جنگ آزادی کشمیر کے ایک گم گشتہ مجاہد کی داستان حیات
پہلی بارمصنہ شہود پرآگئی۔ تحریک آزادی کشمیرمیں عام کشمیریوں پرسکھوں،
ڈوگرہ اوربھارتی فوج کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم،ہجرت کے جان گداز
واقعات،غدر میں ہنستے بستے خاندانوں کے بچھڑنے کے المناک واقعات، اپنے
خاندان کے 13 افراد کی جان کی وطن عزیز پر قربانی اور جدائی کے گہرے زخم جو
74برس بعد بھی مندمل نہیں ہو سکے ، عام کشمیریوں کے آزادی کشمیروپاکستان
کیلئے جذبات واحساسات اور بے سرو سامانی کے عالم میں قائم ہونے والی نوخیز
آزاد فوج کے ٹوپی دار رائفل ایسے معمولی درجے کے ہتھیاروں سے لیس دستے کیسے
جدید ہتھیاروں سے لیس اور اعلی تربیت یافتہ دشمن کی فوج کا مقابلہ کرتے رہے
اور مقبوضہ پونچھ کیسے فتح ہوتے ہوتے رہ گیا؟۔۔۔پونچھ شہر کے مسلمان
مجسٹریٹ نے توہین قرآن پر احتجاج کرنے والے سینکڑوں قیدی مسلمانوں کو بغیر
کسی ضمانت کے نماز کیلئے رہا کر دیا تو راجا پونچھ پر کیا گزری؟محاذ جنگ پر
جنگل میں گشت کے دوران ریچھوں کے غول سے ٹکراو اور ایک ریچھ پر سواری کتنی
مہنگی پڑی ۔۔۔ یہ سب اور ایسے بیسیوں تاریخی واقعات کو پہلی بار سینئر
کشمیری صحافی رفیق حسین بٹ کی تصنیف"دھرتی کا فرزند" میں سمندر کو کوزے میں
بند کرنے کے مصداق سمودیا گیا ہے ۔۔ یہ کتاب 1947 کی مسلح تحریک آزادی
کشمیر میں پونچھ کے محاذ پر بر سر پیکارآزاد فوج کے اس دستے کے ایک مجاہد
غلام محمدبٹ جو مصنف کے پدر بزرگوار بھی ہیں کی سوانح حیات ہے اس دستے کی
قیادت سردار عبدالقیوم خان کرتے تھیجو بعد میں مجاہد اول کے لقب سے مشہور
ہوئے اور آزادکشمیر کے صدر اور وزیراعظم بھی رہے۔ غلام محمد بٹ انگریز فوج
کے اعلی تربیت یافتہ جوان اور اپنے فوجی دستے کے گائیڈ بھی تھے اس فوجی
دستے کو قیوم بریگیڈ بھی کہا جاتا تھا غلام محمد بٹ سمیت اس دستے کے
جوانوں/مجاہدین کے بارے میں سردار عبدالقیوم خان کا کہنا تھا کہ میرے جنگ
آزادی کیساتھی بعد میں کبھی مجھے ملنے نہیں آئے۔ غلام محمد بٹ کی سوانح
حیات میں کشمیر کی تاریخ وتہذیب کے مختلف ادوار اور جنگ آزادی کیاہم واقعات
کو غلام محمد بٹ کی یادداشتوں کے مطابق تحریر کیا گیا ہے۔ کتاب طلوع پبلی
کیشنز باغ کے زیر اہتمام شائع کی گئی ہے۔ کتاب کی اشاعت پر ملک کی نامور
ادبی صحافتی شخصیات پروفیسر فتح محمد ملک، پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک ، ڈاکٹر
انعام الحق جاوید ، سینئر صحافی حامد میر ، علامہ جواد جعفری ،پروفیسرشفیق
راجا ،دلشاد اریب، زبیر حسن زبیری ، صحافی شکیل انجم ، شہباز گردیزی اور
دیگر نے انتہائی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے مصنف کو دل کھول کر داد دی ۔ کتاب
کی تقریب رونمائی بہت جلد منعقد کی جائے گی جس میں ادب سے وابستہ افراد
کتاب کے نقد و نظر کو پرکھیں گے۔ 300 صفحات پر مشتمل کتاب باغ آزاد کشمیر
اور اسلام آباد پاکستان کے مقررہ بک سینٹرز پر دستیاب ہے۔ یہ کتاب نہ صرف
کشمیریات بلکہ تاریخ و ثقافت ، مذہب ، روحانیت، جدید مشینی ترقی کے دور میں
ٹوٹتے بنتے خاندانی رشتوں ، سیاسی ، سماجی رویوں میں تبدیلی اور زندگی کے
دیگر معاشی معاشرتی اور انسانی پہلووں پر ریسرچ کرنے والوں،اساتذہ کرام
۔طلبہ، والدین اور سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ افراد کیلئے
گرانقدر سرمایہ ثابت ہو گی ۔۔
|