سناتن پرمپرامیں حق و باطل کی کشمکش کودیو اور دانو (عفریت)
کے درمیان ٹکراو سے منسوب کیا جاتا ہے۔ دیو مالائی قصوں کے مطابق مختلف
ادوار میں ایک سے بڑھ کر ایک طاقتور دانو دھرم کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں اور
ان سے تحفظ کی خاطر اوتار میدان میں آتے ہیں۔ عصر حاضر میں ہندوتوا کے
ہمنواوں کو دیکھ کر وہی دانو یاد آتے ہیں اور اس قطار میں ہر نووارد اپنے
پیش رو کو مات دے دیتا ہے۔ 2014 سے قبل وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے عوام کو
وحشت ہوتی تھی لیکن امیت شاہ نے خود کو ان سے زیادہ خطرناک ثابت کردیا۔
یوگی آئے تو لوگ شاہ کو بھول گئے اور اب آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا
سرما یوگی کوپیچھے چھوڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی بی جے
پی میں خوب پذیرائی ہوتی ہے ۔ ان کو بلا اعلان اسٹار پرچارک بنالیا جاتا ہے۔
ایک زمانے میں جس طرح متھن چکرورتی یا گووندا کو غریبوں کا امیتابھ بچن کہا
جاتا تھا وہی حالت فی الحال بسوا سرما کی ہے۔ ان کو یوگی ادیتیہ ناتھ کی
جگہ ملک کے مختلف مقامات پر تشہیر کے کے لیے بلایا جانے لگا ہے اور وہ اس
کا فائدہ اٹھا کر وہ پارٹی میں اپنا قد بڑھا رہے ہیں ۔
پچھلے دنوں اترپردیش کے ساتھ یوگی ادیتیہ نا تھ کے آبائی صوبے اتراکھنڈ
میں بھی الیکشن تھا ۔ یوگی جی چونکہ اپنے صوبے میں مصروف تھے اس لیے آسام
سے ہیمنت بسوا سرما کو بلایا گیا جو ٹھیک سے ہندی بھی نہیں بول سکتے ۔
انہوں نے ۱۱ ؍ فروری کو ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’راہل
گاندھی نے سرجیکل اسٹرائیک کا ثبوت مانگا تھا ۔ ارے بھائی ! آپ کون سے باپ
کے بیٹے ہیںِ کبھی ہم نے ثبوت مانگا ہے کیا؟ ۰۰۰۰میں نے کبھی آپ سے یہ
ثبوت مانگا ہے کیا کہ آپ سچ مچ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے بیٹے ہیں
یا نہیں ؟‘‘ ایسی غلیظ بات تو ابھی تک یوگی نے بھی نہیں کہی ۔ اس طرح گویا
سرما نے اپنے استاد کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں ۔ اپنے آقاوں کی خوشنودی کے لیے
سرما ایسے بیان دیتے رہے ہیں ۔ 2014 میں جب وہ کانگریس میں ہواکرتے تھے تو
راہل گاندھی کو خوش کرنے کے لیے انہوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مودی پر
تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آپ یہ سچ بتائیے کہ آسام میں
پانی کے پائپ کے اندر پانی بہتا ہے ۔ گجرات میں پانی کے پائپ میں مسلمانوں
کا کون بہتا ہے‘‘۔ اب وہ نہ صرف راہل گاندھی پر کیچڑ اچھال رہے ہیں بلکہ
مودی کے نقشِ قدم پر مسلمانوں کا ناحق خون بہا رہےہیں ۔ خیر وقت وقت کی بات
ہے، ’کرسی کے لیے کچھ بھی کرے گا‘ اسی کو کہتے ہیں۔
19؍ فروری2022 کو ایک اور متنازع بیان میں انہوں نے حجاب کے مسئلہ پر پی
ایف آئی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کردیا ۔ یہ معاملہ کرناٹک میں سامنے
آیا ۔ وہاں بی جے پی کے وزیر اعلیٰ بومئی نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا
مگر آسام میں بیٹھے سرما کو پتہ چل گیا کہ پی ایف آئی تباہ کن سرگرمیوں
سے منسلک انتہاپسندوں سے ملی ہوئی ہے۔ اس کے بعد 6؍مارچ 2022 کو سرما نے یہ
سنسنی خیز انکشاف کیا کہ آسام میں کئی جہادی دہشت گرد موڈیول سرگرمِ عمل
ہیں ۔ صوبائی پولس ان کو بے نقاب کرنے کا کام کررہی ہے۔ اس بیان سے ایک دن
قبل آسام پولس نے بنگلا دیش کے اے کیو آئی ایس سے منسلک بنگلادیشی سمیت
پانچ لوگوں کی گرفتاری کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سرکاری
آقاوں کے اشارے پر ملک بھر میں انتظامیہ اس طرح کی حرکت کرتا رہا ہے۔
ذرائع ابلاغ میں تو اس پر خوب شور شرابہ ہوتا ہے لیکن بیشتر معاملات میں
پولس عدالت کے سامنے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے اور طویل عرصہ جیل کی
سلاخوں کے پیچھے گزارنے کے بعد بے قصور ملزمین کو رہائی مل جاتی ہے۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کسی ریاست کا وزیر اعلیٰ اس طرح کی
بہکی بہکی باتیں کیوں کرتا ہے؟ اس کی ایک وجہ تو اپنا سیاسی قد بڑھانا ہے
مگر سرما کی یہ مشکل بھی ہے کہ مارچ9، 2022 کو گوہاٹی کی عدالت نے آسام
پولیس کو ہدایت دی ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے خلاف’‘فرقہ
وارانہ بیان‘ کی بابت ایف آئی آر درج کرے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے
گزشتہ سال ستمبر میں درانگ ضلع کے گورکھوٹی گاؤں میں بے دخلی مہم کو’بدلے
کی کارروائی‘ قرار دیا تھا ۔ دراصل آسام حکومت مبینہ طور پر تجاوزات کرنے
والوں کے قبضہ سے زمینوں کو خالی کرانے کے لیے بڑے پیمانے پر بےدخلی کی مہم
چلاتی رہتی ہے۔ گورکھوٹی کی یہ زرعی زمین بھی آسام کے مقامی لوگوں کو
روزگار دینے کے بہانے چھینی گئی تھی ۔ ان کارروائیوں کے دوران 23 ستمبر کو
گورکھوٹی میں 12؍ سالہ بچے سمیت دو مقامی افراد پولیس کی فائرنگ میں ہلاک
ہو گئےتھے۔ان میں سے ایک معین الحق (28) کےسینے میں پولس کی گولی لگنے کے
بعد ان کے اوپرایک سرکاری فوٹوگرافر کے کودنے کی ویڈیو سامنے آئی تھی ۔
اس سانحہ کی تفصیل یوں ہے کہ گورکھوٹی کے دھال پور 1، 2 اور 3 گاؤں میں 20
اور 23 ستمبر 2021 کو تقریباً 1200-1400 مکانات توڑے گئے تھے۔اس ظالمانہ
سرکاری اقدام نے 7000 سے زیادہ لوگوں کو بے گھرکردیا ۔ اس کے بعد وزیر
اعلیٰ نے پچھلے سال 10 دسمبر کو موری گاؤں میں اشتعال انگیز تقریر کی اور
اس میں کہا تھا کہ گورکھوٹی میں بے دخلی مہم 1983 کے واقعات (آسام ایجی
ٹیشن کے دوران وہاں کچھ نوجوانوں کی ہلاکت) کا بدلہ تھا۔ رکن پارلیمان
عبدالخالق کے مطابق یہ تبصرہ فرقہ وارانہ تھا۔ انہوں نے29؍ دسمبر کو دسپور
پولس کےسامنے شکایت درج کرا ئی کہ آئینی حلف کو پامال کرتے ہوئےوزیر اعلیٰ
شرما نے اس بے دخلی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا تھا۔ کانگریس لیڈر کی
شکایت میں کہا گیا تھاکہ ،اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں کو انتقامی کارروائی
قرار دے کرہمینت بسوا سرما نےقتل و غارتگری اور آتش زنی کو جائز ٹھہرایاہے
جبکہ یہ معاملہ فی الحال گوہاٹی ہائی کورٹ کےاندر زیر سماعت ہے– اس طرح
گویا وزیر اعلیٰ نے عدالت کی توہین کردی۔ یہ شکایت چونکہ وزیر اعلیٰ کے
خلاف تھی اور اس کا نشانہ وہاں رہنے والی مسلم آبادی ہوئی تھی۔اس لیے پولس
نے ایف آئی آر درج کرنے کی جرأت نہیں کی لیکن اب عدالت نے حکم دے کر
انتظامیہ کا کام آسان کردیا ہے اور بعید نہیں کہ سرما کی کرسی کو خطرہ
لاحق ہوجائے۔
آسام کے اندر عدالت کا کردار پہلے بھی مثبت رہا ہے ۔ جنوری 4( 2022) ایک
مفاد عامہ کی عرضی (PIL) کی سماعت کر تے ہوئے گوہاٹی ہائی کورٹ نے آسام
حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ مئی میں سرما کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے
تمام ’مبینہ‘ انکاؤنٹر ہلاکتوں کے کیس کی تفصیلات پیش کرے۔ اس کی وجہ یہ
تھی کہ ۷؍ ماہ کے دوران کم از کم 31؍ افراد پولیس کی حراست میں یا پولیس کے
ساتھ مبینہ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہو چکےتھے اور ان میں اکثریت کا تعلق
آسام میں نسلی یا مذہبی اقلیتوں سے تھا۔ جن 30 افراد کی شناخت ہوئی ان میں
سے 14 مسلمان تھےنیز 10 کا تعلق بوڈو، دیماسا، یا کوکی قبائلی برادریوں سے
تھا۔ ان انکاونٹرس کے فرضی ہونے کا اشارہ حراست میں ہونے والی اموات کے
پولس ورژن سے ملتا ہے کیونکہ تقریباً ہر معاملے میں یہی لکھا ہوا ہے کہ
متوفی کو اس وقت گولی مار دی گئی جب اس نے سروس ہتھیار چھیننے کی کوشش کی
یا حراست سے فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔آسام پولس کے مطابق 10 مئی سے
10 دسمبر کے درمیان پولیس فائرنگ میں جو 55؍ افراد زخمی ہوئے ان میں بھی کم
از کم 30 مسلمان ہیں۔ اس مشکوک تفریق و امتیاز کی کارروائی کے خلاف عارف
جوادر نے پولیس اہلکاروں کے ذریعہ مبینہ ملزمان کے فرضی انکاؤنٹر کے قتل
پر تعزیرات ہند کی دفعہ 302 کے تحت مجرمانہ ایف آئی آر درج کرنے کا
مطالبہ کررکھا ہے ۔
بسوا سرما اور ان کے پولس کی داداگیری اپنے نہتے شہریوں پر تو خوب چلتی ہے
لیکن ہمسایہ صوبے میزورم کی سرحد پر ڈھیلی پڑجاتی ہے۔ پچھلے سال 26؍ جولائی
کو آسام اور منی پور کے پولیس اہلکاروں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی تھیں
اور ان میں اپنے لوگوں پر زور دکھانے والے آسام پولس کے کم از کم ۶؍
اہلکار ہلاک ہو گئے تھے جبکہ دونوں طرف کے 80 دیگر اہلکار زخمی بھی ہوئے
تھے۔ ان میں کئی افسران بھی شامل تھے۔ اس واقعے کے بعد دونوں ریاستوں کے
وزرائے اعلیٰ اور عہدیدارو ں نے ایک دوسرے پر تشدد کو ہوا دینے کے الزامات
عائد کیے تھے۔ یہاں تک کہ میزورم کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے درج کردہ ایف
آئی آر میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ آسام کے پولیس اہلکاروں نے وزیر
اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے میزورم پولیس کے ساتھ
تنازعے کے ”دوستانہ حل‘‘ کے لیے بات چیت کرنے سے منع کر دیا تھا ۔
میزورم کی حکومت نے اسی سبب سے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما اور
ریاست کے ۶؍ دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف اقدام قتل اور باقاعدہ حملہ کرنے
کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرا دیا تھا ۔ میزورم پولیس نے آسام کے جن
اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا ، ان میں ریاست کے انسپکٹر جنرل
پولیس، ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس، ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ایک تھانہ انچارج
بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دو سو نامعلوم پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کیس
درج کیا گیا تھا ۔ اس طرح گویا سرما پر نہ صرف صوبے اندر بلکہ باہر بھی قتل
کا مقدمہ درج ہے۔ اس کے باوجود اگر بی جے پی اگر ایسے آدمی پر انحصار کرنے
پر مجبور ہے تو اسے اس کے اندر پایا جانے والا قحط الرجال نہ کہا جائے تو
کیا کہا جائے ؟ اس طرح کے بدمعاشوں کے سہارے یہ لوگ کب تک عوام کو بیوقوف
بناکر حکومت کرتے رہیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا ْ ۔ بسوا سرما کے اوپر یہ
مشہور معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی یوگی کافی تھا
ہر شاخ پہ سرما بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
|