رواں سال موسم بہار میں، چین کو انسداد وبا کے خلاف اپنی
جنگ میں شدید چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ملک اب بھی وبا کی موجودہ لہر میں وائرس
کے پھیلاؤ پر مکمل قابو پانے کے لیے انتھک کوششیں کر رہا ہے۔اس ضمن میں
شنگھائی جو چین کا مالیاتی مرکز کہلاتا ہے اور 24 ملین سے زائد آبادی کا
حامل دنیا کا ایک بڑا شہر ہے ، عارضی طور پر "کلوزڈ لوپ مینجمنٹ" میں داخل
ہو چکا ہے کیونکہ شہر میں پچھلے چند دنوں میں ہر روز انفیکشن کی تعداد میں
ہزاروں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔شہر میں جہاں کچھ دکانیں،
مالز، کارخانے اور سیاحتی مقامات بند کر دیے گئے، وہیں ہزاروں کمپنیاں
بشمول بہت سے غیر ملکی کاروباری ادارے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نیز،
شہر کے مالیاتی ادارے کھلے رہے ہیں، جس سے ملک کے اسٹاک اور بانڈ مارکیٹس
کو بلا تعطل کام جاری رکھنے میں مدد ملی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ان کاروباری
اداروں کا چین کی وبا پر قابو پانے کی پالیسی پر اعتماد ہے۔
درحقیقت، نئی وبائی لہریں ملک کی انسداد وبا کی "ڈائنامک زیرو پالیسی" کو
آزمائش میں ڈال رہی ہیں۔ وبا پر قابو پانے کے دو سال سے زائد کے تجربے کی
بنیاد پر، یہ پالیسی چین کی وائرس کے خلاف جنگ میں انتہائی کارگر ثابت ہوئی
ہے جبکہ آئندہ دنوں میں بھی، یہ ملک کی وبا پر قابو پانے اور روک تھام کی
کوششوں کی رہنمائی کرتی رہے گی۔دوسری جانب چین کے پاس صلاحیت ،طاقت اور عزم
موجود ہے جس کی بنیاد پر کسی بھی پیچیدہ صورتحال اور دباؤ والے چیلنجوں کا
سامنا کیا جا سکتا ہے۔"ڈائنامک زیرو پالیسی" کی اہم خصوصیات میں تیزی اور
درستگی شامل ہے، اور اس کا مقصد بروقت اقدامات کے ذریعے وبا کے پھیلاؤ کو
روکنا ہے۔ یہ انسداد وبا کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے والے اقدامات کی ایک
مربوط سیریز پر مشتمل ہے جس میں کیس کا پتہ لگانے اور ٹریسنگ سے لے کر
قرنطینہ اور علاج تک سبھی امور شامل ہیں۔
یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ چین نے گزشتہ دو سال کے عرصے میں
انفیکشنز کا پتہ لگانے، ان کی رپورٹ کرنے، قرنطینہ کے کیسز اور ان کا جلد
سے جلد علاج کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس دوران، مسلسل یہ ہدف
اپنایا گیا ہے کہ وبائی صورتحال پر قابو پانے کے اقدامات کو بہتر سے بہتر
بنایا جائے تاکہ عوام کی زندگیاں ہرگز متاثر نہ ہوں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں
سنگین ترین وبائی صورتحال میں بھی چین میں انسداد وبا اور اقتصادی سماجی
بحالی کو ہم آہنگی سے آگے بڑھایا گیا ہے۔ اپریل 2020 سے، چین میں رپورٹ
ہونے والے اکا دُکا کیسز اور علاقائی کلسٹرز زیادہ تر بیرون ملک سے آئے
ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک نے مؤثر طریقے سے ملکی ذرائع سے انفیکشن کو
روکا ہے۔
چین نے انسداد وبا کی یہ پالیسی وضع کرتے وقت بھی انتہائی دانشمندی کا
مظاہرہ کیا اور اس وبا کے خلاف جنگ میں، عوام اور انسانی زندگی کو دیگر
تمام چیزوں پر فوقیت دی گئی ہے۔چین کی آبادی 1.4 بلین ہے جن میں 267 ملین
معمر افراد اور 250 ملین سے زیادہ نابالغ افراد شامل ہیں، جنہیں وائرس سے
متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ رہتا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر، وبا پر جلد سے
جلد قابو پانا ملک کے لیے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے نہایت ضروری
ہے۔یہی وجہ ہے کہ"ڈائنامک زیرو پالیسی" روک تھام اور علاج کو یکساں اہمیت
دیتی ہے، کیونکہ چین وائرس کو ڈھیل دینے کا ہر گز متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔
اگر ملک میں وبا کی روک تھام کے ضوابط میں نرمی برتی جائے یا پھر صرف مکمل
علامات والے مریضوں کے علاج پر ہی توجہ مرکوز کی جائے تو ملک کا طبی نظام
یکدم دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔ دو سال سے زائد عرصے سے، چین نے وبا سے بچاؤ
کے فعال اقدامات کو مسلسل اپنایا ہے اور وسیع پیمانے پر ویکسینیشن کو آگے
بڑھایا گیا ہے۔ 31 مارچ تک، 1.24 بلین افراد کی کووڈ۔19 کے خلاف ویکسینیشن
مکمل کی جا چکی ہے جو ملک کی کل آبادی کا تقریباً 90 فیصد بنتے ہیں۔ اس کے
علاوہ،ملک میں 60 سال سے زائد عمر کے تقریباً 213 ملین بزرگ شہریوں کی بھی
مکمل ویکسینیشن ہو چکی ہے۔
آج بھی "ڈائنامک زیرو پالیسی"کے تحت ملک بھر میں وبا کی روک تھام اور
کنٹرول کے اقدامات کو مؤثر طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔اس ضمن میں ملک کے
بڑے شہروں میں یومیہ10 ملین سے زائد افراد کے نیوکلک ایسڈ ٹیسٹ کی صلاحیت
بھی حاصل کر لی گئی ہے، جو وبا پر قابو پانے کے لیے دفاع کی پہلی لائن
ہے۔ملک نے اپنی اہدافی قرنطینہ پالیسیوں میں بھی بہتری لائی ہے اور مقامی
حالات کے مطابق ہر علاقے میں خطرے کی سطح کی بنیاد پر مختلف اقدامات کو
نافذ کیا جا سکتا ہے۔پالیسی کے نفاذ میں جو چیز سب سے کارگر ثابت ہو رہی ہے
وہ انسداد وبا کے امور میں شامل تمام فریقوں کے درمیان زبردست ہم آہنگی
ہے۔اس ضمن میں کسی سستی ، ہچکچاہٹ یا پھر کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے،
کیونکہ اس کا براہ راست تعلق عوام کی صحت اور بہبود سے ہے۔
|