ادھورا سپنا

 تھکاوٹ بہت تھی اور میں سونا چاہتا تھا۔ ابھی لیٹے ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس وقت اور اس بستی میں جہاں میرا کوئی جاننے والا بھی نہیں، کون ہو سکتا ہے، یہ سوچتے ہوئے میں نے دروازے کے قریب پہنچ کر پوچھا کون، جواب ملا ، میں ہوٹل کااسسٹنٹ مینجر، آپ سے ملنا ہے۔ابھی تک یہاں مجھے کوئی انگریزی بولنے والا نہیں ملا تھا اسی لئے میرا جاننے والافیکٹری کا مالک اپنے ساتھ ایک مترجم لے کر آیا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا، کوئی چوبیس پچیس سال کا ایک نوجوان سامنے کھڑا تھا۔میں اندر آ سکتا ہوں، اس نے پوچھا۔میں نے خوش آمدید کہا اور اس کے اندر آنے کے بعد اس سے گپ شپ شروع ہو گئی۔اس نے تعارف کرایا کہ وہ اس ہوٹل کا واحد انگریزی بولنے والا ملازم ہے اور آنے والے تمام غیر ملکیوں کی جہاں ضرورت ہو، مدد کرنا اس کے فرائض میں شامل ہے۔کہنے لگا،نیچے میرا دفتر ہیفلاں کمرے میں، آپ کو کسی فیکٹری میں بات کرنی ہو، کسی کا پتہ جاننا ہو تو میرے ہوتے آپ کو زبان کی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ میں انگریزی اور چائینیز پوری طرح جانتا ہوں ۔ میں نے شکریہ ادا کیا کہ اگر ضرورت ہوئی تو اس سے مدد لے لوں گا۔وہ خدا حافظ کہہ کر مڑا، دروازے پر کسی کو آواز دی تو ایک ملازم میرے لئے پھلوں کی ٹوکری لئے آیا اور کمرے میں رکھ کر چلا گیا۔ اس نے آپ کے لئے کہا اور ہاتھ ہلاتا چلا گیا۔

میں ایک لمبے سفر کے بعد اس قصبے میں پہنچا تھا جہاں مجھے ایک فیکٹری جانا تھا۔تھوڑی سی تگ و دو کے بعد وہ فیکٹری مل گئی۔ میں فیکٹری جانے سے پہلے فریش ہونا اور آج کی رات آرام کرنا چاہتا تھا چنانچہ ٹیکسی والے کو گاڑی موڑ کر کسی قریبی اچھے ہوٹل میں چلنے کو کہا۔ٹیکسی والا ایک قریبی ہوٹل میں لے آیا کہ یہ یہاں کا سب سے اچھا ہوٹل ہے۔میں نے بڑے غور سے ہوٹل کو دیکھا۔بہت ہی فضول ساہوٹل تھا۔میں عموماً تین یا چار ستارہ ہوٹل سے کم میں قیام نہیں کرتا مگر وہ ہوٹل کسی ستارے کے پاس سے بھی گزرا نہیں لگتا تھا۔ میں نے ٹیکسی والے کو کہا جو ٹوٹی پھوٹی انگلش جانتا تھا تو وہ بولا کہ اس قصبے میں تو یہی ہوٹل سب سے بہتر ہے۔ مجبوری ہے آپ کو یہیں قیام کرنا ہو گا۔مایوسی سے کمرے میں سامان رکھا اور ہوٹل کے کاؤنٹر پر جا کر فیکٹری فون کیا اور انہیں ہوٹل کے بارے بتایا۔ فیکٹری والوں نے انتظار کا کہا اور اگلے دس منٹ میں وہ میرے پاس تھے۔مترجم ان کے ساتھ تھا۔ہم نے سامان اٹھایا ، ان کی گاڑی میں رکھاء اور نئی منزل کو گامزن ہوئے۔کوئی چھ یا سات کلومیٹر کے فاصلے پر ایک انڈسٹریل علاقے میں آبادی اور فیکٹریوں کے درمیان ایک شاندار پانچ ستارہ ہوٹل تھا۔ مجھے پانچویں فلور پر کمرہ مل گیا۔ شاندار کمرہ دیکھ کر تھکاوٹ آدھی رہ گئی ۔ فیکٹری والے مجھے خدا حافظ کہہ کر چلے گئے تو میں آرام کے لئے لیٹ گیا۔

اگلی صبح کچھ فیکٹری والے مجھے لینے پہنچ گئے چنانچہ میں نے سارا دن ان کے ساتھ گزر گیا۔ رات مجھے واپس آئے ابھی چند منٹ گزرے تھے تو اسٹنٹ مینجر صاحب پھر میرے پاس موجود تھے۔ مسکراتے ہوئے پوچھنے لگے کہ کون کون سی فیکٹری گئے ہو۔ میں نے ان فیکٹریوں کے نام بتائے تو بولے ۔ چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں ہیں ۔ میں آپ کو ایک بڑی فیکٹری دکھاؤں گا۔وہ فیکٹری جیسی جلد ہی میں خودبھی لگانے کی سوچ رہا ہوں ۔ تم اگر تین چار سال بعد دوبارہ آؤ تو تم میری فیکٹری ضرور آنا۔اس نے مجھ سے میرا ای میل ایڈریس بھی لے لیا کہ فیکٹری شروع ہوتے ہی مجھے دعوت بھیجے گا کہ میں اس کی شاندار فیکٹری دیکھوں اور اس حوالے سے اپنے لئے بزنس کے موقع تلاش کروں۔ میں نے بھی وعدہ کر لیا کہ ضرور دیکھوں گامگر ساتھ ہی کہا کہ میں تمہاری فیکٹری تو ابھی دور کی بات ہے فی الحال تم مجھے اگلے دو تین دن میں اپنے سپنوں میں بسی اپنی پسندیدہ کوئی بڑی فیکٹری ضرور دکھانا۔اس نے وعدہ کر لیا کہ صبح نو بجے وہ میرے پاس ہو گا۔

اگلے تین دن اسی طرح گزر گئے۔ میں روز دس بجے تک انتظار کرتا مگر اسے نہ آنا ہوتا تھا او ر وہ نہ آتا۔ تنگ آ کر میں اپنے معمول کے مطابق ہوٹل سے نکل آتا۔ رات کو میری واپسی پر وہ روٹین کے مطابق مجھے ملنے پہنچ جاتا،صبح کے وقت نہ آنے کا کوئی بہانہ اس کے پاس ہوتا اوروہ ایک بار پھر مسکرا کر اگلی صبح کا وعدہ کر لیتا۔ تین دن بعد میں نے اسے بتایا کہ صبح گیارہ بجے میں تمہارے ہوٹل کو چھوڑ رہا ہوں اور کل آخری موقع ہے کہ میں تمہاری شاندار اور بڑی فیکٹری دیکھ سکوں۔و ہ حسب معمول مسکرا دیا اور کہنے لگا، رات کو ہوٹل سے لیٹ جاتا ہوں، صبح کوشش کے باوجود آنکھ نہیں کھلتی لیکن آج میں یہاں سے جلدی چلا جاؤں گا اور صبح نو بجے یقیناً ہماری ملاقات ہو گی۔تم نو بجے تیار رہنا، یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنی تصوراتی فیکٹری تمہیں نہ دکھاؤں۔

اگلی صبح وہ واقعی ٹھیک نو بجے میرے پاس تھا۔حسب سابق اس نے فیکٹری کی تعریف شروع کر دی ۔ مجھے بتایا کہ وہ فیکٹری ٹیکسٹائل کی مصنوعات بناتی ہے اور اتنی بڑی ہے کہ ایک دفعہ میں آپ اسے دیکھ نہیں سکتے، اس لئے کہ آدمی کچھ گھنٹے پھرنے کے بعد تھک جاتا ہے مگر فیکٹری ختم ہونے میں ہی نہیں آتی۔ اس کی داستان گوئی کو روکتے ہوئے میں نے اسے چلنے کا کہا کہ میرے پاس وقت کم تھا۔ میرے کمرے سے ہم اس کے دفتر آ گئے۔ وہ ایک بار وہی باتیں دوبارہ دھرانے لگا۔میں نے ایک بار پھر اسے بڑی مشکل سے اٹھایا کہ اب وقت کم ہے، باقی باتیں فیکٹری دیکھتے ہوئے کریں گے۔ہم ہوٹل سے باہر نکلے، اور مڑ کر ہوٹل کی پچھلی سڑک کی طرف مڑ گئے۔ ہوٹل کے پیچھے چوک میں پہنچ کر وہ مجھے ایک طرف لے گیا۔ سامنے ایک فیکٹری کا بہت بڑا گیٹ تھا۔اس نے مجھے ٹھہرنے کا کہا۔ میں رک گیا۔ پہلے وہ گیٹ کی طرف بڑے غور سے دیکھتا رہا اور پھر کہنے لگا۔ یہ گیٹ دیکھ رہے ہو۔ یہ اس فیکٹری کا گیٹ ہے جو میرا بھی خواب ہے۔ تمہیں یاد ہے نا کہ اگلے تین یا چار سال بعد جب تم یہاں آؤ تو مجھے میری نئی فیکٹری میں ملنے ضرور آؤ گے۔دیکھو، دیکھو کتنے لوگ یہاں کام کرتے ہیں۔ ہمیں آئے پندرہ منٹ ہو چکے لگا تار لوگ آ اور جا رہے ہیں کوئی وقفہ نہیں۔ کس قدر بڑی فیکٹری ہے۔ تم اس کے ساتھ ساتھ چلتے جاؤ، وہ دور تک ، یہ ختم ہی نہیں ہوتی۔اندراتنے مشین ہا ل ہیں کہ گننا مشکل ہے۔ فنشنگ ہال بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ گودام اتنے ہیں کہ میں بتا نہیں سکتا۔بہت بڑی ورکشاپ ہے۔پتہ نہیں اور کیا کیا ہے۔ میں ایسی ہی فیکٹری جلد بنا رہا ہوں۔ ہزاروں ورکر، سینکڑوں مینجر اور بہت سا عملہ میرے پاس ہو گا۔یہی میں تمہیں دکھانا چاہتا تھا۔ پسند آئی میری فیکٹری۔

پھر جانے اسے کیا ہوا۔ اس نے پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی اور نیم واہ آنکھوں کے ساتھ جیسے کسی کو ہدایت دینے لگا۔ لگتا تھا اس کے سارے تصوراتی مینجر اس کے سامنے کھڑے ہیں اور وہ ہاتھ کے اشاروں سے انہیں مختلف اطراف میں مختلف کاموں کے لئے ہدایات دے کر بھیج رہا ہے۔ یکدم وہ کسی سے ناراض ہو گیا اور اسے وہاں سے نکلنے کا کہا۔ اس کی زبان گو اجنبی تھی مگر اس کی حرکات اور اشارے سب بتا رہے تھے۔وہ کبھی مسکرا کر اور کبھی غصے سے لوگوں کو طرح طرح کی ہدایات دے رہا تھا۔ مجھے گیارہ بجے ہوٹل سے رخصت ہونا تھا اور گیارہ بجنے والے تھے۔ میں نے اس کا بازو پکڑ کر اسے واپس چلنے کا کہا۔اسے میری یہ حرکت ناگوار گزری۔ اس نے میرا بازو جھٹک دیا اور اپنی فیکٹری کے کاموں میں اسی طرح مصروف رہا۔اب شاید کوئی میٹنگ شروع ہو گئی تھی۔ اس نے اپنے سامنے بیٹھے سارے تصوراتی لوگوں کو بیٹھنے کا کہا اور خود بھی زمین پر بیٹھ گیا۔اب وہ باقاعدہ کچھ تقریر کر رہا تھا، شاید وہ اپنا ادھوراسپنا آج ہی وہیں کھڑے کھڑے پورا کرنے لگا تھا ۔ فیکٹری میں آنے جانے والے لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔کچھ اس کی حالت پر توجہ ہی نہیں کر رہے تھے اور کچھ ہنس کر گزر رہے تھے۔ مجھے عجیب لگ رہا تھا مگر اس پر ایک جنون طاری تھا۔ میری ایک آدھ مزید کوشش کے باوجود اس نے میری طرف توجہ کرنا بھی گوارا نہ کیا تو میں مجبوری میں اکیلا ہوٹل کو چل پڑا۔ ہوٹل کے گیٹ کی طرف مڑنے سے پہلے میں نے مڑ کر اس کی طرف نظر ڈالی۔ وہاں میٹنگ اب بھی بڑے زور شور سے جاری تھی۔وہ اکیلا کسی ان دیکھی انتظامیہ کو پوری طرح نپٹ رہا تھا۔اس آخری ملاقات کے بعد میں ہوٹل چھوڑ کر دیگر جگہوں سے ہوتا واپس اپنے ملک آ گیا ہوں۔ اس بات کو کئی سال گزر گئے ہیں مگر میں اب بھی اس کی اس ای میل کا منتظر ہوں جو اس نے مجھے اپنی نئی فیکٹری دکھانے کے لئے دعوت کے طور پر بھیجنی تھی۔

 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 441254 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More