انس سو نوے کی دھائی میں بے نظیر کی حکومت کے خلآف نواز
شریف ٹف ٹائم دینے والے اپوزیشن لیڈر تھے۔
ضیاءالحق کی پہلی برسی پر اسلام آباد میں لاکھوں کا لانگ مارچ لا کر بھر
پور پاور شو کیا۔ ادھر کولیشن گورنمنٹ جو اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی
تھی آخری دھکے کی مار تھے۔
نوازشریف جو پنجاب کے تختِ لاہور براجمان تھے، وفاقی حکومت گرا کر اپنے
اقتدار کا محل قائم کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔
آزاد امیدواروں اور حکومت اتحادیوں کو اپنا بنانے کی خاطر چھانگہ مانگہ میں
ایے ٹی ایم مشین رکھی تھی۔ بولیاں لگتی بکاؤ اراکین اسمبلی بکتے ، جس کا
جتنا ضمیر تھا اتنا پیسہ لٹا یا جاتا۔
جو رکن اسمبلی نوازشریف کے چھانگہ مانگہ کے فارم ہاؤس جاتا، نوٹوں کی گنگا
میں نہا کر اپنی قوم کے ووٹوں کا سودا کر آتا۔
پھر بازارِ سیاست میں یہ کاروبار عام ہوگیا۔ بے نظیر ووٹ آف کانفیڈنس لینے
میں تو کامیاب ہو گئی مگر حکومت نا بچا سکی۔
اس رشوت کے سنگین جرم کو انگیزی اصلاح ھارس ٹریڈنگ کہتے ہیں
آج دو ہزار بائیس میں پھر وقت ایسا آن پڑا ہے کہ جمہوریت کے رکھوالے ٹکے
ٹکے پر بک رہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن بولیاں لگا رہی ہے اور
حکومتی اراکین نو بال پر آؤٹ ہو رہے ہیں ۔ سندھ ہاؤس میں امپائر بپٹھے ہیں
اور وکٹوں پر وکٹ گرا رہے ہیں۔
عمران حکومت کے پاس 178 اراکین ہیں جن میں مختلف اتحادی جماعتوں اور آزاد
اراکین جیسے بکاؤ مال شامل ہیں۔
کئی ایسے ہیں جن کو جہانگیر ترین کے ہیلی کاپٹر کی ہوا لگی اور وہ شاپر کی
طرح اڑتے ہوئے حکومتی بپنچوں پر آ گرے تھے۔
افسوس کہ خریدار یہ بھول بیٹھا تھا کہ بازارِ سیاست میں اس سے بڑے خریدار
دھاک لگائے بیٹھے ہیں۔
اور وہ ایسی بولیا لگائیں گے کہ اس کی سیاست کی دکان یکلخت زمیں بوس ہو
جائے گی۔
اپوزیشن کے پاس فی الوقت 163 اراکین ہیں مگر تحریک عدم اعتماد کے لیے بیس
سے زائد ناراض اراکین کو اپنی مقناتیسی قوت سے اپنے ساتھ کرنے میں کامیاب
ہو چکے۔
ادھر سپیکر قومی اسمبلی اجلاس بلانے میں تاخیر کر کے اپنی غیر جانبداری کو
داغدار کر چکے۔
اور اصل مزہ تو تب آئے گا جب لانگ مارچ اور اجلاس ساتھ ساتھ ہونگے۔
صبح کے تخت نشیں کو رات کو اپنا بوریا بسترا سمیٹ کر بنی گالا میں پناہ
لینی ہو گی۔
جس خفیہ راستے سے ایوان میں پہنچے تھے آج اس راستے میں سانپ ہی سانپ ہیں۔
یہ کارکردگی اور نا اہلیت کے بوئے بیج ہیں جو اژدھہے کی طرح ہو گئے ہیں اور
آپ کو کاٹنے پڑ رہے ہیں۔
27 کو پی ٹی آئی امر بالمعروف کے نام سے ڈی چوک میں جلسہ کرے گی اور خواتین
و حضرات رقص کر کے تبلیغ کریں گے۔
کبھی ایاک نعبدوا یبھی ریاستِ مدینہ کبھی اسلامی فلاحی ریاست !!!
اور اب امر بالمعروف جسے خان صاحب امر بن معروف پڑھتے ہیں کا عنوان دے کر
اپنی شراب کو شہد ثابت کیا جا رہا ہے ۔
اخلآقی اقدار تو ایک طرف اللہ کی آیات کا اس سے بڑا گستاخ ٹولہ اور کون سا
ہو گا؟؟؟
چلیں مان لیا خان رحونیت کی دنیآ کا سب سے بڑا پیر ہے مگر دل پر ہاتھ رکھ
کر بتائیں کہ کیا مہنگائی کے طوفان نے تبدیلی کی سونامی کو ایک گدلے نالے
میں تبدیل کر دیا ہے یا نہیں؟؟
چلیں یہ بھی مان لیا مہنگائی کا سارا قصور پچھلی حکومتوں کا ہے۔ مگر میری
ہمدردیاں کپتان کے ساتھ ہیں جو اس وقت اپنی جارحانہ اور نا اہل رویے کی وجہ
بالکل اکیلا رہ گیا ہے۔کیا عجب تھا اگر ق لیگ ، ایم کیو ایم پاپا کے لاڈلے
کو آئنی مدت پورا کرنے میں معاونت کر دیتے ۔ اب ستائیس تاریخ کو خان "مجھے
کیوں نکالا" جلسے سے خطاب کریں گے۔
وہ عوام جو نون لیگ کی بریانی بہت شوق سے کھاتی تھی اسے پاپا جونز کا پیزا
کھانے کی عادت ڈالی تھی۔
اب اس قوم کو مولانا فضل الرحمن کا حلوہ ہر صورت کھانا ہو گا اور ساتھ میں
پی ڈی ایم کآ مکس اچار!!!
افسوس دین کا نام لینے والے اس حدیث کو بھول چکے
الراشی و المرتشی کلاھما فی النار
رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔
آج قرآن سامنے رکھے ، آئین کے آرٹیکل ۶۲ ۶۳ سامنے رکھے تیس مارچ یومِ
پاکستان کو میں یہ سوچ رہی ہو ں کہ قائد اعظم تہے خاک تڑپ رہے ہونگے۔ اقبال
کی روح رو رہی ہو گی کہ جس قوم کو میں نے شاہین اور طائرِ لاہوتی کہا تھا،
صداقت عدالت اور شجاعت کا درس دیآ تھآ وہ ضمیر فروش بن کر مردہ غیرت کے
ساتھ اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں ۔
ادھر عوام کے پاس زہر کھانے کو پیسے نہیں، ادھر نوٹوں کی بوریوں سے ووٹ
خریدے جا رہے ہیں۔
خان صاحب اقتدار کی صراحی سے آخری قطرہ تک پینے کے حریص ہیں۔
اور مجھے یہ ڈر ہے کہ وفاقی حکومت گری تو تختِ پنجاب کی گرتی ہوئی دیوار
زمین بوس ہو جائے گی، سپیکر ، چیئرمین سنٹ بھی اپنی کرسی نہیں بچا سکیں گے۔
ادھر شیخ رشید سندھ میں گورنر رآج لگانے کے مشورے اور ضد کر رہے۔
سو اس سیاسی بحران کی آخری قسط دل تھام کر دیکھئے گآ کیونکہ جمہوریت اس وقت
وینٹی لیٹر پر لگی آخری سانسیں لے رہی ہے
|