پیر کامل حضرت محمد عنایت احمد ؒ نقشبندی مجددی کے
ہاتھ پر بیعت کرنے کا اعزاز مجھے 1991ء میں حاصل ہوا۔یہ اہم فریضہ پیران
پیر حضرت میاں میرقادری ؒ کے دربار عالیہ پر انجام پایا ۔ اس کے بعد بے
شمار واقعات اور کرامتیں میرے مشاہدے میں ایسی آئیں جنہیں دیکھ کر میں اس
نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پیر کامل حضرت محمد عنایت احمد ؒ نقشبندی مجددی نہ
صرف جید عالم دین تھے اور انہیں فقہی اور دینی علوم پر ملکہ حاصل تھا بلکہ
آپ ؒ صاحب کشف اور تہجد گزار ولی بھی تھے۔ مرید ہونے کے بعد آپ ؒ نے مجھے
تاکید فرمائی کہ پنجگانہ نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ تہجد کی نماز بھی
پڑھاکریں۔ صبح اور شام درود خضری( صلی اﷲ علی حبیبہ سیدنا محمد و الہ وسلم
) اور کلمہ طیبہ کا ورد بھی روزانہ معمولات میں شامل کروں ۔اﷲ کے فضل و کرم
سے آپ ؒ کے حکم پر، آپ ؒ کی زندگی اور جسمانی وصال کے بعد بھی میں نے
پنجگانہ نماز کی ادائیگی اور نماز تہجد کو اپنا معمول بنائے رکھا۔کبھی غفلت
ہو بھی جاتی تو آپ ؒ روحانی طور پر مجھے بیدار کردیتے۔ کچھ عرصہ پہلے( جب
میری رہائش مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ لاہور میں تھی )،نماز فجر اور نماز عشا
کی ادائیگی کے لیے مسجد طہ جانا میرے معمولات میں شامل تھا۔لیکن عمر بڑھنے
کے ساتھ ساتھ جسمانی مسائل آڑے آتے گئے اور دربار عالیہ پر حاضری کا سلسلہ
کم سے کم ہوتا چلاگیا۔اس کی وجہ گھٹنوں میں شدید درد ، بینائی کی کمی اور
قوت سماعت میں کم ہونا تھی ۔زیادہ دیر بیٹھنا، مسلسل کھڑے رہنا اور چلنا
پھرنا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔اس لیے محفل میلاد کی محفلوں میں میری
عدم شرکت کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا لیکن ایک لمحے کے لیے بھی میں
اپنے پیرو مرشد کے بتائے ہوئے وظائف سے غافل نہیں ہوا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب آپ ؒ حیات تھے ،ایک دن میں نے آپ ؒ سے کہا مجھے
قبر سے ڈر لگتا ہے، مرنے کے بعد انسان کو جب قبر میں اتار جاتا ہے تو اس
وقت انسان کی کیا کیفیت ہوتی ہوگی ۔آپ ؒ نے فرمایا مومن کے لیے دنیا
قیدخانہ ہے جبکہ قبر اور آخرت کی زندگی راحت کا باعث ہے ۔ پھر اﷲ تعالی
اپنے نیک بندوں کے لیے قبر کو جنت کاگہوارہ بنا دیتا ہے ۔ آپ کو کسی دن اس
بات کا مشاہدہ بھی کرا دیاجائے گا ۔ابھی اس بات کو چند ہی دن گزرے تھے کہ
میں نے ایک رات کو خواب دیکھا کہ میرے گھر کے سبھی افراد زارو قطار رو رہے
ہیں۔ سوچتا ہوں کہ شاید کوئی شخص مر گیا ہے لیکن جب میں اٹھنے کی جستجو
کرتا ہوں تو اٹھ نہیں پاتا، بولنا چاہتا ہوں تو بول نہیں سکتا ۔اس نتیجے پر
پہنچتا ہوں کہ مرنے والا میں ہی ہوں ۔مجھے غسل دیاگیا ٗ جو شخص غسل دے رہا
تھا اس کی آواز میں بالکل ٹھیک سن رہا تھا،جب غسل مکمل ہوگیا تو خواتین
چاروں طرف کھڑی ہوکر درود و سلام پڑھنے لگیں ۔ ان میں سے کسی نے بلند آواز
سے کہا جنازہ اٹھانے کا وقت ہو گیا ہے ۔
عزیز و اقارب (جن کی شکلیں اور آوازیں بھی میں پہچانتاتھا ) وہ میرا جنازہ
اٹھاکر قبرستان کی طرف چل پڑے۔ میں بار بار انہیں کہہ رہا تھا ،میں زندہ
ہوں، مجھے قبرستان نہ لیکر جاؤ لیکن میری آواز مجھ تک ہی محدودہوکر رہ چکی
تھی اور سب لوگ کلمہ شہادت کا ورد کرتے ہوئے میری میت کو کندھوں پر اٹھائے
قبرستان پہنچ گئے ۔ حتی کہ قبر میں دفن کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹ
گئے ۔ اس لمحے قبرمیں لیٹا ہوا میں سوچ رہا تھاکہ اب کیا کروں یہاں تو ہر
طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔کوئی ساتھی نہیں ،کوئی غمگسار نہیں ۔پھر اچانک
میں نے اپنے دائیں جانب روشنی کی ایک کرن دیکھی جب میں نے اس جانب کروٹ لی
تو ایک وسیع و عریض کھلے اور کشادہ ہال میں جا گرا ۔وہاں چار چار پانچ پانچ
افراد ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے دکھائی دیئے ۔جنہیں دیکھ کر مجھے حوصلہ
ہوا کہ یہاں میں اکیلا نہیں ہوں اور بھی بہت سے لوگ یہاں موجود ہیں۔
اسی اثنا ء میں ایک آواز میرے کانوں میں سنائی دی" اٹھو تہجد کا وقت ہوگیا
ہے نماز تہجد پڑھو" ۔ آدھ کھلی آنکھوں سے جب میں نے دیکھاہوں تو پیرو مرشد
حضرت محمد عنایت احمدؒ میرے سامنے کھڑے تھے ۔لیکن جونہی میں کلمہ طیبہ پڑھ
کر نیند سے بیدار ہوا تو آپ ؒ منظر سے غائب ہوگئے ۔ نماز تہجد کی ادائیگی
کے بعد حسب معمول جب میں مسجد طہ پہنچا تونماز فجر کے بعد آپ ؒنے فرمایا۔
کیا اب بھی آپ کو قبر سے ڈر لگتا ہے ۔ میں حیران تھا کہ خواب میں جو کیفیت
مجھ پر طاری تھی اور میں نے جو کچھ خواب کی حالت میں دیکھا ہے،اس کے بارے
میں آپ ؒ کو کیسے علم ہوگیا ۔میرے استفسار پرآپ ؒ نے فرمایا کہ اﷲ کے بندے
خواب کی حالت ہی میں رہنمائی فرمایا کرتے ہیں اور پوری کائنات کو اپنی
ہتھیلی پر رائی کے دانے کی طرح دیکھتے ہیں۔ اس لمحے میری جسمانی اور روحانی
کیفیت یہ تھی ۔جی چاہتاتھاکہ آپ ؒ کے قدموں سے لپٹ جاؤں ۔
................
ایک روز ہم مسجد طہ ہی میں نماز کی ادائیگی کے بعد بیٹھے تھے کہ آپ ؒ نے
ارشاد فرمایا کہ پانی مچھلی کی زندگی ہے ،جب اسے پانی سے نکال کر گھر لایا
جاتا ہے پھر مرچ مصالے لگا کر آگ پر تلا جاتا ہے پھر مزے لے لے کر کھایا
جاتا ہے تو پیٹ میں جاکر بھی مچھلی پانی مانگتی ہے اس لیے کہ پانی اس کی
زندگی ہے ۔اسی طرح انسان دنیا میں جو نفلی فرضی نمازیں اوردیگر عبادات کرتا
ہے۔مرنے کے بعد بھی قبر میں اﷲ تعالی اسے وہی عبادات کرنے کی توفیق عطا
فرما دیتا ہے۔
انسانی جسم تو زندگی کا محتاج ہوسکتا ہے لیکن روح بالخصوص صالحین اور
اولیاء اﷲ کی کسی کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ انسانی جسم سے آزاد ہوکر پوری
کائنات اس کی دسترس میں شامل ہوجاتی ہے اور قبر میں لیٹا ہوا ولی کامل پوری
کائنات کو نہ صرف دیکھ سکتا ہے بلکہ اپنی عبادات کو بھی قبر میں جاری رکھ
سکتا ہے ۔قبر وہ نہیں ہوتی جو بظاہر نظر آتی ہے بلکہ اﷲ تعالی اسے تاحد نظر
وسیع فرمادیتا ہے اور جنت کی کھڑکی اس میں کھل دی جاتی ہے بلکہ نیک لوگوں
کی قبر بھی جنت کا گہوارہ بن جاتی ہے ۔
.............
اسی طرح ایک روز بہت سے عقیدت مند اور مریدین مسجد طہ میں جمع تھے گفتگو کا
سلسلہ جاری تھا ۔ ایک سوال کے جواب میں آپ ؒ نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک
گڈریا اپنی بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لیے جاتا ہے ۔حسن اتفاق سے ایک بکری
چرتے چرتے دریا کے قریب دلدلی زمین کی جانب پہنچ جاتی ہے ,اس کے پاؤں دلدلی
زمین میں دھنس جاتے ہیں ۔ بکری کو اکیلا دیکھ کر ایک بھیڑیا بھی وہاں آ
پہنچتا ہے ۔لیکن وہ بھی بکری سے کچھ ہی دور پر دلدلی زمین میں دھنس جاتا
ہے۔ بھڑیئے کو دیکھ کر بکری مسکراتی ہے ۔ بکری کو مسکراتا دیکھ کر بھیڑیا
کہتا ہے اے بیوقوف بکری ۔ موت کو قریب دیکھ کر بھی تو مسکرا رہی ہے۔ عجیب
احمق ہو تم ۔ بکری نے کہا ۔میں تو تیری قسمت پر ہنس رہی ہوں ۔ گڈریا جب
اپنی بکریوں کی تعداد گنے گا تو ایک کم دیکھ کر یقینا ادھر کا رخ کرے گااور
مجھے یہاں سے نکال کرلے جائے گا لیکن تمہیں بچانے کون آئے گا ۔یہ واقعہ
سناتے ہوئے آپ ؒ نے فرمایا کہ پیرو مرشد اپنے مریدوں کو ہاتھ کی ہتھیلی پر
رائی کے دانے کی طرح دیکھتا ہے ۔وہ پیر ہی کیا جو اپنے مریدوں کی حالت زار
سے بے خبرہو ۔لیکن مرید اسی وقت صالحین اور ولایت کی منزلیں طے کرسکتا ہے
جب گناہوں سے تائب ہوکر پیرو مرشد کے بتائے ہوئے وضائف اور پنجگانہ نماز کو
اپنی زندگی کا معمول بنالیتا ہے ۔آپ ؒ نے فرمایا کہ حضرت محمد ﷺ اﷲ کے آخری
نبی ہیں آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا لیکن کائنات کا نظام چلانے اور
رشد و ہدایت کے سلسلے کو جاری و ساری رکھنے کے لیے قطب ٗ ولی ٗ ابدال روز
قیامت تک دنیا میں آتے اور پردہ فرماتے رہیں گے ٗ یہی حکمت خداوندی ہے ۔
آپ ؒ نے مزید فرمایا کہ نبی ﷺ کی طاقت اور حکمت کا تو تصور بھی نہیں کیا
جاسکتا لیکن جب کوئی انسان اﷲ تعالی کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے تو اس کی
زبان سے نکلنے والے الفاظ کی حرمت خود اﷲ تعالی رکھتا ہے ۔ آپ ؒ نے فرمایا
کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کو ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا حکم
دیتے ہوئے کہا تھا کوئی ہے جو ملکہ بلقیس کے آنے سے پہلے اس کا تخت لے آئے
۔ تو حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک غلام، حضرت آصف بن برخیا ؒ نے سینکڑوں
میل دور رکھے ہوئے تخت کو صرف "یاحی یا قیوم " کہہ کر ایک لمحے میں تخت
حاضر کردیاتھا ۔برخیا ؒ پیغمبر نہیں تھے۔ صرف آپ علیہ السلام کے غلام تھے ۔
پیرو مرشد حضرت محمد عنایت احمد نقشبندی مجددی ؒ نے فرمایا کہ انسان جب ترک
گناہ کے بعدعبادات کو اپنا معمول بنالیتاہے اور رات کے پرسکون ماحول میں اﷲ
کو پکارتا ہے تو کامل پیرو مرشد کی موجودگی میں اس میں یہ استعداد خود بخود
پیدا ہوجاتی ہے ۔عبادت میں وہ توانائی ہے جو حدود و زمان و مکان کو توڑ کر
ہمیں رب کائنات کے جوار میں پہنچا سکتی ہے اس سے کائنات کی وسعتیں سمٹ جاتی
ہیں۔ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ علم سے دماغ کو اور عبادت سے روح کو نور عطا
ہوتا ہے جس قدر نور عظیم ہوگا مومن کی قوت بھی اسی قدر عظیم ہوگی ۔ حضرت
شاہ عبدالعزیز ؒ اپنی کتاب خزینہ معارف میں لکھتے ہیں کہ جسم اور روح کے
درمیان اگر حجاب اٹھ جائے تو اولیا کرام ہر چیز کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔مستند
روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ اولیائے کرام فرشتوں کا مشاہدہ کرنے میں دقت
محسوس نہیں کرتے بلکہ فرشتوں کی باہمی گفتگو بھی سن لیتے ہیں ۔سبحان اﷲ
.............
ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال ؒ کا حوالے دیتے ہوئے ایک دن آپ ؒ نے فرمایا کہ
اقبال ؒ نے فلسفہ زمان و مکان کے متعلق طویل بحث کی ہے- انہوں نے فلسفہ
زمان و مکان میں اس بات کو واضح کیاہے کہ مومن ہر چیز پر قاہر ٗ قادر اور
خدائے مطلق کا نائب مقرر کیاگیا ہے ۔اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرے
تو وہ نہ صرف کائنات کومسخر کرسکتا ہے بلکہ زمان و مکان کے بندھن کو بھی
توڑ کر آگے نکل سکتاہے پھر ایسے شخص کے لیے فرمایا کہ وہ حیات ابدی حاصل
کرلیتا ہے۔ایک مرتبہ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ نے
حضرت فرید الدین گنج شکر ؒ ؒ کے ذوق و شوق اور روحانی استعداد کو دیکھ کر
آپ ؒ کے پیرو مرشد حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ کو مخاطب کرکے فرمایا ۔
بابا بختیار تم نے تو ایک ایسے عظیم شاہباز کو قید کرلیا ہے جس کی رسائی
سدرۃ المنتہی تک ہے ۔(سیر العارفین)
.............
پیر کامل حضرت محمد عنایت احمد نقشبندی مجددی ؒ فرماکرتے تھے کہ ایمان کی
حرارت ٗ محبت کی گرمی اور عشق کی تپش ٗ کامل مرشد کی وجہ سے جلد حاصل
ہوسکتی ہے۔ قرآن حکیم بھی تعمیر سیرت ٗ پختگی کردار ٗ تشکیل تقوی اور
آنکھوں سے غفلت کی پٹیاں دور کرنے کا وسیلہ بنتا ہے ۔ قرآن پاک میں اﷲ
تعالی فرماتا ہے ۔اے ایمان والو ۔ اﷲ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ
تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تا کہ تم فلاح پاسکو۔
آپ ؒ فرمایاکرتے تھے کہ تقوی اسلام کی روح او راسلام دین فطرت ہے اس کی
حقانیت لامحالہ ہر اس ذہن کو تسلیم کرنی پڑتی ہے جو تعصب کی پٹی اتار کر
صحیح خطوط پر غور و فکرکرے ۔ قرآن پا ک جو ایک الہامی کتاب ہے وہ صرف اپنے
قاری کو تلاوت ہی کی دعوت نہیں دیتی بلکہ فکر و تدبر کی تعلیم بھی دیتی ہے
اور غورو فکر سے انسانی ضمیر زندہ ہوتا ہے اور انسان کو حقائق تسلیم کرنا
سیکھاتا ہے۔ جب قلب و جگر اور دل و دماغ کسی بات کو تسلیم کرلیتے ہیں تو
پھر اس کے تقاضے پورے کرنے مشکل نہیں رہتے ۔
پیرو مرشد کی سرپرستی میں مجھے صحابی رسول حضرت حاجی شیر دیوان چاولی ؒ
(بورے والا) ٗ حضرت سید شاہ موسی گیلانی ؒ (قبولہ شریف) ٗ حضرت فرید الدین
گنج شکر ؒ (پاکپتن) کے مزارات پر جانے کا اعزاز بھی مجھے حاصل ہے اس دوران
پیرو مرشد کے شب و روز دیکھنے کے ساتھ ساتھ میں نے کئی کرامتوں کا بذات خود
نظارہ بھی کیا۔ جو ان کے منصب ولایت پر فائز ہونے کی بین دلیل ہیں۔یہ عرض
کرتا چلوں کہ حضرت حاجی شیر دیوان چاولی ؒ کا مزار اقدس دریائے ستلج کے
مغربی کنارے اور بورے والا شہر سے دس کلومیٹر مشرق میں ایک گاؤں( حاجی
شیرؒ) میں واقع ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے مقامی بسوں کا سہارا لینا پڑتا ہے
جو صرف دن میں چند ایک بار چلتی ہیں ۔جب ہم پیر و مرشد کی سرپرستی میں مزار
اقدس میں اجتماعی دعاکرکے فارغ ہوئے تو ہمیں بتایا گیا کہ آخری بس چلنے کے
لیے تیار ہے اگر تھوڑی سی بھی تاخیر ہوئی تو بس چلی جائے گی اور رات اسی
دیہات میں ہی قیام کرنا پڑے گا۔ ایک جانب بس نکلنے کا خدشہ تو دوسری جانب
نماز مغرب کے چھوٹ جانے کا ڈر ۔پیرو مرشدؒ نے فرمایا پہلے نماز مغرب پڑھتے
ہیں ،اگر اﷲ کو منظور ہوا تو بس کہیں نہیں جاتی ۔ وہ ہمیں اپنے ساتھ لے کر
ہی جائے گی۔
بہرکیف ہم اس گاؤں کی مسجد میں داخل ہوکر پیرو مرشد کی امامت میں نماز مغرب
پڑھنے لگے بیس پچیس منٹ بعد جب فارغ ہوئے تو ہر طرف ماحول پر اندھیرا چھا
چکا تھا ہمارے دل میں یہ خوف اپنی جگہ موجود تھا کہ آج کی رات ہم کہاں
ٹھہریں گے لیکن جب پیرو مرشد کی سرپرستی میں چلتے ہوئے مسجد سے باہر آئے تو
دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بس مسجد کے باہر کھڑی تھی اور چند افراد اسے ٹھیک
کررہے ہیں ۔پیرو مرشد نے ہمیں اشارہ کیا کہ سوار ہوجاؤ ۔ بس اب چلنے والی
ہے ۔بالکل ایسے ہی ہوا جو نہی ہم سب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے تو بس سٹارٹ
ہوگئی اور چند ہی لمحوں میں رواں دواں ہوگئی ۔بورے والا پہنچے تو مین سڑک
تک پہنچانے کے لیے ٹانگوں والا اڈہ بالکل خالی تھا، رات کے وقت اجنبی
قصباتی شہر میں دو کلومیٹر کا سفر بھی کم اذیت ناک نہیں ہوتا ۔ابھی ہم
پریشانی کے عالم میں پیدل چلنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ اندھیرے میں سے ایک
ٹانگہ آتا دکھائی دیا جو ہمارے قریب آکر رک گیا ہم پوچھے بغیر اس میں سوار
ہوگئے اور وہ ہمیں لے کر لاہور جانے والی مین سڑک پر لے آیا ۔جب ہم لاہور
والی بس پر بیٹھ گئے توحاجی شریف صاحب کا تقاضا تھاکہ قبولہ شریف اور
پاکپتن شریف بھی ہوتے چلیں لیکن کس نے کہاں ٹھہرنا ہے اور رات کہاں بسر
ہونی ہے کسی کچھ علم نہیں تھا۔ بس عارف والا پہنچی تو میں نے نہایت ادب سے
درخواست کی کہ عارف والا میں میرے ماموں( ہدایت خان ) رہتے ہیں لیکن ان کے
گھر کا مجھے کوئی پتہ نہیں(اس وقت موبائل کا استعمال عام نہیں ہوا تھا) میں
نے حضرتؒ صاحب سے کہا اگر آپؒ اجازت دیں تو گھر تلاش کرنے کی جستجو کریں ۔
اس وقت رات کے بارہ بج چکے تھے اورٹانگوں اڈہ بھی خالی تھا۔سڑک دور دور تک
سنسان پڑی تھی ۔ شہر کو جانے کا کوئی اور ذریعہ بھی نہیں تھا۔ان مشکلات سے
قطع نظر جب پیرو مرشد نے عارف والا قیام کا فیصلہ کرلیا تو ہم سب بس سے اتر
کر شہر کی طرف پیدل ہی چل پڑے ۔ اچانک ایک خالی ٹانگہ اندھیرے سے نمودار
ہوا اور کوچوان ہمیں پوچھنے لگا کہ آپ نے کہاں جانا ہے میں نے ماموں کا نام
بتایا تو اس نے کہا ہاں میں ان کا گھر جانتا ہوں ۔پیرو مرشد سمیت ہم سب
تانگے میں سوار ہوکر ماموں کے گھرجا پہنچے تو سب حیران تھے ماموں نے فوری
طور پر کچھ کھانے پینے کاانتظام کیا ۔اسی اثنا میں رات کا ایک بج گیا۔ ہم
لوگ سونے کے لیے چارپائیوں پر لیٹ گئے لیکن پیرو مرشد چند مریدوں کے ساتھ
قریبی مسجد پہنچ کر حسب روایت نوافل اور نماز تہجد کی ادائیگی میں مشغول
ہوگئے( سبحان اﷲ ) نماز فجر کے بعد آپ ؒ کی مسجد سے واپسی ہوئی ۔گزشتہ تیس
گھنٹوں سے مسلسل سفر اور جاگنے کے باوجود آپ بالکل ہشاش بشاش دکھائی دیئے
اورآپ ؒ کی سفر کے دوران بھی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی ۔
پہلے قبولہ شریف پھر دوپہر کو ہم پاکپتن شریف جا پہنچے تو حضرت صاحب فرمانے
لگے آج دوپہر کا کھانا حضرت بابا فریدالدین گنج شکر ؒ ہمیں کھلائیں گے ۔
مزار مبارک پر حاضر ی کے بعد ہم ایک الگ جگہ پر بیٹھ گئے جہاں چند لمحوں
بعد ایک شخص آیا اس نے پوچھا کہ لاہور سے آپ لوگ تشریف لائے ہیں۔ حضرت صاحب
نے فرمایا ہاں ۔ہم ہی گنج شکر ؒ کی زیارت کے لیے آئے ہیں۔ اس،اجنبی شخص نے
کہا آپ یہاں تشریف رکھیں میں ابھی آپ کے لیے کھانا لے کر آرہاہوں ۔یہ سب
کچھ میرے سامنے ہورہا تھا چند منٹوں بعد ایک شخص نے دسترخوان بچھا یا دوسرے
آدمی نے بہترین کھانا آراستہ کیا ۔تیسرے نے ٹھنڈے پانی کا انتظام کیا اور
ہم سب نے جی بھر کے کھایا اور اﷲ کا شکر اداکیا۔دودنوں پر مشتمل یہ سفر تو
اختتام پذیر ہوگیا لیکن پیرو مرشد کا روحانی دنیا میں مقام و مرتبے کو ذاتی
طور پر مشاہدہ کرنے کا موقع ہمیں فراہم کرگیا ۔
................
مسجد طہ میں آنے والوں کے لیے لنگر کا انتظام بھی موجود تھا ۔ صبح اور شام
پاکیزہ خیالات کے حامل دو نوجوان ( محمد ہدایت اور محمدمنشا ) درود پاک کا
ورد کرتے ہوئے لنگر پکاتے ۔ نماز فجر اور نماز عشا کے بعد محفل میں موجود
درجنوں مرید اور عقیدت مند پیٹ بھر کرکھانا کھاتے ۔اﷲ تعالی اپنے نبیوں اور
ولیوں کو تمام خوبیوں کے علاوہ صبر واستقامت بھی خوب عطا کر تا ہے ۔ جب نبی
کریم ﷺ کے پیارے بیٹے ابراہیم ؓ کا انتقال ہوا تو آپ ﷺ بہت غمگین تھے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے آپ ﷺ سے عرض کی کہ اﷲ نے ہر نبی کو یہ درجہ عطا کیا
ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کوئی ایک دعا مانگ سکتا ہے، جو فورا قبول کی جائے
گی۔تو آپ ﷺ اپنے بیٹے کی دوبارہ زندگی کی دعا کیوں نہیں مانگ لیتے ۔اﷲ قبول
کرنے والا ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ دعا میں نے آخرت میں اپنی امت کی بخشش
کے لیے سنبھال رکھی ہے۔(سبحان اﷲ )
بالکل یہی کیفیت پیر کامل حضرت محمد عنایت احمد نقشبندی مجددی کے چہر ے پر
اس وقت دیکھنے کو ملی جب آپ ؒ کے بڑے صاحبزادے محمد عمر کا اچانک انتقال
ہوگیا ۔ اولاد کی محبت اور بڑھاپے کا سہارا ہونے کے باوجود غسل سے تدفین تک
آپ ؒ کا صبر قابل دید تھا ۔بلکہ آپ ؒ عورتوں اور مردوں کو یہ ہدایت کرتے
رہے کہ کوئی میرے بیٹے کی موت پر نہ روئے ۔ لیکن جب محمد عمر کو لحد میں
اتار کر مٹی ڈالی جارہی تھی تو آنسووں کے چند قطرے آپ ؒ کی آنکھوں سے ٹپکے
اور ہاتھ اﷲ کی بارگاہ میں بیٹے کی بخشش کے لیے اٹھ گئے۔اس لمحے آپ ؒ صبر و
استقامت کا پہاڑ دکھائی دے رہے تھے ۔آپ ؒ کا یہی اصرار رہا کہ رونے اور
دنیاوی باتیں کرنے کی بجائے درود پاک پڑھا جائے جو قبر میں بخشش کا اصل
ذریعہ ہے ۔ بعد ازاں آپ ؒ کی اہلیہ اور بڑی بیٹی کا بھی انتقال ہوا تو ان
پے درپے امتحانوں میں بھی آپ ؒ ثابت قدم رہے ۔
عمر بڑھنے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شوگر اور بلڈپریشر کی بیماری نے غلبہ
پانا شروع کردیا آپ ؒ دوا سے زیادہ دعا پر یقین رکھتے تھے لیکن یہ موذی
بیماریاں اپنا اثر دکھانے سے کہاں باز رہتی ہیں ۔پھر یہ بات بھی ہے کہ
بیماریاں اور تکلیفیں اﷲ کے بندوں کے درجات میں اضافے کا باعث بنتی ہیں
۔ابھی بلڈپریشراور شوگر کی شدت ہی کم نہیں ہو ئی تھی کہ معدے میں کینسر کے
مرض نے آپ ؒ کو جسمانی طور پر نڈھال کر دیا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مومن
موت سے پہلے جو تکلیف اٹھاتا ہے وہ اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے ۔ اس
کے باوجود کہ کمزوری اور نقاہت کااحساس دن بدن بڑھتا جارہا تھا لیکن آپ ؒ
نماز جمعہ پڑھانے کے لیے ویل چیئر پر بیٹھ کر مسجد تشریف لاتے اور وعظ و
بیان بھی فرماتے رہے۔ جبکہ گھر پر ہر نماز باقاعدگی سے ادا کرتے رہے ۔جسم
سے روح کی جدائی کے وقت نگاہیں آسمان کی طرف اور آپ ؒ کی زبان پر اﷲ اﷲ کے
الفاظ تھے جو آپ ؒ مسلسل دھرائے جارہے تھے گویا آپؒ کی آنکھوں سے زمین و
آسمان کے تمام پردے ہٹا دیئے گئے ہوں اور آپؒ جنت میں اپنا مقام دیکھ رہے
ہوں ۔چنانچہ 31 جولائی 2011 اتوار گیارہ بجے صبح آپ ؒ کی مقدس روح نورانی
جسم سے الگ ہوئی ۔ اناﷲ و انا الیہ راجعون ۔
یہ منحوس خبر سنتے ہی یوں محسوس ہوا کہ جیسے آسمانی بجلی مجھ پر آگری ہو۔
میں بے ساختہ آنسو بہاتا ہوا مسجد طہ پہنچا تو وہاں سینکڑوں عقیدت مند اور
مرید ایک دوسرے کے گلے مل کر زار و قطار رو رہے تھے ۔ خلیفہ دوم جناب صوفی
عبدالمجید عاجز بھی موجود تھے( خلیفہ اول سید گلزار الحسن شاہ ؒ وفات پا
چکے ہیں) وہ ہمیں بھی دلاسہ دے رہے تھے اور خود بھی آنسو بہا رہے تھے
۔علاقے کے معززین اور مسجد انتظامیہ کے اشتراک عمل سے یہ طے پایا کہ نماز
جنازہ رات دس بجے ادا کی جائے گی ۔تجہیز و تدفین کے انتظامات کے حوالے سے
کبوتر پورہ قبرستان میں قبر کے لیے جگہ کاانتخاب کرلیاگیااور مسجد میں لوگ
سفید چادریں بچھا کر کلمہ طیبہ اور درود پاک پڑھنے لگے ۔ قرآنی سپارے بھی
پڑھے جاتے رہے تاکہ پیرو مرشد کو قبر میں اترنے سے پہلے مریدوں اور عقیدت
مندوں کی جانب سے کوئی بیش قیمت نذرانہ پیش کیاجاسکے ۔
اس دوران پیر بھائی( محمد ہدایت) سے میری ملاقات ہوئی جو گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے
پیرو مرشد کی تیمارداری پر مامور تھے، انہوں نے بتایا کہ صبح 9 بجے سے ہی
وقت نزع شروع ہوچکا تھا۔ پیر و مرشد کی نگاہ آسمان کی طرف مرکوز تھی اور
یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ آسمان سے اترتے ہوئے فرشتوں کو دیکھ رہے ہیں ۔
آپ ؒ کی زبان پر اﷲ اﷲ کا ذکر جاری تھا ۔ تکلیف کے باوجود چہرے پر گہرا
اطمینان اور سکون تھا ۔پھر جب پاک روح نے جسد اطہر کو الوداع کہا تو آ پ ؒ
نے اس طرح خود بخود آنکھیں بند کرلیں جیسے تھکن کے بعد انسان گہری نیند سو
جاتا ہے۔
ولی کامل کی موت
حضرت تمیم داری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا اﷲ تعالی فرماتا ہے
کہ اے ملک الموت ۔ میرے ولی کے پاس جاؤ اور اسے لے آؤ کیونکہ میں نے اسے
رنج اور راحت دونوں ہی میں آزمایا ہے اور اسے اپنی رضا کے مطابق پایا ۔میں
چاہتا ہوں کہ اسے دنیا کی تکلیفوں اور غموں سے نجات دلاؤں ۔ اﷲ تعالی کے
حکم پر ملک الموت پانچ سو ملائکہ کی جماعت کے ہمراہ جنت کی خوشبو والا کفن
اور پھولوں کی شاخیں (جن میں مختلف خوشبوئیں مہکتی ہیں ) لے کر زمین پر
اترتے ہیں اور ولی کامل کے روبرو فرشتوں کے ہمراہ بیٹھ جاتے ہیں ہر فرشتہ
ایک ایک عضو پر اپنا ہاتھ رکھ لیتا ہے اورمشک میں بسے ہوئے ریشم کو ٹھوڑی
کے نیچے بچھا دیاجاتا ہے ایک دروازہ جنت کی طرف کھول دیا جاتاہے ایک فرشتہ
دل کوجنت کی جانب راغب کرتا ہے کبھی لباس کی طرف اور کبھی پھولوں کی طرف
۔ولی کامل کی جنتی بیویاں اس وقت خوش ہورہی ہوتی ہیں اور روح جسم سے نکلنے
کے لیے بے قرار ہوتی ہے۔ فرشتہ کہتا ہے ۔اے پاک روح اچھے درختوں ٗ دراز
سایوں اور بہتے ہوئے پانیوں کی طرف چل ۔تو روح جسم اطہر سے خود بخود جدا
ہوجاتی ہے۔ ملک الموت اس پر ماں سے بھی زیادہ شفقت سے پیش آتا ہے وہ جانتا
ہے کہ یہ روح اﷲ تعالی کے نزدیک محبوب ہے وہ اس روح پر نرمی کرکے اﷲ تعالی
کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ ولی کامل کی روح اس طرح نکالی جاتی ہے جس طرح
آٹے سے بال ۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ادھر روح نکلتی ہے تو دوسری طرف تمام
فرشتے بیک زبان کہتے ہیں السلام علیکم ادخلو الجنتہ بما کنتم تعملون ۔( اے
نیک روح تم پر سلامتی ہو ،اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل ہوجا)۔حضور ﷺ نے
فرمایا کہ ایک قبیلے کی موت عالم کی موت سے زیادہ آسان ہے ۔ قیامت کے دن
علما کے قلم کی سیاہی شہداء کے خون کے برابر تولی جائے گی۔
پھر جب جسد اطہر کو غسل دینے کا مرحلہ آیا تو خلیفہ دوم صوفی عبدالمجید
عاجز اور چند دیگر افراد نے یہ فریضہ انجام دیا ۔صوفی عبدالمجید عاجز
فرماتے ہیں کہ آپ ؒ کا جسم اس قدر لطیف اور نرم و نازک تھا جیسے زندہ
انسانوں کا ہوتا ہے چہرے پر گہرا سکون ٗ آنکھوں میں نور کی چمک دکھائی دے
رہی تھی کسی بھی لمحے ہمیں یہ احساس نہیں ہوا کہ ہم ایک مردہ جسم کو غسل دے
رہے ہیں ۔ قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ آپ ؒ کی شہادت کی انگلی پر زخم تھا موت
کے بعد انسانی جسم ساقط اورخون منجمد ہوجاتا ہے لیکن زخم سے مسلسل خون رس
رہا تھا کئی بارکپڑے سے صاف کیا گیا لیکن خون قطروں کی صورت میں نکلتا ہی
رہا ۔ میدان جنگ میں جام شہادت نوش کرنے والوں کے حوالے سے ایسے واقعات
مشہور ہیں کہ ان کے زخموں سے خون بند نہیں ہوتا اور قیامت کے روز بھی وہ
اسی حالت میں قبروں سے اٹھیں گے کہ ان کے زخموں سے خون رس رہا ہو گا۔ آپ ؒ
کی انگلی کے زخم سے مسلسل بہنے والا خون شہادت کی موت کی جانب اشارہ کررہا
تھا۔ شہید کبھی مرتے نہیں بلکہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔آپ ؒ کی علمیت ٗ دانش
اور ولایت کے تو سب ہی شاہد ہیں لیکن زخم سے بہنے والا خون آپ ؒ کی شہادت
کو ثابت کرتا ہے ۔
نماز عشا کے وقت اتنی بڑی تعداد میں لوگ جنازے میں شرکت کے لیے آئے کہ وسیع
وعریض مسجدکی تین منزلیں بھی ناکافی ہوگئیں اور لوگوں کی بڑی تعداد کو قرب
و جوار کی مسجدوں میں نماز کی ادائیگی کے لیے جانا پڑا۔ نماز عشا کے بعد
پیر کامل حضرت محمد عنایت احمد نقشبندی مجددی کا جسد اطہر مسجد طہ میں لایا
گیا تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ زیارت کے لیے آمڈ آئے ایک جانب عقیدت مندوں
اور مریدوں کا ہجوم بیکراں تو دوسری طرف گرمی بھی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔
پسینے میں نہائے ہوئے لوگ زار و قطار روتے ہوئے آپ ؒ کا آخری دیدار کے لیے
بے قابو ہورہے تھے ۔نماز جنازہ کاوقت دس بجے رات مقرر تھا لیکن رات کے
گیارہ بج چکے تھے ۔آپ ؒ کے نورانی جسم کو مسجد طہ سے جنازگاہ تک لے جانا
ناممکن دکھائی دے رہا تھا ۔نماز جنازہ کے لیے ایک وسیع پارک میں انتظام
کیاگیا تھا لیکن تیس چالیس ہزار سوگواران کی موجودگی میں وسیع و عریض پارک
بھی ناکافی دکھائی دیا۔ لوگ دور دور تک سڑکوں ٗ فٹ پاتھوں پر نماز جناز ہ
پڑھنے کے لیے صف آرا ء تھے ۔ نماز جنازہ " اشرف المدارس " اوکاڑہ سے بطور
خاص تشریف لانے والے مفتی محمد یاسین صاحب نے پڑھائی ۔ اس موقع پر ممتاز
عالم دین ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ ولی
کامل کی جسمانی موت کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب یتیم ہوگئے ہیں۔ رات
کا آخری پہر شروع ہو نے والا تھا اور ماہ رمضان بھی صرف ایک دن کے فاصلے پر
تھا کہ وقت کے قطب ٗ منبع رشد وہدایت ٗ خلیفہ مجاز حضرت کرماں والا شریف ٗ
پیرکامل حضرت محمد عنایت احمد ؒ نقشبندی مجددی دنیائے فانی کو خیر باد کہہ
کر ایک ایسے جہاں کی جانب گامزن ہوگئے جہاں پھر کبھی نہ تو موت آئے گی اور
نہ ہی دکھ اور پریشانیاں انہیں تکلیف پہنچائیں گی ۔ سچ تو یہ ہے اﷲ کے ولی
اور اﷲ کے نیک بندے کبھی نہیں مرتے، بلکہ ان کا فیض پہلے سے کئی گنا زیادہ
عام ہوجاتا ہے ان کی دعاؤں کا دائرہ کارپوری کائنات کو اپنے حصار میں لے
لیتا ہے جسمانی طور پر جدا ہونے کے باوجود اﷲ کے نیک بندے اپنے عقیدت مندوں
اور مریدوں کو حالت بیداری اور خواب میں رہنمائی فرماتے ہیں۔ بے شک اﷲ اپنے
نیک اور صالحین بندوں کی قبر وں کو جنت کاگہوارہ بنا دیتاہے جہاں عبادت
اوران کی خواہش کی ہر چیز وافر میسر ہوتی ہے ۔بقول شاعر
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
پیرکامل حضرت محمد عنایت احمد ؒ نقشبندی مجددی نہ صرف پائے کے عالم تھے
بلکہ میدان ولایت کے عظیم شاہکار تھے، تمام سلسلوں میں آپ ؒ کو بیعت کرنے
کی اجازت تھی اور آپ ؒ نے اپنی زندگی کے 73 سال اﷲ کے دین کی سربلندی ٗ
تبلیغ اور خلق خدا کو راہ راست پر لانے میں ہی صرف کردیئے ۔ آپ ؒ کا اٹھنا
بیٹھنا چلنا پھرنا شریعت محمدی کے عین مطابق تھا۔ بظاہر آپ ؒ ہم سے جسمانی
طور پر جدا ہوچکے ہیں لیکن رحلت کے تیسرے روز ہی خواب کی حالت میں ٗ میں نے
دیکھا کہ آپ ؒبہت بڑے اجتماع کی امامت فرما رہے ہیں۔ جبکہ میں آپ ؒ کے
بالکل پیچھے کھڑا ہوں۔آپ ؒ نے مجھے حکم دیا ۔ تکبیرپڑھو تاکہ نماز جمعہ ادا
کی جائے۔ میں نے تکبیر پڑھی تو آپ ؒ نے نماز جمعہ باجماعت ادا فرمائی ۔
ادائیگی نماز کے بعد آپ ؒ نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایاکہ ہر فرض نماز کے
بعد اپنے دیگر و ظا ئف کے ساتھ تین مرتبہ آیت کریمہ( لا الہ الا انت سبحانک
انی کنت من الظلمین) بھی پڑھ لیا کریں۔ میں نے پھر پوچھا حضرت صاحب کتنی
مرتبہ آپ ؒنے فرمایا تین مرتبہ ہی کافی ہے۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ یہ وہ
دعا ہے جس کے پڑھنے سے اﷲ کے پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلیوں کے
پیٹ ٗ سمندر کی گہرائی اور رات کے اندھیرے سے نجات ملی تھی اور اﷲ تعالی نے
آپ علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی تھی ( سبحان اﷲ )۔پیر و مرشد کی جانب
سے خواب کی حالت میں آیت کریمہ پڑھنے کی نصیحت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپ
ؒ جسمانی وصال کے باوجود ہم سے دور نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں کسی چیز کا ڈر
اور خوف ہے بلکہ وہ ہمیں مسلسل دیکھ رہے ہیں۔
2 اور 3 نومبر 2012ء کی درمیانی رات ایک بار پھر خواب میں پیرو مرشدؒ سے
ملاقات ہوئی آپ کسی بلند عمارت میں تشریف فرما تھے جبکہ آپ ؒ کے ارد گرد بے
شمار تشنگان روحانیت کا ہجوم تھا۔یہاں بھی مجھے آپ ؒ کے بالکل ساتھ بیٹھنے
کی سعادت حاصل ہوئی ۔ میں نے آپ ؒ سے مخاطب ہوکر پوچھا آپ ؒ تو دنیا سے
پردہ فرما چکے ہیں اور جسمانی وصال کے بعد جس جگہ آپ ؒ موجود ہیں اس مقام
کا دنیا سے کیا تقابل کیاجاسکتا ہے تو آپ ؒ نے فرمایا اﷲ تعالی نے یہاں
مجھے بہت اعلی مرتبہ عطا فرمایا ہے، رشد و ہدایت کا وہی سلسلہ جو میں دنیا
میں جاری رکھے ہوئے تھا ،حمد و ثنا اور درود پاک پڑھنے کا معمول مرنے کے
بعد بھی جاری و ساری ہے اور میں اپنی اس کیفیت پر بہت خوش ہوں۔ پھر آپ ؒ نے
فرمایا چلیں نماز پڑھتے ہیں۔ نیت سے پہلے جب میں نے اپنے ارد گرد دیکھا تو
دور دور تک لوگ ہمارے ساتھ نماز ادا کرنے کی حالت میں دکھائی دیئے
۔گویادنیا میں زندگی کے آخری سانس تک نمازکی امامت کروانے والے اور خلق خدا
کی رہبری کرنے والے پیر کامل حضرت محمد عنایت احمد ؒ نقشبندی مجددی کو اپنے
ہاں بھی بے پناہ اعزازات سے نواز رکھا ہے ۔
صوفی آختر حسین ہمارے دوستوں میں شامل ہیں اور سیفی مسلک کے پیروں کے مرید
ہیں۔ وہ اپنے سر پر بڑی سی دستار باندھتے ہیں۔ پنج وقتہ نمازوں کے علا وہ
وضائف کی ادائیگی میں کبھی تاخیر نہیں کرتے ۔ایک صبح نماز فجر کے بعد حسب
معمول جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ کے پیرو مرشد
پیرعنایت ؒ احمدمیرے خواب میں تشریف لائے تھے ، انہوں نے مجھے فرمایا کہ آپ
سبز لباس پہن کر میرے دربار شریف میں آئیں ۔ اب مجھے نہیں علم کہ اس خواب
کی حقیقت کیا ہے ، ویسے میں آپ کے پیرو مرشد کا ہمیشہ سے عقیدت مند ہوں
۔میں صوفی اختر صاحب کی بات سن کر خاموش ہوگیا ۔ ابھی اس بات کو چند دن ہی
گزرے ہونگے کہ میرے خواب میں پیرو مرشد حضرت محمد عنایت احمد ؒ تشریف لائے
اور ہر موضوع پر گفتگوہوتی رہی ، خواب کی حالت میں ہی مجھے صوفی اختر حسین
کی بات یاد آئی تو میں نے پیرو مرشد کے سامنے اس بات کا اظہار کردیا جو
صوفی اخترحسین نے مجھ سے کی تھی کہ خواب میں پیر محمد عنایت احمد ؒ نے مجھے
فرمایا ہے کہ سبز لباس پہن کر میرے دربار پر آئیں ۔ میری یہ بات سننے کے
بعد پیرومرشدؒ نے فرمایا صوفی اختر حسین بالکل ٹھیک کہتے ہیں ، میں نے
انہیں سبز لباس پہن کر اپنے دربار پر آنے کا کہا ہے ۔ پھر فرمایا صوفی
اخترحسین اور ان کے بھائی صوفی صفدر حسین دونوں ہے سیدھے راستے پر گامزن
ہیں اور اﷲ کے نیک بندے ہیں ۔اگلی صبح جب میں نیند سے بیدار ہوا تو میں نے
پیرو مرشدؒ کا پیغام صوفی اختر حسین صاحب کو پہنچا دیا ۔اس کے علاوہ بھی
کتنے ہی اور خوابوں میں آپ ؒ تشریف لا چکے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
وہ خواب ذہن سے محو ہو جاتے ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ
جسمانی وصال کے بعد بھی میرے پیرو مرشدمجھ سے دور نہیں ہوئے۔ ان سے خواب
میں اکثر ملاقاتیں ہوتی ہی رہتی ہیں ۔
.................
سچ تو یہ ہے کہ یہ دنیا صرف چند روزہ ہے‘ جس میں ہمارا قیام انتہائی
مختصرہے۔ حضرت نوح علیہ السلام سے ان کی روح قبض کرتے وقت حضرت جبرائیل ؑ
نے پوچھا کہ اے اﷲ کے نبی تم نے دنیا کو کیسا پایا۔ 9سو سال زندہ رہنے والے
نبی ؑ نے جواب دیا دنیا ایک مکان کی مانند ہے‘ جس کے دو دروازے ہیں‘ ایک
دروازے سے داخل ہوا اور دوسرے سے نگل گیا۔ یہی دنیا کی حقیقت ہے‘ لیکن اس
چند روزہ زندگی میں ہم جو کچھ کر جاتے ہیں مرنے کے بعد ہمیں اسی کا حساب
دینا ہے۔ اس لیے اگر ہم دنیا میں اپنے دین کے مطابق زندگی گزار لیں تو آخرت
بھی آسان ہو جائے گی‘ ورنہ بہت سی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اﷲ ایسے مشکل
حالات سے ہمیں محفوظ رکھے اور نبی کریم ﷺ کے صدقے ہمارے گناہوں سے چشم پوشی
کرتے ہوئے ہمیں بخش دے۔
پیرکامل حضرت محمد عنایت احمدؒ کے سجادہ نشین
صاحبزادہ محمد عمر ٗ جن کو پیر مرشدؒ نے اپنی زندگی میں ہی سجادہ نشین مقرر
فرمادیا تھا، آپؒ کے جسمانی وصال کے بعد شیخ الحدیث مفتی حافظ غلام یسین
طیبی نقشبندی ( خلیفہ مجاز حضرت کرماں والا شریف ) نے صاحبزادہ محمد عمر کی
دستار بندی کی ۔
****************
|