جو ہم دِکھاتے ہیں عوام وہی دیکھتی ہے… رمضان ٹرانسمیشن کی میزبانی کے لیے فنکاروں کا انتخاب چینلز کی مجبوری یا عوام کی فرمائش

image
 
ماضی میں جب رمضان کا آغاز ہوتا تھا تو نوے کی دہائی میں رمضان کے حوالے سے پی ٹی وی خصوصی ٹرانسمیشن کا انعقاد کرتا تھا جس میں انتہائی سلجھے ہوئے انداز میں درس قرآن، ذہنی آزمائش کے کوئز، تلاوت ‍قرآن اور نعت و حمد کے روح پرور پروگرام پیش کیے جاتے تھے۔ مگر پھر وقت بدلا اور مختلف پرائيویٹ چینل کی آمد ہو گئی-
 
وزارت مذہبی امور کا مطالبہ رمضان ٹرانسمیشن کی میزبانی علما کریں
گزشتہ کئی سالوں سے ہر سال رمضان کی آمد سے قبل وزارت مذہبی امور کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس سال رمضان ٹرانسمیشن کی میزبانی جید علما کے ذمے کی جائے اور اس کی میزبانی ایسی شوبز کی خواتین کے ذمے نہ لگائی جائے جو سارا سال تو نامناسب کپڑے پہن کر گھومتی رہتی ہیں لیکن رمضان ٹرانسمیشن میں سر پر دوپٹہ اور برانڈڈ سوٹ پہن کر تبلیغ کرتی نظر آتی ہیں-
 
لیکن حقیقت میں ہر سال ہر چینل پر رمضان ٹرانسمیشن میں مشہور ماڈلز اور اداکار، برانڈڈ کپڑے، گیمز، انعامات کا لالچ، سماجی کارکنوں کی خدمات کے دعویٰ، غریب کی غربت کا مذاق یہ سب تو ہوتا ہے لیکن نہیں ہوتا تو رمضان نہیں ہوتا، اس کی برکتوں اور رحمتوں کا ذکر نہیں ہوتا، اس کی برکتیں سمیٹنے کے لیے عبادات کا ذکر نہیں ہوتا صرف اور صرف مصنوعی چمک دمک ہوتی ہے جو لوگوں کو اس مہینے کی برکات سے دور کر دیتی ہے-
 
رمضان ٹرانسمشن اور ریٹنگ کی جنگ
میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ اس بات سے بہت اچھی طرح واقف ہیں کہ رمضان کا مہینہ اگر جہنم سے نجات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے لیکن یہ مہینہ مختلف کاروباری حضرات کے لیے زيادہ سے زيادہ منافع سمیٹنے کا بھی ایک ذریعہ ہے- جس طرح ذخیرہ اندوز رمضان کی آمد پر چیزوں کو مہنگا کر کے مارکیٹ میں پیش کرتے ہیں اسی طرح میڈیا مالکان بھی زیادہ سے زيادہ منافع کی لالچ میں اور زیادہ ریٹنگ کی خواہش میں رمضان ٹرانسمیشن میں ہر وہ حربہ پیش کرتے ہیں جس سے ان کی ریٹنگ میں اضافہ ہوتا ہے اور زيادہ سے زیادہ لوگ ان کی ٹرانسمیشن دیکھیں اور ان کو زيادہ سے زیادہ اشتہار ملیں-
 
image
 
ریٹنگ کے حصول کے لیے استعمال کیے جانے والے پینترے
عام طور پر میڈیا چینل ریٹنگ کے حصول کے لیے جو طریقے استعمال کرتے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں-
 
مشہور اداکار اور اداکاراؤں کا استعمال
اپنی اس ٹرانسمیشن کے لیے میڈیا مالکان کسی قسم کا رسک لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے اپنی ٹرانسمیشن کی میزبانی کسی بھی عالم کو دینے کے بجائے عوام کے پسندیدہ اداکار کے حوالے کر دی جاتی ہے جو برانڈڈ کپڑے پہن کر مذہب کو ایک ڈرامائی رنگ دیے علما کے سامنے فقہی مسائل پر بحث کر رہے ہوتے ہیں-
 
لوگوں کے دل پگھلانے والی غربت کی کہانیاں
رمضان میں روزہ رکھنے کے سبب غریب کی بھوک کا احساس بھی بڑھ جاتا ہے جس کا استعمال میڈیا مالکان بہت کامیابی کے ساتھ کرتے ہیں اور اس کے ذریعے بھی اپنی ریٹنگ کا اضافہ کرتے ہیں-
 
کسی بھی مجبور کو رمضان ٹرانسمیشن میں لے کر آیا جاتا ہے اور شروع میں تو پہلے اس کی مجبوری کو اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ سب سننے والوں کا دل اور آنکھیں بھر آتی ہیں اس کے بعد اس غریب کی غربت کو مثال بنا کر لوگوں سے بڑی بڑی رقموں کے اعلانات کروائے جاتے ہیں اور اس طرح سے ریٹنگ بڑھائی جاتی ہے-
 
مہنگے اور اسپانسر انعامات کا استعمال
لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے لالچ وہ ذریعہ ہوتا ہے جس کا استعمال صدیوں سے کیا جا رہا ہے اور آج بھی رمضان ٹرانسمیشن میں اس کا استعمال ریٹنگ کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے- کبھی کسی کو بائک کا لالچ دیا جاتا ہے تو کبھی گاڑی کا لالچ دیتے ہیں اور اس طرح سے عوام کو اس بابرکت مہینے میں اللہ سے مانگنے کے بجائے رمضان ٹرانسمیشن کے میزبانوں سے مانگنے پر مجبور کر دیتے ہیں-
 
image
 
بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
راتوں رات اپنی رمضان ٹرانسمیشن کو وائرل کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی حرکت یہ میزبان اپنے شو میں کر دیتے ہیں جس کے کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتے ہیں اور اس سے شو کی ریٹنگ راتوں رات آسمان کو چھونے لگتی ہے-
 
رمضان ٹرانسمیشن کی اس بھیڑ چال کا قصور وار کون
سوال یہ ہے کہ ہر ٹی وی چینل پر رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر جو بے ہودگی کا بازار گرم ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا میڈیا مالکان دولت کی لالچ میں اس طرح کے پروگرام بنا رہے ہیں؟ یاد رکھیں کوئی بھی پروگرام اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا ہے جب تک اس کو بڑی تعداد میں لوگ نہ دیکھیں-
 
جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے یہی وجہ ہے کہ عوام جن چیزوں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں میڈیا مالکان ویسے ہی پروگرام دکھاتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں کسی بھی فرد پر الزام لگانے سے قبل پہلے اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے-
YOU MAY ALSO LIKE: