|
|
پوری دنیا میں اس وقت جدید ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کی
مدد سے تعمیراتی کامیابیوں میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور دنیا بھر میں
قائم فلک بوس عمارتوں نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ آسمان سے
باتیں کرتی بلند و بالا عمارتیں دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔
ہم آپ کو بتائیں گے کہ 1901 سے 2022 تک دنیا بھر میں کون کون سی فلک بوس
عمارتیں وجود میں آئیں اور ان کی اونچائی کتنی ہے۔ |
|
1۔ فلاڈیلفیا سٹی ہال |
پنسلوانیا میں 1901میں وجود میں آنیوالے فلاڈیلفیا سٹی
ہال کوا سکاٹش نژاد ماہر تعمیرات جان میک آرتھر جونیئر اور تھامس اسٹک
والٹر نے سیکنڈ ایمپائر اسٹائل میں ڈیزائن کیا ۔167میٹر اونچی اس شاندار
عمارت کی تعمیر کا آغاز1871 کو ہوا اور 1901 کو تعمیرات مکمل ہوئیں۔ اس
وقت اس کی تعمیرات پر آنے والی لاگت 24 ملین ڈالر کے قریب تھی۔ |
|
|
2۔ سنگر بلڈنگ |
امریکا کے شہر نیو یارک میں 1902 کو قائم ہونیوالی 170
میٹر اونچی سنگر بلڈنگ جسے سنگر ٹاور بھی کہا جاتا ہے، نیویارک شہر کے مین
ہٹن میں ایک دفتری عمارت اور قدیم فلک بوس عمارت تھی۔ سنگر کمپنی کے لیڈر
فریڈرک گلبرٹ بورن نے اس عمارت کا کام شروع کیا، جسے آرکیٹیکٹ ارنسٹ فلیگ
نے 1897 سے 1908 تک متعدد مراحل میں ڈیزائن کیا۔ عمارت کے فن تعمیر میں
بیوکس آرٹس اور فرانسیسی سیکنڈ ایمپائر اسٹائل کے عناصر شامل تھے۔ |
|
|
3۔ میٹ لائف ٹاور |
میٹ لائف ٹاور بھی امریکا کے شہر نیویارک میں 1908میں
قائم ہونے والا ایک شاہکار تھا۔190 میٹر اونچی یہ عمارت نیو یارک شہر کے
میڈیسن اسکوائر پارک کے قریب واقع ہے۔ |
|
|
4۔ وول ورتھ
بلڈنگ |
تعمیراتی مہارت کی نئی مثالیں قائم کرنے والی
یہ عمارت بھی نیویارک کے قلب میں قائم ہوئی۔241 میٹر اونچی یہ عمارت 1910
کو وجود میں آئی۔ |
|
|
5۔ بینک آف
مین ہٹن ٹرسٹ بلڈنگ |
40 وال اسٹریٹ، جسے ٹرمپ بلڈنگ کے نام سے بھی
جانا جاتا ہے، نیویارک شہر میں مین ہٹن کے فنانشل ڈسٹرکٹ میں ناساؤ اور
ولیم کی سڑکوں کے درمیان وال اسٹریٹ پر 927 فٹ یا 283 میٹر اونچی فلک بوس
عمارت تھی جو 1930 میں تعمیر ہوئی۔ |
|
|
6۔ کرسلر بلڈنگ |
1930میں ہی نیویارک میں بننے والی 319 میٹر اونچی کرسلر بلڈنگ فن تعمیر کا
ایک نیا شاہکار بن کر سامنے آئی، یہ عمارت نیو یارک سٹی کے مشرق میں مڈ
ٹاؤن مین ہٹن میں 42 ویں اسٹریٹ اور لیکسنگٹن ایونیو کے چوراہے پر واقع ہے۔ |
|
|
7۔ ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ |
1931 کو دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی یہ 102 منزلہ 443 میٹر طویل ایمپائر
اسٹیٹ بلڈنگ نیویارک میں بنی جس کا نام ایمپائر اسٹیٹ سے لیا گیا۔ |
|
|
8۔ ورلڈ ٹریڈ |
امریکا کے شہر نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے تو سبھی واقف ہیں، فن تعمیر
کا یہ 527 میٹر طویل شاندار نمونہ 4 اپریل 1971 کو وجود میں آیا اور 2001
میں 11 ستمبر کے دہشت گرد حملوں کے دوران تباہ ہو گیا تھا۔ |
|
|
9۔ سیئرز ٹاور یا ولس ٹاور |
1973 کو اپنی شاندار تعمیرات سے دنیا کو حیران کرنیوالا شکاگو کا ولس ٹاور
یا سئیرز ٹاور 108 منزلوں پر محیط ہے جس کی اونچائی 442 میٹر ہے، عمارت کے
مالکان مرکزی چھت کو 109 اور پینٹ ہاؤس کی چھت کو 110 ویں منزل شمار کرتے
ہیں۔ |
|
|
10۔ پیٹرو ناس ٹاورز |
ملائشیا کے دارلحکومت کوالالمپور میں واقع پیٹرو ناس ٹاورز جسے پیٹروناس
ٹوئن ٹاورز اور کے ایل سی سی ٹوئن ٹاورز کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 88
منزلہ، 452 میٹر اونچی فلک بوس عمارت ہے جس کودنیا کی سب سے اونچی جڑواں
فلک بوس عمارت سمجھا جاتا ہے۔ |
|
|
۔ تائی پے101 |
2004 میں وجود میں آنے والی 508 میٹر اونچی تائی پے101 کو 2009 تک دنیا کی
سب سے بڑی عمارت کا اعزاز حاصل رہا۔ تائیوان کی یہ عمارت تائپے ورلڈ فنانشل
سینٹر کے نام سے بھی مشہور تھی۔ |
|
|
12۔ برج خلیفہ |
2010 کو دنیا کے نقشے پر سب سے طویل عمارت کا اعزاز حاصل کرنے والا دبئی کا
828 میٹر اونچا برج خلیفہ 163 منزلوں پر محیط ہے۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کی لاگت سے
بننے والی اس عظیم الشان عمارت کا کام 2004 میں شروع ہوا اور 5 سال کی محنت
کے بعد 2009 میں مکمل ہوا۔ اس شاندار عمارت کو 2010 میں کھول دیا گیا تھا۔ |
|
|
13۔ جدہ ٹاور |
جدہ ٹاور جو پہلے کنگڈم ٹاور کے نام سے جانا جاتا تھا، ایک فلک بوس عمارت
تعمیراتی منصوبہ ہے جو اس وقت تعطل کا شکار ہے۔ سعودی عرب کے شمال میں واقع،
یہ انسانی تاریخ کی پہلی 1 کلومیٹر (3281 فٹ) یا 1008 میٹر اونچی عمارت جدہ
اکنامک سٹی کے نام سے مشہور ہے جسے تعمیر و ترقی اور سیاحوں کی توجہ کا
مرکز قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس عظیم الشان عمارت کو بھی امریکی ماہر تعمیرات
ایڈرین اسمتھ نے ڈیزائن کیا ہے جس نے برج خلیفہ کو ڈیزائن کیا تھا۔ اس
منصوبے کے خالق سعودی عرب کے شہزادہ الولید بن طلال ہیں، جو ابن سعود کے
پوتے ہیں۔ |
|
|
14۔ دبئی کریک ٹاور |
دبئی نے 2022 میں 1345 میٹر اونچے دبئی کریک ٹاور کی تعمیر مکمل کرنے کا
منصوبہ بنایا تھا تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے یہ منصوبہ بھی تاحال تعطل کا
شکار ہے۔ اس ٹاور کی ابتدائی لاگت 3 اعشاریہ67 بلین درہم ہے تاہم کورونا کے
بعد تعمیراتی کام کے آغاز پر لاگت میں بھاری بھرکم اضافے کا خدشہ ہے۔ |
|