میں بچپن ہی سے نماز کی طرف راغب رہا ہوں‘ سن بلوغت سے
لے کر آج تک مسجد سے رشتہ نہیں توڑا۔ کبھی کبھار وقتی مصلحتوں کا ضرور شکار
رہا لیکن میری یہ سستی‘ کاہلی مکمل چشم پوشی میں نہیں بدلی۔صرف عشاء کی
نماز چھوڑ کر باقی تمام نمازیں باقاعدگی سے ادا کرتا ہوں۔ عشاء کی نماز
خاصی لمبی تھی اور پھر شیطان کا غلبہ بھی ہو جاتا تھا۔ کبھی سو جاتا اور
کبھی دوستوں کی محفل اٹھنے ہی نہ دیتی لیکن باقی نمازوں میں کسی قسم کی
سستی نہ برتتا۔ قربان لائن جامع مسجد کے امام مولانا محمد بشیر صاحب کا میں
بہت معتقد تھا‘ وہ میرے نزدیک عظیم روحانی شخصیت تھے۔اکثر اوقات ان کے ہاں
چلا جاتا تو گھنٹوں گفتگو کس سلسلہ چلتا رہتا ۔ میں دینی باتیں سیکھتا اور
ان پر عمل کرنے کی جستجو بھی کرتا۔ کئی مرتبہ ان سے حسب ضرورت تعویز بھی لے
لیتا۔ میرے والدین سمیت علاقے کے تمام لوگ ان کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ جب
بھی مجھے کوئی دینی یا دنیاوی مشکل پیش آتی تو میں انہی سے رجوع کرتا اور
ان کی دعاؤں اور اﷲ کے فضل و کرم سے وہ مشکل ِ بھی ختم ہو جاتی وہ سلسلہ
قادریہ سے تعلق اور نسبت رکھتے تھے۔
ایک رات میں میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک بڑے اور کشادہ ہال میں موجود
ہوں، غائب سے آواز آئی کہ تمام لوگ نگاہیں جھکالیں حضرت اویس قرنی ؓ تشریف
لا رہے ہیں۔ ہم اندھیرے میں کھڑے تھے، اچانک ہال میں زبردست روشنی(نور)
پیدا ہوئی۔ یوں محسوس ہوا کہ کوئی عظیم ہستی اس کشادہ ہال میں داخل ہوچکی
ہے بلکہ میرے سامنے سے گزری۔ جرأت کر کے جب میں انہیں دیکھنے کے لیے نظریں
اٹھانے لگا تو غائب سے آواز آئی خبردار کوئی شخص اپنی آنکھیں اوپر نہ کرے۔
آپ ؓ کے قدموں پر نظر پڑی تو وہ اس قدر روشن تھے کہ اس کا اظہار الفاظ میں
ممکن نہیں۔ یہاں کھڑے ہوئے ہم تمام لوگ اپنے آپ کو بہت چھوٹا محسوس کر رہے
تھے۔ ہال کا چکر لگا کر حضرت اویس قرنی رحمتہ اﷲ علیہ باہر چلے گئے۔
صبح جب میں نیند سے بیدار ہوا تو میرے دل میں ایک طوفان برپا تھا اور میں
اپنی خوش قسمتی پر بہت نازاں تھا کہ مجھے حضرت اویس قرنی ؓ کے قدم مبارک کی
زیادت کرنے کی توفیق ملی۔ میں نے یہ واقعہ مولانا محمد بشیر صاحب کی خدمت
میں عرض کیا۔ انہوں نے خواب کی تفصیل سن کر فرمایا کہ اﷲ کا تم پر خاص کرم
ہے۔ حضرت اویس قرنی رحمتہ اﷲ علیہ کی نسبت آپ کو کھینچ رہی ہے‘ اویسہ سلسلے
کے کسی بزرگ کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔ ساتھ ہی انہوں نے فرمایا کہ حضرت میاں
میر رحمتہ اﷲ علیہ کے دربار میں ضرور جایا کریں وہاں سے آپ کو فیض حاصل ہو
گا۔ چونکہ حضرت میاں میر رحمتہ اﷲ علیہ سے مجھے پہلے ہی والہانہ محبت تھی
اور میں ہفتے میں ایک بار ضرور دربار پر حاضری کے لیے جایا کرتا تھا اب
وہاں زیادہ مصمم ارادے سے جانے لگا۔
پھر ایک مرتبہ جب تھکا ماندہ رات کو سویا تو مجھے خواب آیا کہ زور دار
آندھی چل رہی ہے اور ہوا کی رفتار اتنی تیز ہے کہ میں ریلوے اسٹیشن لاہور
کینٹ کے پلیٹ فارم پر شمال سے جنوب کی جانب اڑا جا رہا ہوں۔ پلیٹ فارم پر
بیٹھنے اور چلنے پھرنے والے لوگ اس آندھی سے بے خبر ہیں لیکن وہ آندھی مجھے
زمین سے کئی فٹ اوپر تیز رفتاری سے اڑائے لے جا رہی ہے۔ پلیٹ فارم کے آخر
میں ‘میں نے ایک بزرگ کا مزار دیکھا لیکن ا س مزار پر لکھا ہوا بزرگ کا نام
نہیں پڑھا جا سکا۔ اس ہجوم میں میرے والد بھی دکھائی دیئے۔ میں بلند آواز
میں اپنے والد کو پکارتا رہا کہ خدا کے لیے مجھے تھام لو، لیکن میری چیخ و
پکار پر انہوں نے کوئی توجہ نہیں کی اوروہ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ جب
گھبراہٹ بہت بڑھ گئی تو میری زبان سے کلمہ طیبہ کا ورد شروع ہو گیا جیسے ہی
ورد شروع ہوا آندھی تھم گئی اور میر ے پاؤں زمین پر لگ گئے۔یہ خواب بھی میں
نے مولانا بشیر صاحب کو سنایا تو انہوں نے کہا کہ فوراً کسی بزرگ کے ہاتھ
پر بیعت کر لو۔ اس وقت انہیں مرید کرنے کا حکم نہیں تھا، وگرنہ میں ان کا
ہی مرید ہو جاتا۔
ایک اور خواب جس نے مجھے بہت دنوں تک پریشان کیے رکھا۔ وہ یہ تھا کہ ایک
بہت بڑا بیل جس کے سینگ خاصے خطرناک تھے وہ میری جانب بہت تیزی سے بھاگتا
ہوا آ رہا ہے۔ میں نے اس سے بچنے کی بہت کوشش کی لیکن بچنے کی کوئی بھی
صورت نظر دکھائی نہ دی۔ میں نے خوف کے عالم میں کلمہ طیبہ کا ورد شروع کر
دیا پھر جیسے ہی میں نے کلمہ پڑھنا شروع کیا تو بیل پہلے رک گیاپھر اُسی
رفتار سے واپس جانے لگا حتیٰ کہ چند لمحوں میں میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
بڑی گھبراہٹ کے عالم میں میری آنکھ کھلی کیونکہ جب خواب میں موت قریب ہو یا
انسان کسی خطرے سے کھیل رہا ہو تو باوجود کوشش کے آنکھ نہیں کھلتی۔ بعض
اوقات بڑبڑانے کی آواز ضرور دوسروں کو آتی ہے لیکن خواب میں موت سے ڈر کر
جب انسان بھاگنے کی کوشش کرتا ہے تو انسان سے بھاگا نہیں جاتا اور اگر کسی
خطرے سے بچنا چاہتا ہے تو بچ نہیں سکتا۔ وہ جتنی بھی جدوجہد خواب میں کرتا
ہے اس کے ساتھ سویا ہوا انسان اس کی پریشانی سے بے خبر رہتا ہے۔ خواب میں
صرف اور صرف خود ہی سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس مقام پر ذہن میں یہ
خیال آتا ہے کہ جب انسان کی جان نکل رہی ہوتی ہے تو قریب ہی کھڑے ہوئے عزیز
و اقارب کس قدر بے خبر ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ مرنے والا کتنے
کرب اور تکلیف سے گزر رہا ہے لیکن دیکھنے والے تو یہی محسوس کرتے ہیں کہ وہ
بڑے سکون سے لیٹا ہوا ہے۔ حقیقی اور خوابی دنیا میں یہی واضح فرق ہے۔
.....................
یہ میری زندگی کا معمول تھا کہ میں جہاں بھی جاتا وہاں قریب اگر کوئی مزار
ہوتا تو ضرور اس پر حاضری دیتا۔ مزارات پر حاضری دینے میں دلی سکون محسوس
کرتا۔ دوستوں کی زبانی بزرگوں کی کرامتیں سنتا تو حسرت ہوتی کہ ہمارا تو
کوئی مرشد ہی نہیں ہم کس کی تقلید کرتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے۔ کہنے کو
تو سب کچھ کتابوں میں لکھا ہوا ہے لیکن جب تک پیر کامل نہ ملے۔ اس وقت تک
علم اور مہارت ذہن میں محفوظ نہیں ہوتی۔ خدا کی ذات تو برحق ہے اور ہمیشہ
قائم بھی رہنے والی ہے۔ حضور ﷺ کی شان رسالت بھی اپنی جگہ موجود ہے لیکن ان
تک پہنچنے کے لیے صحیح راستے کا انتخاب کرنے کے لیے کسی کامل بزرگ کی
رہنمائی ضرور ہوتی ہے۔ جس طرح دو انسان آپس میں بات کرتے وقت ٹیلی فون کا
سہارا لیتے ہیں اسی طرح رب اور بندے کو ملانے کے لیے بھی کوئی وسیلہ درکار
ہوتا ہے۔ اسی وسیلے کی تلاش میں کسی کامل بزرگ ہستی کا مرید بننے کا شوق
میرے دل میں ہر لمحے موجود تھا۔
میرے سسر صوفی بندے حسن خاں (جو خود بھی قطب زماں حضرت سید اسماعیل شاہ
بخاریؒ کے مرید تھے) نے کہا کہ چلو میں تمہیں کرمانوالی سرکار کے ہاتھ پر
بیعت کرا دیتا ہوں جو بڑے بزرگوں کے صاحبزادے تھے۔ میں نے یہ کہہ کر انکار
کر دیا کہ میں صرف بیعت ہی نہیں کرنا چاہتا بلکہ قدم قدم پر ان کی رہنمائی
بھی حاصل کرنے کی تمنا رکھتا ہوں۔ میں تو ایسی ہستی کو اپنا پیر مانوں گا
جس سے میرا ملنا‘ اس کے قریب جانا اور وقتاً فوقتاً ان سے رہنمائی حاصل
کرنا میرے لیے آسان ہو سکے۔ ہمارے دفتر میں کئی دوست ایسے بھی تھے جو سال
میں ایک دو بار اپنے پیر ومرشد کے پاس تحائف لے کر جاتے اور ایک وقت کا
لنگر کھا کر سارا سال لاہور ہی میں رہتے ۔بیشک دور حاضر میں کرمانوالی
سرکار جیسا کوئی بزرگ روئے زمین پر موجود نہیں تھا لیکن میری یہ شرط وہاں
پوری نہیں ہوتی تھی۔
کسی نے ہمیں بتایا کہ بھٹہ چوک بیدیاں روڈ کے قریب سندھ سے کوئی بزرگ آئے
ہوئے ہیں ۔ ہم( میں ، خالد صاحب اور توصیف خان) زیارت کے لیے وہاں جا پہنچے
۔بزرگ ایک کھلے احاطے میں تشریف فرما تھے ، جبکہ وہاں یہ بات بھی ہم نے سنی
کہ بزرگ اپنی انگلی سے دل پر اﷲ کا لفظ لکھتے ہیں تو قلب جاری ہو جاتا ہے ،
ہر لمحے دل سے اﷲ ہو کی آواز سنائی دیتی ہے ۔ہم بھی اس قطار میں کھڑے ہو
گئے جہاں سے لوگ باری باری کرسی پر بیٹھے ہوئے بزرگ کے پاس پہنچتے تھے ۔
سردیوں کا زمانہ تھا ۔ سورج بھی آب و تاب سے چمک رہا تھا ، بالاخر ہم بھی
ان بزرگوں کے سامنے جا پہنچے ۔ انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت والی
انگلی سے ہمارے دل پر اﷲ کا لفظ لکھا اور ہم آگے چلتے گئے لیکن اسے میں ان
بزرگوں کی کرامت کہوں گا کہ میرے دل سے بھی اﷲ ہو کا ورد جاری ہوگیا ، بہت
خوشی ہوئی کہ اگر ہر وقت میرے دل سے اﷲ کا لفظ ادا ہوتا رہے تو اس سے بڑی
سعادت اور کیا ہوسکتی ہے ، ہم وہاں سے نکل کر اپنے اپنے گھر پہنچے ، سارا
دن گزر گیا دل سے اﷲ ہو کی آواز اٹھتی ہوئی صاف سنائی دے رہی تھی ، رات کو
میں اپنے بستر پر سویا تو میرا دل اﷲ ہو کا ورد کررہا تھا ، اگلی صبح نیند
سے بیدار ہوا تو ایک بار پھر دل کی جانب میری توجہ مبذول ہوئی جو اﷲ ہو کا
ورد کرنے میں مصروف تھا ، دل کے ایک گوشے سے ایک آواز اٹھی کہ جس پیرو مرشد
کی تمہیں تلاش تھی ، وہ شاید سندھ سے چل کر خود لاہور میں آ گئے ہیں ، کیا
ہی اچھا ہو اگر ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی جائے ۔ پھر اس خیال نے میرے قدموں
کو روک لیا کہ چند دن اور دیکھ لیتے ہیں۔ تین دن تک دل سے اﷲ ہو کی آواز
آتی رہی لیکن چوتھے دن وہ آواز تھم گئی اور میرا دل پھر وہاں جا پہنچا جہاں
پہلے تھا ۔دل نے کہا ابھی منزل نہیں آئی ۔اس لیے میں نے بیعت کرنے کا ارادہ
ترک کردیا۔
سیدن شا ہ کالونی اپرمال لاہورمیں میرے سسرال کا گھر ہے ، جہاں اکثرو بیشتر
مجھے جانا پڑتا ہے ۔ ایک شام میں وہاں پہنچاتو اذان مغرب کی صدا فضا میں
بلند ہو رہی تھی، میں بھی وضو کرکے حضرت سیدن شاہ ؒ کے مزار سے ملحقہ مسجد
میں نماز کی ادائیگی کے لیے جا پہنچا ۔ نماز کی ادائیگی کے دوران میرے ساتھ
سفید کپڑوں میں ملبوس ایک پرکشش نوجوان نماز پڑھنے میں مصروف تھا ، حیرت کی
بات تو یہ ہے کہ ہم دونوں امام کی قرآت سن رہے تھے لیکن اس نوجوان کی کشش
مجھے بے حال کررہی تھی ۔میں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ یہ شخص کون ہے جو میرے
دل کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے ۔ امام صاحب سلام پھیرکے دعا کرنے لگے ، میں
اس جستجو میں تھا کہ دعا ختم ہو اور میں ان سے مصافحہ کروں اور اپنے دل کا
حال انہیں بتا ؤ ۔ لیکن مجھے اس وقت حیرت ہو ئی کہ اس نوجوان نے دعا ختم
ہوتے ہی سنتوں اور نوافل کی نیت کرلی اور میں ان کا چہرہ دیکھتا رہ گیا ۔اس
نورانی صورت والے نوجوان میں اتنی کشش تھی کہ مسجد میں موجود تمام نمازیوں
کے دل اس نے اپنی مٹھی میں کرلیے تھے ۔ہر نمازی کی کو شش تھی کہ اس سے بات
کرے لیکن وہ اتنا موقع ہی نہیں دے رہا تھا کہ کوئی اس سے مل کے بات کرسکے ۔
آدھا پونا گھنٹہ اور لوگوں کے ساتھ میں بھی انتظار کرتا رہا ۔ ہمیں نہیں
معلوم ہوسکا کہ وہ کونسے اور کتنے نوافل پڑھ رہے تھے ۔میں اپنے دل میں یہ
سوچ کے سسرالی گھر آگیا کہ نماز عشا میں ان سے ضرور ملاقات کرؤں گا۔ نماز
مغرب سے نماز عشاء تک میر ا دل میرے قابو میں نہیں تھا بلکہ اسی نورانی
صورت والے نوجوان کی مٹھی میں تھا ۔دونوں نمازوں کے درمیانی عرصے میں یہی
سوچتا رہا کب عشا کی اذان ہو اور کب میں مسجد میں پہنچ کر اس کی زیارت کروں
۔ جب نماز عشاء کے لیے مسجد پہنچا تو وہ نورانی صورت والا نوجوان موجود
نہیں تھا، مسجد میں موجود تمام لوگ اسی کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے
تھے کہ وہ صاحب کو ن تھے ۔ سبز دستار والے اسلامی بھائی الطاف نے بتایا کہ
میں نے انہیں داتا صاحب کے ہاں دیکھا ہے ۔ جستجو کے باوجود زندگی میں
دوبارہ ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔اگر وہ مجھے مل جاتے تو میں اسی وقت ان کے
ہاتھ پر بیعت کرلیتا۔
مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ لاہور کے مکان میں جب میں رہائش پذیر ہوا تو مسجد
میں خالد نظام ( جو ہماری ہی گلی میں رہتا تھا اور پکا نمازی تھا)کے ساتھ
علیک سلیک بڑھی تو اس کے ساتھ میں اور توصیف خاں نماز فجر کی ادائیگی کے
بعد کبوتر پورہ کے قبرستان جانے لگے۔ وہاں پہنچ کر تمام مرحومین کے لیے
دعائے مغفرت پڑھتے اور پرندوں کو دانہ بھی ڈال آتے کہ شائد یہی عمل ہماری
بخشش کا باعث بن جائے۔ چونکہ خالد صاحب مسجد طہ کے امام و خطیب مولانا محمد
عنایت احمد صاحب کے ہاتھ پر سب سے پہلے بیعت ہو چکے تھے اور عرصہ دراز سے
ان کی ذات سے وابستہ تھے، اس لیے وہ بار بار ہمیں ان کے پاس لے جاتے جہاں
پہنچ کر میرے بھی دل کو قدرے سکون ملنے لگا۔
جیسے جیسے دن گزرتے گئے مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری رہنے لگی۔ خوشگوار صبح
کا اثر تمام دن مجھ پر طاری رہتا۔ پھر ایسا وقت بھی آیا جب میں ہر روز مسجد
طہٰ جانے لگا‘ دیر تک حضرت مولانا محمد عنایت احمد صاحب کی پر اثر باتیں
سننے کو ملتیں۔ ان کی گفتگو کا براہ راست میرے دل پر اثر ہوتا اور ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ میں جس منزل کی تلاش میں جگہ جگہ بھٹک رہا ہوں وہ منزل آ
پہنچی ہے۔ میرے سامنے کئی لوگ مرید ہوئے جا رہے تھے ۔میں ان کے سامنے بیٹھا
ہوا نہایت بے بسی سے سب کچھ دیکھتا رہتا اور دل ہی دل میں سوچتا کہ میں بھی
مرید ہو جاؤں کیونکہ مجھے حضرت مولانا محمد عنایت احمد صاحب کی شخصیت میں
وہ سب کچھ نظر آ رہا تھا جس کی مجھے حقیقت میں طلب تھی۔ ہر نماز کے وقت ان
سے ملاقات ہو سکتی تھی۔ وقتاً فوقتاً ان سے فیض حاصل کیا جا سکتا تھا۔ وہ
پیر کامل حضرت سید اسمعیل شاہ بخاریؒ کے مرید خاص بھی تھے۔ پھر ان کو کراچی
سے سید ظہیر الحسن شاہ صاحب کی جانب سے چاروں سلسلوں میں بیعت کرنے کی
اجازت بھی مل چکی تھی ،اس کے علاوہ مزید کئی اولیاء کرام کی جانب سے بھی
انہیں فیض مل چکا تھا۔ گلبرگ کے پورے علاقے میں آپ کی پاکبازی کی بہت شہرت
تھی۔ کئی احباب کی زبانی یہ بات بھی سننے میں آئی کہ خود حضرت سید اسمعیل
شاہ بخاریؒ نے فرمایا تھا کہ جو شخص کرمانوالہ نہ آ سکے وہ لاہور میں حضرت
محمد عنایت احمد صاحب کے پاس چلا جائے، اسے وہاں بھی اتنا ہی فیض حاصل ہو
گا۔ اسی لیے تو جنید اشرف بٹ کے علاوہ کئی لوگوں نے مسجد طہٰ کو ہی اپنا
مسکن بنا رکھا تھا حالانکہ ان کے راستے میں اور گھر کے نزدیک کئی اور بھی
مساجد موجود تھیں لیکن انہیں جو سکون یہاں نصیب ہوتا وہ کہیں اور نہیں
ملتا۔
یہ سب کچھ دیکھ کر دن بدن میری عقیدت بڑھتی جا رہی تھی۔ایک دن موقع پا کر
میں نے اپنے دل کی خواہش کا اظہار حضرت صاحب کے روبرو کر ہی دیا۔ میری بات
سن کر آپ خاموش ہو گئے اور دوسرے دن آنے کے لیے کہا۔ تمام رات میں اسی سوچ
میں گم رہا کہ کل کیا جواب ملے گا اگر انہوں نے مجھے ٹھکرا دیا تو میں کدھر
جاؤں گا کیونکہ مسلک کے مطابق جس کا پیر نہیں اس کا کچھ بھی نہیں۔ پیر و
مرشد کی رہنمائی کی قدم قدم پر ضرورت ہوتی ہے تاکہ انسان رب العزت اور ان
کے پیارے نبی ﷺ کے بتائے ہوئے راستے سے بھٹک نہ جائے۔ کیونکہ قرآن پاک کی
ابتدائی سورہ فاتحہ میں اﷲ فرماتا ہے کہ ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ عہد کیا
کرو کہ اے اﷲ مجھے ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے انعام کیا ہے اور ان
لوگوں کا راستہ نہ دکھا جن پر تیرا غضب ہوا۔ چنانچہ میں بھی اﷲ کے اس نیک
بندے کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہا تھا جن پر اﷲ تعالیٰ اور اس کے
پیارے حبیب ﷺ نے بہت انعام کر رکھا ہے۔جہاں صبح و شام درود و سلام کی
محفلیں جاری رہتی ہیں۔ بڑے بڑے اولیاء کرام آپ کی بزرگی کی تصدیق کر چکے
تھے علاوہ ازیں آپ کی کرامات کا سلسلہ تو بچپن ہی سے جاری تھا۔اگلی صبح جب
میں اپنے دوستوں کے ہمراہ حضرت صاحب کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو میرے دل
میں طوفان برپا تھا اور یہ طوفان اسی طرح ہی ٹھنڈا ہو سکتا تھا اگر حضرت
صاحب مجھے اپنے سینے سے لگا تے اور اپنی مریدی میں لے لیتے۔ چنانچہ موقع
غنیمت جان کر میں نے ایک بار پھر کل والا سوال دھرایا۔ آپ نے فرمایا کہ
ٹھیک ہے تمہیں حضرت میاں میرؒ کے دربار عالیہ پر جا کر مرید کیا جائے گا۔
یہ سنتے ہی میری خوشی کی انتہا نہ رہی -دسمبر 1991ء بروز جمعرات نماز عصر
کے وقت حضرت صاحب کی سرکردگی میں ہم پیروں کے پیر حضرت میاں میر رحمتہ اﷲ
علیہ کے دربار پہنچ گئے۔ ان بزرگوں کے روبرو میرے ہاتھوں کو حضرت صاحب نے
اپنے ہاتھوں میں لیا اور وہ کلمات پڑھنے شروع کر دیئے جو مرید بننے کے لیے
اکثر پڑھتے جاتے ہیں۔ آخر میں دعا فرما کر مجھے اپنے سینے سے لگایا جس سے
روحانیت میرے جسم میں منتقل ہوتی ہوئی محسوس ہوئی بعدازاں سب نے مجھے مبارک
دی۔
|