انقلابِ جہان و عذابِ جہان اور اضطرابِ جہان
(Babar Alyas , Chichawatni)
#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالزُخرف ،
اٰیت 68 تا 80 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰعباد
لاخوف علیکم
الیوم ولاانتم تحزنون
68 الذین اٰمنوا باٰیٰتنا وکانوا
مسلمین 69 ادخلوا الجنة انتم وازوا
جکم تحبرون 70 یطاف علہھم بصحاف من
ذھب واکواب وفیھا ما تشتھیه الانفس وتلذالاعین
وانتم فیھا خٰلدون 71 وتلک الجنة التی اورثتموھا بما کنتم
تعملون 72 لکم فیھافاکھة کثیرة منھا تاکلون 73 ان المجرمین
فی عذابِ جھنم خٰلدون 74 لایفتر عنھم وھم فیه مبلسون 75 وما
ظلمنٰھم ولٰکن کانوا ھم الظٰلمین 76 ونادوا یٰمٰلک لیقض علینا ربک قال
انکم مٰکثون 77 لقد جئنٰکم بالحق ولٰکن اکثرھم للحق کٰرھون 78 ام ابرموا
امرا فانا مبرمون 79 ام یحسبون انالانسمع سرھم ونجوٰھم بلٰی ورسلنا لدیھم
مایکتبون 80
جب ہمارے جہان میں ہمارا وہ مجوزہ انقلاب آجاتا ہے جس کا ذکر گزرا ہے تو
جہان زیر و زبر ہو جاتا ہے اور اُس وقت اہلِ ستم کے ستاۓ اور سہمے ہوۓ
لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اَب تُمہارے لیۓ غم زدہ ہونے اور اُداس رہنے کا
کوئی موقع نہیں ہے اور جو لوگ اِس انقلاب سے پہلے ہی اللہ کی اٰیات و
ہدایات پر ایمان لا کر اپنا سرِ تسلیم خَم کرچکے ہوتے ہیں تو اُن سے بھی
کہا جاتا ہے کہ اَب تُم سب اپنی اپنی جماعتوں کے ساتھ خوشی خوشی اِن بہاروں
اور مرغزاروں میں داخل ہو جاؤ جو تُمہاری خُوۓ تسلیم و رضا کا ایک حسین
خُدائی بدلہ ہیں ، پھر جب وہ اُس حسیں باغ میں داخل ہو جاتے ہیں جس کے ساۓ
میں بیٹھے ہوۓ مہمانوں کو سنہری گلاسوں میں پانی اور سنہری پلیٹوں میں
کھانا دیا جاتا ہے تو اُن کو دیکھ کر اُن کی جلتی ہوئی آنکھیں ٹھنڈی اور
اُن کے اُجڑے ہوۓ دل و دماغ باغ باغ ہو جاتے ہیں یہاں تکہ کہ اُن کو یہ
خوشخبری دے دی جاتی ہے کہ اَب تُم نے بھی ہمیشہ اپنے خالق و مالک کے اسی
مہمان خانے میں رہنا ہے جس میں تُم سے پہلے یہ لوگ رہ رہے ہیں ، خُدا کے
اِس پُر بہار باغ میں اُس کے اِن مہمانوں کے لیۓ سایہ دار اَشجار و ذائقہ
دار اَثمار کی کبھی بھی کمی نہیں ہوتی لیکن اِس کے برعکس اِس انقلاب سے قبل
جن لوگوں نے جرائم کا ارتکاب کیا ہوتا ہے تو اُن کی دائمی جاۓ عذاب جہنم کی
ایک وادی ہوتی ہے اِس لیۓ اُن کو اُس انقلاب کے مقررہ انقلابی ضابطوں کے
مطابق جہنم کی اُس اذیت افروز وادی میں دھکیل دیا جاتا ہے اور اِس ساری
انتظامی اَتھل پَتھل کے دوران کسی فرد یا جماعت کے ساتھ ایک ذَرے برابر بھی
ظلم نہیں ہوتا سواۓ اُس ظلم کے کہ جو ظلم یہ لوگ خود ہی اپنے ساتھ کر کے
اپنے اِس اَنجام کو پُہنچ چکے ہوتے ہیں اور وہ اپنے اعمال بَد کے اِس
اَنجامِ بَد کو دیکھ بُھگت کر اپنے رَب سے کہتے ہیں کہ اذیت کی اِس دائمی
زندگی سے تو یہی بہتر ہے کہ اُن کو ایک ہی بار مار دیا جاۓ لیکن اُن کی اُس
آہ و فغاں کے جواب میں اُن کو کہا جاتا ہے کہ ہم نے تُم کو اِس وقت کی اِس
اذیت سے بچانے اور ڈرانے کے لیۓ تُمہارے پاس اپنے وہ پیغام رساں بھیجے تھے
جن کی تُم نے وہاں کوئی بات نہیں سُنی تھی اِس لیۓ اَب تُمہاری بھی یہاں
کوئی بات نہیں سُنی جاۓ گی کیونکہ ہمارا قانون یہ ہے کہ جو انسان ہم سے
سرکشی کا عزم کر لیتا ہے تو ہم بھی اُس کی سزا کا عزم کر لیتے ہیں ، اگر
انسان نے یہ فرض کیا ہوا ہے تو غلط فرض کیا ہوا ہے کہ ہم اُس کی چُھپی
سازشوں کو نہیں دیکھتے یا اُس کی خفیہ سرگوشیوں کو نہیں سُنتے ہیں ، حقیقت
یہ ہے کہ ہم انسان کے ہر ایک عمل کو دیکھتے رہتے ہیں ، انسان کے ہر ایک قول
کو سُنتے رہتے ہیں اور انسان کے ہر ایک قول و عمل کو لکھتے بھی رہتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سابقہ اور موجُودہ اٰیات میں جنت کی کیفیت و جہنم کی اذیت کا ، اہلِ جنت کی
خوشی کا اور اہلِ جہنم کی خشیت کا جو مُشترکہ مضمون آیا ہے اُس مُشترکہ
مضمون میں اللہ تعالٰی نے اپنے علم و خبر کی اِس عظیم کتاب میں انسان کو یہ
بتایا ہے کہ انسان کے اِس جہان میں آنے والی چھوٹی چھوٹی قیامت خیز
تبدیلیوں سے اور آنے والے وقت میں اِس جہان پر آنے والی اُس بڑی اور اُس
عبرت انگیز قیامت کی تبدیلی سے انسانی زندگی میں جو مُثبت و مَنفی تبدیلیاں
آتی ہیں اُن آنے والی مُثبت تبدیلیوں سے انسان کس طرح فائدہ اُٹھا سکتا ہے
اور اُن آنے والی مَنفی تبدیلیوں سے انسان کس طرح جان بچا سکتا ہے اِس لیۓ
پہلی اٰیات کے پہلے سلسلہِ کلام مُنتہاۓ کلام یہ تھا کہ جہان پر جب قیامت
کی وہ بڑی تبدیلی آۓ گی تو مَنفی اعمال کے عامل لوگ جو اِس جہان میں ایک
دُوسرے کے جانی دوست رہے ہوں گے اُس جہان میں جاتے ہی وہ ایک دُوسرے جانی
دشمن بن جائیں گے لیکن مُثبت اعمال کے عامل لوگ اُس بڑی تبدیلی کے دوران
ظاہر ہونے والی اُس بڑی سزا سے مُکمل طور پر مُستثنٰی ہوں گے جو بڑی سزا
مَنفی اعمال کے عامل لوگوں کے حصے میں آۓ گی اِس لیۓ موجُودہ اٰیات کے
مُبتداۓ کلام میں مُثبت اعمال کے اُن عامل لوگوں سے کہا گیا ہے کہ آج کے
اِس عظیم انقلاب کا یہ موقع تُمہارے لیۓ غم زدہ ہونے اور اُداس رہنے کا
موقع نہیں ہے بلکہ آج کے اِس عظیم انقلاب کا موقع تُمہارے لیۓ غمِ جان و
جہان کے جہنم سے آزاد ہونے کا موقع ہے اِس لیۓ تُم اِس اس خُدائی خوشی سے
راضی و خوش ہو جاؤ ، قُرآنِ کریم کے 66 مقامات پر بیان کی گئی جنت کی اِن
راحتوں اور 77 مقامات پر بیان کی گئی جہنم کی جراحتوں کا یہ مضمون اِس
حقیقت کی نشان دہی کرتا ہے کہ انسان کا ہر مُثبت و مَنفی عمل ہمیشہ ہی ایک
مُثبت و مَنفی صلے کا حامل ہوتا ہے لہٰذا جہان میں جہاں جہاں پر جو مُثبت
انقلاب آتا ہے وہ انسان کے اپنے ہی کسی مُثبت عمل کا ایک رَدِ عمل ہوتا ہے
اور جہان میں جہاں جہاں پر جو مَنفی انقلاب آتا ہے وہ بھی انسان کے اپنے ہی
کسی مَنفی عمل کا ایک مَنفی رَدِ عمل ہوتا ہے اور اِس جہان پر قیامت کا جو
بڑا انقلاب آۓ گا وہ بھی انسان کے اپنے ہی مُثبت و مَنفی عمل کا ایک رَدِ
عمل ہوگا جس کے مطابق مُثبت اعمال کے حامل لوگ وہ ٹھکانا پائیں گے جس کا
علامتی نام جنت ہے اور مَنفی اعمال کے حامل لوگ اُس ٹھکانے میں داخل کیۓ
جائیں گے جس کا علامتی نام جہنم ہے ، اٰیاتِ بالا میں اُس انقلاب کے مُثبت
و مَنفی نتائج کے اعتبار سے جن دو انسانی طبقوں کا ذکر کیا گیا ہے اُن میں
پہلا طبقہ ظالم اہلِ زمین کا ستایا اور سہما ہوا وہ طبقہ ہو گا جس کو اُس
روز کہا جاۓ گا کہ تُمہاری پریشانی کا دور ختم ہو چکا ہے کیوں کہ تُم جزاۓ
عمل اور سزاۓ عمل کے اُس زمانے میں داخل ہو چکے ہو جس زمانے میں تُمہارے
عملِ خیر کے بدلے میں تُمہارے لیۓ راحت ہی راحت اور خوشی ہی خوشی ہے اِس
لیۓ تُم ہمارے قانونِ انصاف کے مطابق آج خوشی خوشی اپنی راحت و خوشی کے اُن
پُر بہار باغوں میں داخل ہو جاؤ جن کے اَشجار تُمہاری خواہش کے مطابق سایہ
دار اور جن کے اَثمار تُمہاری خوشی کے مطابق ذائقے دار ہیں اور اِسی باغ و
بہار میں تُم نے ہمیشہ رہنا ہے اور دُوسرا انسانی طبقہ اہلِ ظلم و جبر کا
وہ طبقہ ہوگا جو اپنی پہلی عملی دُنیا میں جرائم کا ارتکاب کرتا رہا ہو گا
اِس لیۓ اُس ظالم طبقے سے کہا جاۓ گا کہ تُم ہمارے قانونِ انصاف کے مطابق
جہنم کی اِس وادی میں داخل ہو جاؤ جس میں تُمہارے لیۓ اذیت ہی اذیت ہے اور
تُم نے ہمیشہ اِسی اذیت میں رہنا ہے اور جب یہ مُجرم لوگ فریاد و فغاں کریں
گے تو اِن کو یاد دلایا جاۓ گا کہ ہم نے اِس دن کے اِس عذاب سے ڈرانے کے
لیۓ تُمہارے پاس اپنے بہت سے نبی اور اپنے بہت سے رسُول بہیجے تھے لیکن تُم
نے اُن کی کبھی کوئی بات بھی نہیں سنی تھی اِس لیۓ آج تُمہاری بھی کوئی بات
نہیں سنی جاۓ گی ، اِس مضمون کا ماحصل یہ ہے کہ انسانی جہان میں جو کُچھ ہو
رہا ہے وہ انسان کے اپنے ہی عمل کا ایک رَدِ عمل ہے اور اِس جہان میں آئندہ
جو کُچھ ہو گا وہ بھی انسان کے اپنے ہی مُثبت و مَنفی عمل کا ایک رَدِ عمل
ہو گا جس سے اللہ تعالٰی کی رحمت یا اُس کے غضب کا کوئی تعلق نہیں ہو گا
اِس لیۓ انسان اپنے اِن مَنفی اعمال کے اِن مَنفی نتائج کو اپنے دعاؤں اور
التجاؤں سے نہیں ٹال سکتا بلکہ موت سے پہلے پہلے اپنے کسی مُثبت عمل سے ہی
ٹال سکتا ہے کیونکہ موت کے بعد انسان کے عمل کا دروازہ بند کردیا جاتا ہے
اور اِس کے جزاۓ عمل و سزاۓ عمل کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے !!
|
|