روزے ,تراویح باعث مغفرت اور قرآن شفاعت
(Babar Alyas , Chichawatni)
معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 889
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ ،
بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ ، قَالَ اللهُ تَعَالَى
فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ
أَجْلِي لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ : فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ ، وَفَرْحَةٌ
عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ
مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ ، وَإِذَا كَانَ يَوْمُ
صَوْمِ أَحَدِكُمْ ، فَلَا يَرْفُثْ يَوْمَئِذٍ ، وَلَا يَصْخَبْ ، فَإِنْ
سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ ، فَلْيَقُلْ : إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ"
(رواه البخارى ومسلم)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (روزہ کی فضیلت اور قدر و
قیمت بیان کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دن گنا
سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ (یعنی اس امت مرحومہ کے اعمال خیر کے
متعلق عام قانون الہی یہی ہے ک ایک نیکی کا اجر اگلی امتوں کے لحاظ سے کم
از کم دس گنا ضرور عطا ہو گا اور بعض اوقات عمل کرنے کے خاص حالات اور
اخلاص و خشیت وغیرہ کیفیات کی وجہ سے اس سے بھی بہت زیادہ عطا ہو گا، یہاں
تک کہ بعض مقبول بندوں کو ان کے اعمالِ حسنہ کا اجر سات سو گنا عطا فرمایا
جائے گا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس عام قانون رحمت کا ذکر
فرمایا) مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ اور
بالا تر ہے وہ بندہ کی طرف سے خاص میرے لیے ایک تحفہ ہے، اور میں ہی (جس
طرح چاہوں گا) اس کا اجر و ثواب دوں گا۔ میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی
خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے (پس میں خود ہی اپنی مرضی کے
مطابق اس کی اس قربانی اور نفس کشی کا صلہ دوں گا) روزہ دار کے لیے دو
مسرتیں ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک و مولیٰ کی بارگاہ میں
حضور ی اور شرف باریابی کے وقت اور قسم ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ
کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے (یعنی انسانوں کے لیے مشک کی خوشبو
جتنی اچھی اور جتنیپیاری ہے اللہ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو اس سے بھی
اچھی ہے) اور روزہ (دنیا میں شیطان و نفس کے حملوں سے بچاؤ کے لیے اور
آخرت میں آتش دوزخ سے حفاظت کے لیے ڈھال ہے۔ اور جب تم میں سے کسی کا
روزہ ہو تو چاہئے کہ وہ بے ہودہ اور فحش باتیں بکے اور شور و شغب نہ کرے،
اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ یا جھگڑا کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ
دار ہوں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حدیث کے اکثر وضاحت طلب اجزاء کی تشریح ترجمہ کے ضمن میں کر دی گئی ہے۔
آخر میں رسول اللہ ﷺ نے جو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ: " جب کسی کا روزہ ہو تو
وہ فحش اور گندی باتیں اور شور و شغب بالکل نہ کرے، اور اگر بالفرض کوئی
دوسرا اس سے الجھے اور گالیاں بکے جب بھی یہ کوئی سخت بات نہ کہے، بلکہ صرف
اتنا کہہ دے کہ: بھائی میرا روزہ ہے۔ اس آخری ہدایت میں اشارہ ہے کہ اس
حدیث میں روزہ کی جو خاص فضیلتیں اور برکتیں بیان کی گئی ہیں یہ انہی روزوں
کی فضیلتیں اور برکتیں بیان کی گئی ہیں یہ انہی روزوں کی ہیں جن میں شہوت
نفس اور کھانے پینے کے علاوہ گناہوں سے حتیٰ کہ بری اور نا پسند باتوں سے
بھی پرہیز کیا گیا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں (جو عنقریب درج ہو گی) فرمایا
گیا ہے ک جو شخص روزہ رکھے لیکن برے کاموں اور غلط باتوں سے پرہیز نہ کرے
تو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی اللہ کو کوئی احتیاج نہیں .
معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 892
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا
غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ، وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ
إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَنْ
قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا
تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ » (رواه البخارى ومسلم)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جو لوگ رمضان
کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھیں گے ان کے سب گزشتہ گناہ معاف کر دئیے
جائیں گے اور ایسے ہی جو لوگ ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں
نوافل (تراویح و تہجد) پڑھیں گے ان کے بھی سب پچھلے گناہ معاف کر دئیے
جائیں گے، اور اسی طرح جو لوگ شب قدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نوافل
پڑھیں گے ان کے بھی سارے پہلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ (صحیح بخاری و
صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں رمضان کے روزوں، اس کی راتوں کے نوافل اور خصوصیت سے شب قدر کے
نوافل کو پچھلے گناہوں کی مغفرت اور معافی کا یقینی وسیلہ بتایا گیا ہے
بشرطیکہ یہ روزے اور نوافل ایمان و احتساب کے ساتھ ہوں .... یہ ایمان و
احتساب خاص دینی اصطلاحیں ہیں، اور ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو نیک عمل
کیا جائے اس کی بنیاد اور اس کا محرک بس اللہ و رسول کو ماننا اور اس کے
وعدہ وعید پر یقین لانا اور ان کو بتائے ہوئے اجر و ثواب کی طمع اور امید
ہی ہو، کوئی دوسرا جذبہ اور مقصد اس کا محرک نہ ہو۔ اسی ایمان و احتساب سے
ہمارے اعمال کا تعلق اللہ تعالیٰ سے جڑتا ہے، بلکہ یہی ایمان و احتساب
ہمارے اعمال کے قلب و روح ہیں، اگر یہ نہ ہوں تو پھر ظاہر کے لحاظ سے بڑے
سے بڑے اعمال بھی بے جان اور کھوکھلے ہیں جو خدانخواستہ قیامت کے دن کھوٹے
سکے ثابت ہوں گے اور ایمان و احتساب کے ساتھ بندوں کا ایک عمل بھی اللہ کے
ہاں اتنا عزیز اور قیمتی ہے کہ اس کے صدقہ اور طفیل میں اس کے برسہا برس کے
گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایمان و احتساب کی یہ صفت اپنےفضل سے
نصیب فرمائے۔
معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 893
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ
لِلْعَبْدِ يَقُولُ الصِّيَامُ : أَيْ رَبِّ ، إِنِّي مَنَعْتُهُ
الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ ، وَيَقُولُ
الْقُرْآنُ : مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ
فَيُشَفَّعَانِ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روزہ اور
قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے (یعنی اس بندے کی جو دن میں روزے رکھے
گا اور رات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہوکر اس کا پاک کلام قران مجید پڑھے
گا یا سنے گا) روزہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے
پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج میری سفارش اس کے
حق میں قبول فرما (اور اس کے ساتھ مغفرت و رحمت کا معاملہ فرما) اور قرآن
کہے گا کہ میں نے اس کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا،
خداوندا! آج اس کی حق میں میری سفارش قبول فرما (اور اس کے ساتھ بخشش اور
عنایت کا معاملہ فرما) چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش اس بندہ کے حق
میں قبول فرمائی جائے گی (اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا
جائے گا) اور خاص مراحم خسروانہ سے اس کو نوازا جائے گا۔ (شعب الایمان
للبیہقی)
تشریح
کیسے خوش نصیب ہیں وہ بندے جن کے حق میں ان کے روزوں کی اور نوافل میں ان
کے پڑھے ہوئے یا سنے ہوئے قرآن پاک کی سفارش قبول ہو گی، یہ ان کے لیے
کیسی مسرت اور فرحت کا وقت ہو گا .... اللہ تعالیٰ اپنے اس سیاہ کار بندے
کو بھی محض اپنے کرم سے ان خوش بختوں کے ساتھ کر دے۔
|
|