خدا وند قدوس کی وسیع وعریض کائنات کے ایک وسیع سیارہ کہ
جسے زمین کہتے ہیں اس پر گورے اور بندو بنیئے کے آپس میں بٹ کندھے والے
ملاپ اور "سرسائرل سرخ خضاب" کی قطع برید کےبعد بچ جانے والے ایک عدد قطعہ
زمین الموسوم پرانا مغربی پاکستان میں موجود ایک طویل ریلوے پلیٹ فارم
بمقام کوٹری پر کراچی کیطرف سے آنے والی کسی ریل گاڑی کے انتظار میں پلیٹ
فارم پر نصب آہنی شیڈ کے نیچے لگے سیمنٹ اور پتھر کے ملغوبے سے نبے سخت
کھردرے بینچ پر بیٹھا وقت گزاری کےلئے ہاتھوں میں قمر اجنالوی کا لکھا
مشہور و معروف ناول "دھرتی کاسفر" لئے اس کے مطالعہ میں اس قدر غرق تھا کہ
آس پاس سے اکا دکا گزرتے مسافروں اور وہاں پر قلیوں کی فوج ظفر موج سے
بالکل بے خبر تھا جو اپنی سرخ کڑتیوں میں ملبوس سینے پر سات روپیہ فی پھیرا
کے ٹیگ سجائے غول در غول اُدھر سے اِدھر اور اِدھر سے اُدھر آجا رہے تھے جس
سے معلوم ہو رہا تھا کہ گاڑی کے آنے کا وقت ہوا چاہتا ہے اور اگلے کسی لمحے
ہی اسٹیشن ماسٹر کی طرف سے دیئے گئے سگنل ڈراپ کے ساتھ ہی گاڑی اپنی تیز
کوک کے ساتھ اپنے کول انجن کی چھک چھک اوراور ڈبوں کی ایک لمبی قطار کی
پٹری کے ساتھ پیدا ہونے والے لمس کے بدل میں گھڑگھراہٹ اور چوں پھٹ کے ساتھ
ہی نمودار ہو گی اور پلیٹ فارم کی بے رونقی ایک دم کسی میلے میں بدل جائے
گی جس میں گاڑی کے شور ، انسانی آوازوں اور ٹھیلے والوں کے برتنوں کی
جلترنگ سے پر سکوت فضا میں ایکدم سے ارتعاش پیدا ہوں گے جس سے کان پڑی آواز
تک نہیں سنائی دے گی۔
میں اپنے خیالات اورمصنف کے ساتھ دھرتی کے اس سفر کی محویت سے اس وقت چونکا
جب ایک نوجوان قلی جو کہ مناسب قد کاٹھ اور کھلتی رنگت کے ساتھ عمر میں
کوئی اٹھائیس تیس سال کے لگ بھگ لگ رہا تھا میرے سامنے آکر بیٹھ گیا۔ اور
میرے متوجہ ہونے پر مجھے سلام کہتےہوئے بولا۔
سائیں کدھر جانا ہے۔ میں نے جواب دیا فیصل آباد۔
سائیں میرے پاس سیٹیں اور برتھیں ہیں۔ سیکنڈ کلاس کی۔ سرگودھا تک ، اسی آنے
والی سپر ایکسپریس میں۔
میں نے جواب دیا کہ نہیں میری سیٹ ریزرو ہے۔
اچھا تو سائیں کون سا ڈبہ اور سیٹ ہے۔
میں نے جواب دیا کہ چار نمبر بوگی میں نو نمبر سیٹ اور ساتھ برتھ ہے۔
۔پر سائیں ،گاڑی آنے میں ابھی پندرہ بیس منٹ ہیں۔ اور گاڑی پلیٹ فارم نمبر
تین پر آئے گی۔اور آپ کاڈبہ اس بک سٹال کے تھوڑا پیچھے لگے گا۔ اور آپ کو
ان سیڑھیوں اور پل کی مدد سے تین نمبر پلیٹ فارم پر جانا ہو گا۔ اگر کہیں
تو آپ کا سامان وہاں پہنچا دوں۔
ہاں ٹھیک ہےپر کتنے پیسے میں؟۔ وہ بولا دیکھ لو صاحب۔ دو باکس ہیں آپ کے۔
تیس روپیہ لوں گا۔
میں نے کہا دیکھو بھائی۔ ہلکے ہلکے دو باکس ہیں اور آپ نے اکٹھے ہی تو
اٹھانے ہیں۔ آپ کا سرکاری ریٹ سات روپیہ فی پھیرا ہے۔میں دس دے دوں گا۔
بولا، ارے سائیں۔ اس پلیٹ فارم پر سات سال پہلے میرے ابو بھی سات روپیہ فی
پھیرا پر کام کرتے رہے۔ اب تو ان کو فوت ہوئے بھی چھ سال ہو گئے۔ ہم غریبوں
کی مزدوری کوئی آپ جیسے بابو لوگوں کی تنخواہ یا پنشن تھوڑی ہے۔ جسے بجٹ
میں بڑھایا جائے۔ زرا دیکھو تو کتنے قلی ہیں۔ مسافرکم آتے جاتے ہیں۔ سندھ
میں گندم کی کٹائی کا سیزن ہے سائیں!۔ لوگ اپنے کھیتوں میں مزدوری کریں یا
سیر سپاٹے۔ کبھی کام بنتا ہے کبھی نہیں۔ وہ تو بھلا ہو۔ اِدھر ہمارا ایک
وڈیرا سائیں ہے۔ سنا ہے اسکی ایک بہو کراچی سے آئی ہوئی ہے۔ کسی امیر ماں
باپ کی اولاد ہے۔ دوپہر کو ان سب پندرہ بیس قلیوں کا کھانا اپنے گھر سے
اپنے نوکر خمیسو کے ہاتھ بھیج دیتی ہے ۔اللہ سائیں کا شکر ہے۔ کام نہ بھی
ملے۔ مگر دوپہر کا کھانا تو ملتا ہے ۔
میں نے کہا ٹھیک ہے۔ تیس روپے میں طے ہو گیا۔ اس نے مجھے اپنا نام امیر
محمد بتایا تھا۔
اب امیر محمد میرا سامان اٹھائے جا رہا تھا۔ اور میں اس کے پیچھے چلتا ہوا
س ڈیرے سائیں کی بہو کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ واقعی اس خاتون کا یہ عمل
اللہ کے ہاں کتنا پسندیدہ ہے جو معاشرے کے اس محروم طبقے لیئے اپنے دل میں
ہمدردی کا جذبہ رکھتی ہے۔
بک سٹال کے ساتھ لگے بنچ پر سامان رکھتے ہوئے اس نے مجھ سے اپنی مزدوری لی
اور بولا۔ لو سائیں میرا بوجھ تو اتر گیا۔ اس دنیا میں ہر دوسرا تیسرا شخص
قلی ہے اور اپنے بوجھ تلے دبا ہے۔
اس ایک فقرے نے میرے اندر کے ضمیر کو ایک لمحے کے لیئے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اب میں اس کو پہچان چکا تھا۔ یہ نوجوان محض قلی نہیں تھا۔ گاڑی آنے میں
ابھی دس بارہ منٹ تھے۔میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اور کہا۔ امیر محمد میرے
ساتھ چاہے تو پی کر جاؤ۔ میں نے قدرے بے تکلفی سے کہا۔ میری اس دعوتِ شیراز
پر وہ رک گیا ۔اور قدرے دھیمےلہجے میں گویا ہوا۔ واہ اللہ سائیں کھانا بھی
کھلاتا ہے اور چائے بھی پلاتا ہے۔شام کے پانچ بجنے والے تھے۔ عصر کی چائے
کا وقت تھا۔ سوچا امیر محمد سے تھوڑی گپ شپ بھی رہے گی۔
چائے کے دوران مجھ سے رہا نہ گیا اور میں پوچھ بیٹھا۔ امیر محمد آپ کن
قلیوں کی بات کر رہے تھے۔ بولا۔ بس سائیں وہ قلی پلیٹ فارم کے قلی نہیں
ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے معاشرے میں آئے روز ملتے رہتے ہیں۔ ان ریل گاڑیوں میں۔
دفاتر اور بنکوں میں۔ ہسپتالوں ، فیکٹریوں اورکارخانوں میں۔ اسمبلیوں ،
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں۔ چوک چوراہوں اور بازاروں میں۔ ہر جگہ۔
اب میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ امیر محمد کیا بات کرتے ہو۔ سائیں میں ٹھیک
کہ رہا ہوں۔دیکھو سائیں ان کے بوجھ آپ کو نظر نہیں آتے۔ میں قلی ہوں نا۔
میں ان کے بوجھ کو سمجھتا ہوں۔میں نے بھی اپنی محرومیوں کا بوجھ اٹھایا ہوا
ہے۔ کچھ لوگ اپنی اناؤں کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ کوئی حسد اور بغض کا بوجھ
لیئے پھرتا ہے۔ کوئی تکبر کا تو کوئی اپنے علم کا۔ اور کوئی اپنی عبادت اور
تقوے کا۔ کوئی اپنی خواہشات کا اور کوئی اپنی نفسیاتی بیماریوں کا بوجھ
لیئے پھرتا ہے۔۔یہ بھی عجیب بیماریاں ہیں کہ فلاں نے کیا پہنا ہوا ہے۔ ارے
جو بھی پہنا ہے تجھے کیا۔ کیا تیرا کچھ چھین کر پہنا ہے۔ یا تجھے وہ ننگا
دِکھ رہا ہے؟۔ اچھا فلاں کیا کھاتا ہے۔ ارے بھئ جو بھی کھا تا ہے کیا تجھے
بل آرہا ہے؟۔ یا تیرے کھاتے میں کھا رہا ہے کیا؟۔اچھا جی فلاں کیا کر رہا
ہے۔ او بھائی تو نے اسے نوکری یا تنخواہ دینی ہے یا راشن ڈلوانا ہے اس کے
گھر۔ جو کر رہا ہے سو کر رہا ہے۔ کیا اس کی چوری یا ڈاکے کی رپورٹ ہوئی ہے
تھانے میں۔ !۔ نہیں نا۔ تو پھر کیا؟۔ بھئی کرنے دو جو کر رہا ہے تجھے کیا
پڑی ہے۔ فلاں کس چیز پر آیا ہے۔ ارے واہ۔ تو نے کرایہ دینا ہے اس کا ۔ یا
پٹرول بھروانا ہے اس کی گاڑی میں ۔ کیا ٹائر پنکچر کا بل دینا ہے۔ بھئ آپ
کو کیا پیدل آئے۔ بھبھو کاٹ سکوٹر یا بگھی سے ۔ میری بلا سا مجھے اور تجھے
اس سے کیا لینا دینا۔ ہمیں کیا پڑی ہے کھوج لگانے کی!۔
اچھا فلاں کس کو ملتا ہے۔ او بھائی تو اپنا کام کر۔ ملنے دے اے جس کو بھی
ملے۔ تجھے ملے مجھے ملے یا کسی کو بھی ملے۔ بیشک کالے چور کو ملے۔ چاہے صدر
پاکستان کو ملے۔کسی فیضان جان کو ملے ہماری طرف سے علی جان کو ملےیا پھر
فضل الرحمان کو ملے ۔ جس کو دل چاہے ملے۔ ہم نے کونسا کسی کی دعوت کرنی ہے۔
لوگوں کے ذہن بھی عجیب ہیں۔ اس کے پاس فون کون سا۔ او بھائی تجھے کاہے کی
فکر۔ تو نےاس کو لوڈ کروانا ہے ۔ تو نے کوئی نیا ٹیچ موبائیل لے کر دینا
ہے۔ بھئ اتنی الجھن کس لیئے؟۔ پتہ نیں یہ ویہلے لوگ اپنا اپنا کام کوں نہیں
کرتے۔ہر بندے نے اپنی ذات میں ایک خود ساختہ انٹیلی جنس بنا رکھی ہے ۔ جیسے
اپنے سارے کام کر لئیے ہیں اور بس اب صرف دوسروں کی خبر لینا باقی ہو۔
اس طرح کی اور بڑی بیماریوں اور الجھنوں کے بوجھ میں جکڑے لوگ پتہ نہیں کیا
کیا سوچ کر ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ امیر محمد میرے سامنے قلی کے لباس میں
کسی منجھے ہوئے لیچکرار کی طرح بولے جارہا تھا اور میں توجہ کے ساتھ سن رہا
تھا۔ چائے کی نصف مقدار کپ میں ٹھنڈی ہو چکی تھی کہ یکا یک ایک ہلچل ہوئی۔
گھنٹی بجی اور لاؤڈ سپیکر سے آواز گونجی ۔ معزر خواتین و حضرات تیرہ (۱۳)
اپ سپر ایکسپریس کراچی کینٹ سے سرگودھا جانے کیئے پلیٹ فارم نمبر تین پر
آنے والی ہے اور اس کے ساتھ ہی مطلوبہ گاڑی اپنی پوری آب وتاب اور شور
شرابے کے ساتھ ہمارے سامنے آ موجود ہوئی۔ اگلے لمحہ میں ایک قلی دوسرے قلی
سے الوادع ہوتے ہوئے قلیوں سے بھری گاڑی کی بھیڑ میں گم ہو چکا تھا۔
|