آج کامیاب ڈرامہ وہی ہوتا ہے جن میں چند چیزیں موجود ہوں… ماضی جیسے بہترین ڈرامے آج جان بوجھ کر نہیں بنائے جاتے، تلخ حقائق

image
 
80/90 کی دہائی میں ایک ڈرامہ سیریز" مسٹری تھیٹر " کے نام سے پی ٹی وی پر نشر ہوتی تھی۔ مسٹری لورز کے لئے بہت ہی عمدہ، زبردست ایکٹنگ، شاندار ڈائریکشن اور انتہائی جدت سے بھرپور کہانیاں ہوتی تھیں۔ اس طرح کی سیریز آج بھی بنائی جائیں تو نوجوانوں میں مقبول ہوں گی۔ خالد انعم کی آواز میں گانا پیراں ہو آج بھی میرے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ کیونکہ یہ گانا ایک horror story میں پلے بیک کیا گیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارا میڈیا ماڈرن دور میں داخل ہو رہا تھا۔ اور اس وقت کا میڈیا انتہائی شائستگی کے ساتھ اپنے اخلاقیات کو برقرار رکھتے ہوئے نئے زمانے سے ہم آہنگی اختیار کر رہا تھا۔ اس وقت کے پروگرامز میں نئے اور پرانے زمانے کی روایات کا خوبصورت امتزاج آپ محسوس کریں گے۔
 
 کچھ اہم نکات کی نشاندہی یہاں کی جا رہی ہے جیسے ڈرامے بطور آرٹ بمقابلہ جدید ڈراموں کی کمرشلزم، کیا ایک مصنف درحقیقت کسی بھی قسم کی کہانی لکھنے کے لیے آزاد ہے، اور سوشل میڈیا ان ڈرامے بنانے کے نظام پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ کیا میڈیا اب تفریح سے زیادہ ایک صنعت کی شکل اختیار کر رہا ہے؟ کچھ نامور شخصیات کی آراء کی روشنی میں ان مسائل کو سمجھتے ہیں۔
 
بدلتے وقت کے تقاضے ہیں:
معروف مصنفہ حسینہ معین کسی تعارف کی محتاج نہیں ، اپنے ایک انٹرویو میں کہتی ہیں کہ:"ایک وقت تھا کہ خواتین کو اپنے رشتوں، ورکنگ لائف کے ساتھ ساتھ اپنی گھریلو زندگی میں برابری اور وقار کے ساتھ توازن پیدا کرنے کرنے والی دکھایا گیا تھا۔ اب پاکستانی ڈراموں میں صرف کمزور خواتین کو دکھایا جاتا ہے جو زندگی بھر لوگوں کی مسلسل بدسلوکی کا نشانہ بنتی ہیں"-
 
image
 
انھوں نے پاکستانی ڈراموں پر الزام لگایا کہ وہ کہانیوں کو صرف سنسنی خیز بنا رہے ہیں اور ان میں اخلاقی تعلیم کہیں نہیں نظر آتی۔ اگر ہم سوالیہ اور غیر اخلاقی مواد کو 'ٹھیک ہے، چلتا ہے' کے طور پر دیتے رہے تو آنے والے 10 سالوں میں ہم ایک معاشرے کے طور پر کہاں کھڑے ہوں گے؟ ڈرامے کھلے عام معاشرے کی گندگی کو پرواہ کیے بغیر دکھا رہے ہیں۔ ڈرامہ آرٹ کی ایک شکل ہے اور آرٹ کا مقصد کبھی بھی کمرشل نہیں ہوتا۔ 40 سال سے جس عورت کو میں مضبوط دکھا رہی تھی آج کے ڈراموں نے وہ ساری محنت پر پانی پھیر دیا اور آج کی عورت پھر سے مجبور و لاچار ہو گئی ہے۔
 
سمیرا فضل جنہوں نے جدید دور کے کئی کامیاب ڈرامے لکھے ہیں جیسے کہ داستان، میرا سائیں، اور من مایال ،کہتی ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ناظرین کی نفسیات بدل گئی ہے اور اس کے ساتھ ڈراموں کی کہانی بھی بدل گئی ہے۔ آج کل کی کہانیوں کا تقاضا ہے کہ ایک پر اثر کردار کئی طرح کی مشکلات سے گزرتا ہے۔ ایک سادہ سی سیدھی کہانی آج کے دور میں کام نہیں کرتی۔ یہاں تک کہ اگر میں اپنے کچھ پرانے ڈراموں کو دوبارہ لکھوں تو میں انہیں اب اس انداز میں نہیں لکھوں گی۔ کیونکہ میں جانتی ہوں کہ آج کے سامعین ایک مختلف قسم کی کہانی چاہتے ہیں۔
 
سوشل میڈیا کی ڈیمانڈ:
فہد مصطفیٰ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے آج کل تخلیق کاروں کے لیے اپنا کام مشکل بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا نے ہر شخص کو اپنی رائے پیش کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، چاہے ان کی رائے میں کوئی صداقت ہو یا نہ ہو اور وہ آراء تخلیقی عمل کو متاثر کرتی ہیں۔ اگر سوشل میڈیا پرانے پاکستانی ڈراموں کے زمانے میں موجود ہوتا تو یہی حالات ہوتے۔
 
image
 
کمرشلائزیشن:
دیکھا جائے تو آج کے ڈرامے لگتے ہیں ایک فیکٹری سے تیار کئے گئے ہیں کیونکہ کم و بیش سب کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں ۔ کچھ چربے کا گمان ہوتا ہے۔ یہ ناظرین کی پسند نا پسند کے مطابق ہوتی ہیں تاکہ ریٹنگ زیادہ ملے۔ اب ہمارا ناظر ہر کلاس سے ہے۔ رائٹرز اگر معیاری لکھنا بھی چاہتے ہیں تو ان سے ڈیمانڈ کی جاتی ہے کہ کمرشلائزیشن کو مدنظر رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے رائٹرز نے لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ وہ معیار پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ لیکن چھوڑ دینا حل نہیں کوئی بیچ کی راہ نکالنی چاہیے کیونکہ ڈرامے معاشرے میں شعور پیدا کرنے کا ایک آسان ذریعہ ہیں۔
 
رائٹرز کے آرٹ کا گلا گھونٹا جا رہا ہے:
سمیرا فضل نے بتایا کہ آج کل اسکرپٹ مصنف سے ہدایت کار تک نہیں جاتا۔ چینلز کے پاس اب اسکرپٹ کے اپنے شعبے ہیں اور وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اسکرپٹ کے ہر حصے کی چھان بین کرتے ہیں کہ ڈرامہ چینل کی پسند کے مطابق ہو۔ فہد نے اس میں مزید کہا کہ چینل کے سربراہ اسکرپٹ اور ڈرامے کو ہر طرح کے زاویوں سے دیکھتے ہیں جس کے بارے میں مصنف اسکرپٹ لکھتے وقت سوچ بھی نہیں سکتا۔ اور ایک پروڈیوسر کے لیے ان تمام مسائل سے نمٹنا مشکل ہے۔ کچھ حصوں میں سمجھوتہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ آج کل کا کامیاب ڈرامہ وہی ہے جسے ریٹنگ اور ویوز ملتے ہیں۔ اور جن ڈراموں کو یہ ریٹنگ ملتی ہے وہ وہی ہوتے ہیں جن میں عام طور پر قابل اعتراض مواد ہوتا ہے۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ ارتقاء ایک عمل ہے آج بھی ہمارے انڈسٹری کے لوگ محنت کر رہے ہیں بلکہ ڈبل محنت کر رہے ہیں۔ competition بہت بڑھ گیا ہے اور ڈراموں کے پاس وقت کے ساتھ ارتقا کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ تاہم، ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کو ایسا مواد نہ فراہم کیا جائے جو معاشرے کی اصلاح کے بجائے اسے اور جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دے۔ ذمہ دار ی نبھاتے ہوئے،معیار کے ساتھ ساتھ چیک اور بیلنس کا خیال رکھا جائے۔
YOU MAY ALSO LIKE: