے تھے۔
شمعون نے ایک بار پھر ہم سے ویسا ہی دھوکہ کیا تھا جیسے واپڈا کے محکمے والے اکثر کرتے رہتے تھے کہ لوڈشیڈنگ نہ ہونے کا کہہ کر بتی گھٹنوں غائب کر دیتے تھے اوردھونے کو پانی بھی نہیں ملتا تھا۔۔۔ارے بھئی منہ دھونے کی بات کر رہے ہیں۔
شمعون نے سرخ رنگ کی عمارت کے بارے میں ہمیں موٹرسائیکل سے اتارتے ہوئے یہی بتایا تھا کہ یہی بیمہ کرنے والے ادارے کا دفتر ہے لیکن اب اللہ بخش صاحب نے تھانے کا بتا کرہمارے ہوش گم کر دیئے تھے۔
ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ عمارت خوب صورت تھی اورمخصوص وردی کسی نے نہیں پہن رکھی تھی سب اہلکار سفید لباس میں گھوم پھر رہے تھے۔ تھانے کا سن کر خوف کے مارے ہماری کیا حالت ہوئی تھی یہ تو کوئی پہلی بار تھانے گیا ہو تو اُس سے حال دل پوچھ لیجئے۔ ایک زور دار آواز ہمیں واپس دنیا میں لے آئی۔
”اوئے خانہ خراب کا بچہ۔۔۔۔یہ کیا کر دیا ہے۔“ زمین پر ایک جانب گیلی مٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سپاہی نے ایک مسکین پٹھان سے کہا جو چوری کے جرم میں پکڑا گیا تھا۔ ”بھائی صاب۔ جب آتی ہے تو زور کی آتی ہے اور جب آجاتی ہے تو پھر رکتی نہیں ہے۔“ اُس پٹھان کے جواب نے ہمیں مسکرانے پر مائل کر دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوتا ہم نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔اللہ بخش کو اللہ بخشے گا لیکن ہم نے شمعون کو نہیں بخشنا تھا اُس نے ایک بار پھر ہمیں شرمسارکروا دیا تھا۔
پٹھان کی گیلی شلوار کو دیکھ کر سب سپاہی ہنس رہے تھے اور ہم شرمسار ہو رہے تھے کہ شریف آدمی تھانے میں ذلیل ہو رہا ہے۔ ہمارا آج کا دن بہت بُرا گذرا تھا۔
شمعون نے اُس دن کی حرکت کا بدلہ خوب ہم سے لے لیا تھا جب ہم نے اُس کی بوتل بدلی تھی۔
ہمیں بچپن کی استانی جی۔۔ارے وہ جو باجی طیبہ ہیں نا؟انہوں نے کہا تھا کہ اپنا بیمہ کروا لو، اگر زندگی نہ رہی تو پھر پیچھے رہ جانے والوں کوفائدہ حاصل ہوگا لیکن آج کے واقعے کے بعد ہم نے سوچ لیا تھا کہ بیمے کی رقم سے اچھا ہے کہ ہم خود محنت کرکے کمائیں اورہماری سات نسلیں کھائیں۔ہم نے ماموں نصراللہ سے ادھار لینے کا سوچ لیا۔اُن سے بات کرنے کے لئے جب گھر پہنچے تو وہ پہلے سے آگ بگولہ تھے۔اُن کے بیٹوں شہ روز اوربہروزکی شامت آئی ہوئی تھی۔
وہ مرغا بنے ہوئے تھے۔ ماموں سے نظر بچاتے ہوئے جب ممانی سے وجوہات دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ دونوں شہزادوں کا ادھار واپس نا کرنے پر یہ سلوک کیا ہے۔ ہم اپنی خواہش کو دل میں دبا کریوں وہاں سے فرار ہوئے کہ واردات کے بعد چارلس سوبھراج بھی کیا بھاگتاہوگا۔ہم اب دن رات یہی سوچتے ہیں کہ بھری جوانی میں ابا جی نے کام نہ کرنے پر ”گھر سے کیوں نکالا۔“ ٭٭٭٭٭
ہماری کئی دنوں کی التجا کے بعدماموں نصراللہ نے ہمیں ایک دن کے لئے ٹیکسی چلانے کو دی دے تھی۔
ہم بے روزگاری سے بہت تنگ تھے جیسے مہنگائی سے لوگ تنگ ہوتے ہیں تو ہم نے سوچا گذر بسر کے لئے ٹیکسی چلائیں گے تو خوب نوٹ کمائیں گے اور مرغ مسلم کھائیں گے لیکن ہمارے ساتھ بہت ہی غلط ہو گیا تھااور پہلے دن ہی عجب واقعہ پیش آگیا تھا۔ہمیں موت کا فرشتہ مل گیا تھا۔
ارے۔۔ارے! آپ یقین کریں کہ وہ واقعی موت کا فرشتہ تھا اُس نے خود بتایا تھا۔
اُس روزمحلہ عام خاص سے جب ہم نکلے، ارے بھئی یہ محلہ ہم جیسے کئی عام اورکئی نام نہاد خاص احباب کی بدولت”عام و خاص“ کے نام سے شہرت رکھتا تھا لیکن ہمیں اس میں کبھی کبھی خاص و عام میں بھی خوب صورت انسان بستے دکھائی دیتے تھے۔ہم نے اللہ کا نام لیا اور ٹیکسی کو لے کر فرید گیٹ پر آگئے جہاں پر یقین کامل تھا کہ ہمیں کوئی اللہ کا بندہ مل جائے گا اورروزی روٹی کا سلسلہ بن جائے گا۔
ایک اسی سالہ بزرگ دور سے ہی ہماری شکل کو دیکھتے ہی فوراََ پاس آئے اورانہوں نے ہم سے کہا:”بزرگوار جانا ہے۔“ ”چچا جی۔۔۔اپنی عمر دیکھو اورمیری صورت دیکھو کیا میں بزرگ لگتا ہوں۔“ میں نے بزرگ کی جانب انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ فورا سے ٹیکسی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئے۔
”ؓدنیا چاند پر پہنچ گئی ہے لیکن اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے۔“بابا جی نے پان کھاتے ہوئے جواب دیا تو ہم خاموش ہو گئے کہ وہ بہت ہی معزز انسان لگ رہے تھے۔
”کتنا کما لیتے ہوبیٹا۔“چچا نے اپنی کھانسی رکتے ہی سوال کیا۔ ”چچا جی۔۔اگرآپ نے ہمیں منہ مانگا کرایہ دیا تو پھر ہماری عیدی ہو جائے گی وگرنہ ہمیں تو روکھی سوکھی کھانی پڑے گی۔“ہم نے اپنے پیلے دانتوں کی نمائش پہلے یوں کی جیسے کوئی بلی کی چال چلتے ہوئے اپنے لباس کی کرتا ہے پھر ہنستے ہوئے جواب دیا تو بزرگ کی سنجیدگی نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مائل کردیا کہ کہیں ہمارے مذاق پر وہ ہمیں فاطرالعقل نہ سمجھ لیں۔
”آپ کو دو ہزار روپے دیں گے آپ نے بس یہ کرنا ہے کہ عیدگاہ چوک سے ریلوے چوک کی جانب جاناہے۔“ ایک لمحے کو بزرگ خاموش ہوئے پھر گویا ہوئے”آپ کا نام پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں۔“ ہمارے دل میں آئی کہ اس نیک فرشتہ صفت انسان کے ہاتھوں کو چوم لیں لیکن اگر ایسا کر لیتے تو اتنی دیر میں ٹیکسی نے کئی بندوں کی زندگیوں کے روشن چراغ گل کر دینے تھے کہ تیز رفتاری سے ٹیکسی کو یوں چلا رہے تھے جیسے پیچھے پولیس لگی ہو۔ ہم نے نہایت احترام سے جواب دیا۔ زلفی۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن سب بھائی جان کہتے ہیں۔“
ہم نے مسکراتے ہوئے جواب دیاہی تھا کہ وہ بزرگ زور سے چلائے۔
”روکو۔۔۔روکو۔۔۔ آگیا ہے۔۔۔وہ آگیا ہے نظر۔“ پہلے پہل ہم کچھ اور سمجھے تھے لیکن جب اُن کے ہاتھ کا اشارہ بیک مررر میں دیکھا تو سمجھ آئی کہ انہوں نے کسی نوجوان شخص کو جو اخبار بینی میں مصروف تھا اُس کی طرف اشارہ کرکے نظر آنے کا بولا تھا۔
”چچا جی۔۔۔کیا یہ آپ کا رشتہ دار ہے۔“ ہم نے ان کی گفتگو کو دیکھتے ہوئے بے حد مودبانہ انداز میں عرض کی۔
”زلفی میاں۔۔۔دیکھتے نہیں ہو، یہ بیچارہ اس سخت گرمی میں اخبار بینی میں مصروف ہے اوراپنا ہوش تک نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ اُسے بھی ریلوے چوک تک جانا ہو تو اس سے پوچھ لو کہ یہ جاناچاہتا ہے تو ہم اپنے ہی کرائے میں ساتھ لے جائیں گے۔“ بزرگوار مجھے کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگ رہے تھے۔
ہم نے ٹیکسی روکی، تیزی سے اُس صاحب کے پاس پہنچے اورپوچھا:”چلنا ہے۔“ ”ابے۔ کہاں لے کر جانا چاہتے ہو۔“ اُس کے منہ سے نکلنے والی آواز نے ہمیں ڈرا دیا تھا کہ وہ تیز لہجے کا مالک تھا۔ہم نے ابا جی کی ڈانٹ سننے میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی لیکن آج بزرگ مسافر کی باتوں نے دل موم کر رکھا تھا ہم نے پرسکون لہجے میں کہا۔ ”نیک دل بزرگ کی خواہش ہے کہ آپ مفت میں ریلوے چوک تک جانا چاہیں تو ہم سفربن جائیں۔“
”ابے۔۔۔مفت میں۔۔۔چلو پھر۔“ نوجوان نے تیزی سے ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور بزرگ کے ساتھ بیٹھ گیا لیکن یوں ظاہر کیا جیسے وہ اُن کی موجودگی سے ناواقف ہو۔
”واہ بھئی واہ۔۔زلفی میاں۔۔آج تم نے نیکی کرلی ہے جو تاقیامت تمہارے نامہ اعمال میں لکھی جائے گی اور تم حوروں کے ساتھ رہو گے۔“ اب بزرگوار مجھے خلائی مخلو ق لگ رہے تھے۔
”بابا جی۔۔۔۔دنیا میں عیاشی ہوئی نہیں ہے اور ہم نے حور کیا ابھی تک تو لنگور بھی نہیں دیکھا ہے۔“
ہم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا لیکن جوشخص ٹیکسی میں بیٹھا تھا وہ ہمیں بہت ہی عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ہم نے اُسے نظر انداز کرتے ہوئے پھر سے بابا جی سے سوال کیا۔
”آپ کی زندگی کی بہترین یاد کونسی ہے جس نے آپ کے دل کو بہت متاثر کیا ہو۔“ ہم نے ایک مشہور صحافی کے انداز میں سوال کیا تو وہ شخص جو کافی دیر سے ہماری اور بزرگوار کی گفتگو سن رہا تھا وہ بول اُٹھا۔ ”اوئے۔۔۔۔تو کہیں پاگل تو نہیں ہے۔۔۔کہیں تیرا دماغ تو سٹھیا نہیں گیا ہے۔“
ایک لمحے کی خاموشی کے بعد پھر سے بولا”تم کب سے بول رہے ہو اورمجھے حیرت ہے کہ میں تم سے بات نہیں کر رہا ہوں اور تم پھر بھی بات کیے جا رہے ہو۔۔۔کہیں تم نفسیاتی مریض تو نہیں ہو۔“ اُس کی باتوں نے ہمارے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔
”چچا جی۔۔دیکھیں آپ نے جس بندے کو مفت کی سواری دی ہے وہ کیسے اورکیا کیا باتیں کر رہا ہے۔“ میں نے چچا کومخاطب کرتے ہوئے ٹیکسی کی رفتار تیز کرتے ہوئے کہا۔انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا لیکن اچانک چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ بولے تو میری حالت خراب ہوگئی تھی۔
”بیٹا۔۔۔میں تو موت کا فرشتہ ہوں اور ہماری باتیں اورکوئی نہیں سن رہا ہے یہ تو ہماری آپس کی باتیں ہیں۔“ ان کی بات نے میرے ہوش گم کر دیے تھے۔
میں تیزی سے ایک خاتون کی گاڑی سے اپنی گاڑی کو ٹکر سے بچاتے ہوئے اپنی گاڑی کا بونٹ سڑک پر لگے کھمبے میں مار چکا تھا۔ ”بھاگو۔۔۔بھاگو۔۔۔بھاگو۔۔۔موت کا فرشتہ آگیا ہے۔“
میں نے گاڑی کا بونٹ زور سے کھمبے میں لگتے ہی اپنی طرف کا دروازہ کھولا اور تیزی سے یوں باہر نکلا تھا کہ جیسے ابھی وہ میری روح قبض کرکے جنت الفردوس میں میری کسی حور سے ملاقات کروا دیں گے۔اسکول سے گھر واپس جاتے ہوئے بچوں نے جب مجھے بولتے سنا تو وہ بھی زور سے چلائے۔
”پاگل۔۔۔پاگل۔۔۔۔پکڑو۔۔۔بچ کر نہ جائے۔“ میں نے اپنی شلوار کو زور سے تھام کر بھاگنا شروع کر دیا تھا کہ ازار بند ٹوٹ گیا تھا۔پھر میرا منہ بھی کھلا کا کھلا رہ گیا جب میں نے گاڑی کو ریویس گیئر میں موت کے فرشتے کو تیزی سے چلاتے ہوئے دیکھا تھا۔
وہ دوسرا شخص مجھے ٹیکسی میں بیٹھے ہوئے یوں دانت ہنستے ہوئے دکھا رہا تھا جیسے میں نے بچپن میں ایک کارٹون کو دیکھا تھا۔ واردات کے بعد جب ماموں نصراللہ کے پاس گیا تھا تو انہوں نے میری وہ کی تھی جو بس کوئی کسی کی عزت افزائی کرتا ہے۔
اُ س دن کے بعدسے مجھے موت کے فرشتے سے ڈر نہیں لگتا ہے لیکن ماموں نصراللہ کی بے عزتی سے خوب ڈر لگتا ہے کہ انہوں نے ہم سے پورا ایک سال اپنے دوست کے ہوٹل پر نہ صرف برتن دھلوائے تھے بلکہ تنخواہ بھی نہیں دی تھی لیکن ہم یہ نہ کہہ سکے کہ ”ساڈ ا حق ایتھے رکھ۔“ ۔ختم شد۔
( یہ کہانی ہفت روزہ مارگلہ نیوز انٹرنینشنل اسلام آباد میں شائع ہوئی) |