سلیکٹیڈ فارغ، امپورٹڈاِن
(Dr Rais Samdani, Karachi)
سلیکٹیڈ فارغ، امپورٹڈاِن ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی آخر کار سلیکٹڈ عمران خان کی حکومت فارغ کردی گئی۔ تحریک عدم اعتمام کامیاب ہونے کے نتیجے میں عمران خان گھرچلے گئے۔ قومی اسمبلی نے میاں شہباز شریف کو نیا وزیر اعظم منتخب کر لیا۔ اسمبلی کے 174اراکین نے شہباز شریف کا انتخاب کیا۔ یہ تمام اراکین سابقہ متحدہ اپوزیشن کے تھے۔ تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا۔ عمران خان کو کس مشکل اور گھیرا تنگ کر کے ایوان سے باہر کیا گیا اس کی تفصیل کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔لیٹر گیٹ اسکینڈل جسے عمران خان کے مخالفین خود ساختہ، خود سے تحریر کردہ کہہ رہے تھے اس کی تصدیق ایسے ادارے نے کردی ہے کہ اب اس بات میں ابہام نہیں رہا کہ لیٹر ایک سچ حقیقت ہے۔ یہ کھیل پاکستان ہی میں نہیں کھیلاگیا اس سے قبل کئی ممالک میں رجیم چینج ہوچکی ہیں۔پاکستان میں نئے وزیر اعظم نے حلف اٹھالیاہے۔ نئی کابینہ کی تشکیل تاحال نہیں ہوسکی، وہ بھی جلد ہوجائے گی۔اپوزیشن اتحاد میں گیارہ سیاسی جماعتیں تو پہلے ہی تھیں اب ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) اور دیگر جماعتوں، آزاد نمائندوں، تحریک انصاف کے لوٹے،ایک عجیب قسم کی کھچڑی نہیں بلکہ حلیم بن چکا ہے جس میں تیرہ چودھا حصہ دار ہیں۔ کابینہ کے انتخاب میں دیر تو لگنی ہی ہے۔ ہر جماعت کی خواہش اعلیٰ سے اعلیٰ وزارت، صدارت، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، گورنر کی کرسی حاصل کی جائے۔ بعض نے کھل کر اظہار کردیا جب کہ بعض یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں وزارتیں نہیں چاہیں، وہ تو پاکستان کو مستحکم کرنے آئے ہیں۔ گورنر مستعفی ہوچکے، اسپیکر بھی فارغ ہوئے ان کی جگہ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف بلامقابلہ اسپیکر بھی منتخب ہوچکے۔ دیکھتے ہیں کہ کابینہ کی تشکیل کیسے ہوتی ہے۔ ہلکی پھلکی آوازیں آنا شروع ہوچکی ہیں کہ ہمیں فلاں فلاں وزارت، صدر کا عہدہ، اسپیکر شپ، کراچی، حیدرآباد کے میئر کی خواہش رکھنے والے بھی موجود ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اتحاد کی سب سے بڑی جماعت ہے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام(ف) بڑی جماعتیں ہیں۔ اس اتحاد میں ایسی جماعتیں بھی ہیں جن کے پاس ایک بھی قومی یا صوبائی اسمبلی کی سیٹ نہیں تھی لیکن وہ بھی سینہ ٹھوک کر کہیں گے کہ ہم نے کی ہے عمران خان کو فارغ کرنے کی جدوجہد، ہم سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ عہدوں کا حق دار نہیں۔ جیسے جمعیت علمائے پاکستان (شاہ احمد نورانی گروپ) جسے شاہ احمد نورانی کی موجودگی میں کراچی، حیدر آباد سے کافی سیٹیں ملا کرتی تھیں، اب اس جماعت کی سربراہی نورانی مرحوم کے صاحبزادے کے پاس ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بننے والے نوستاروں کے اتحاد میں علامہ شاہ احمد نورانی کی کیاشان تھی۔ ان کے انتقال کے بعد یہ پارٹی ٹانگا پورٹی ہوکر رہ گئی ہے۔ عمران خان نے ہوا کا رخ محسوس کر لیا تھا۔ جمعہ 8اپریل کو قوم سے اپنے آخری خطاب میں اتوار 10اپریل کو عوام سے ملک گیر احتجاج کی اپیل کی۔عمران خان نے وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے کے بعد جارہانہ سیاست کا آغاز کر دیاہے۔ کپتان کی پہلی آواز پر پاکستان کے تمام ہی بڑے شہروں میں کپتان کے مداحوں کا ٹھاٹے مارتا سمندر جس نے کپتان کے مخالفین کو بھی اعتراف کرنا پڑگیا کہ واقعی لوگ بڑی تعداد میں نکلے ہیں۔ اس مظاہرے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ عمران خان بنی گالہ سے باہر نہیں نکلا، یعنی اپنے لیڈر کے بغیر عوام نے کپتان کو فارغ کیے جانے کے خلاف اپنی آواز دنیا کے سامنے رکھ دی۔ یقینا نئی حکومتی مشینری جسے ابھی دو دن بھی نہیں ہوئے تھے کپتان کے چاہنے والوں کا جوش اور جذبہ، اپنے لیڈر سے محبت دیکھ کر ہاتھوں کے طوطے اڑگئے ہوں گے۔ دوسری جانب اس جم غفیر نے خود عمران خان کو ایک نئی سمت کے تعین کی راہ ہموار کی۔اس نے محسوس کر لیا کہ اب اسے اپنے تمام تر قومی اسمبلی کے اراکین کے ساتھ اسمبلی کی رکنیت سے استعفے دے دینا چاہیے اور عوام کے پاس، اپنے چاہنے والوں کے پاس چلے جانا چاہیے۔اب کپتان نے نئی حکومت کو ”امپورٹڈ حکومت“ کا لقب دے دیا۔ کہتے ہیں کہ دنیا مکافاتِ عمل ہے، جیسا کروگے ویسا بھروگے۔ اپوزیشن نے پورے ساڑے تین سال عمران خان کو’سلیکٹڈ‘ کہہ کا پکارا۔ اب عمران خان نے امپورٹڈ حکومت کہا۔ اس کی وجہ امریکہ بہادر ہے جس کی تفصیل اب عام ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف کے لوگ شہباز شریف کو امپورٹڈ وزیر اعظم اور حکومت کو ’امپورٹڈ حکومت‘ کہہ رہے ہیں اور اب یہ اسی طرح کہتے رہیں گے جیسے عمران خان کو سلیکٹڈ کہا جاتا رہا عمران خان نے فوری انتخابات کا مطالبہ کیا اور مسلسل بڑے شہروں میں جلسے کرنے کا اعلان بھی کردیا۔ اس سلسلے کا پہلاجلسہ پشاور میں ہوا جسے ایک کامیاب اور عوام کی بھر پور نمائندگی کا عملی اظہارکہا جاسکتا ہے۔دوسرا جلسہ اور مظاہرہ کراچی میں 16اپریل کو رکھا گیا ہے۔ کراچی میں کپتان کا شو کیسا ہو گا، وہ وقت ہی بتائے گا۔یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ ایم کیو ایم نے عمران خان کے اتحادی ہوتے ہوئے متحدہ اپوزیشن میں شمولیت اختیار کی۔ متحدہ کی اپوزیشن میں شمولیت نے ہی در حقیقت اپوزیشن کو عددی برتری سے ہم کنار کیا۔ کراچی پہلے ہی تحریک انصاف کو 16قومی اسمبلی کی سیٹیں دے چکا ہے۔ متحدہ کے اس عمل کو کراچی کے باسیوں نے اچھا نہیں سمجھا۔ پھر متحدہ کے کئی گروپ موجود ہیں۔ اس لیے امید یہی کی جاری ہے کہ کپتان کراچی میں بڑا اجتماع کرنے میں کامیاب ہوگا۔ تحریک انصاف نے اپنے احتجاج کے سلسلے کو جاری رکھنے کی نوید بھی سنائی ہے۔ کراچی کے بعد کپتان لاہور کے مینار پاکستان میں اپنے پنجاب کے مداحوں کو جمع کرے گا۔ اس کے بعد بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ دوسری جانب قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر نے تحریک انصاف کے کوئی 123 نمائندوں کے استعفے منظور کر لیے۔ کابینہ کی تشکیل کے لیے دن رات مشورے جاری ہیں۔ یقینا اس کی تفصیل جلد سامنے آجائے گی۔ شہباز شریف انتظامی امور کی انجام دیہی میں طویل تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کی بہتر کارکردگی کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امپورٹڈ حکومت کپتان کا پریشر کتنے عرصہ برداشت کرتی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ تین سے چار ماہ میں انتخابات ہوسکتے ہیں بعض کا خیال ہے کہ شہباز شریف اور ان کے اتحادی اس حکومت کو کسی نہ کسی طرح 2023 ء تک گھسیٹ کر لے جائیں گے پھر انتخابات کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔ کپتان نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز بڑی جارہانہ انداز میں شروع کردیا ہے۔ دوسری جانب شہباز شریف اپنی حکومت کو تشکیل دینے میں سخت پریشانی کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ 13جماعتوں کے نمائندوں اور عمران خان کے باغی لوٹوں کو کس طرح اپنے ساتھ رکھیں، کس کس کو سرکاری منصب سے نوازیں۔ کس کس کو خوش کریں کس کس کو ناراض۔ بھان متی کا کنبہ تشکیل پاچکا ہے۔ اس کا شیرازہ کب اور کیسے بکھرتا ہے یہ وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتا رہے گا۔ عمران خان کے اتحادی حکومت سے کتنے خوش رہے سب جانتے ہیں، وزارتیں اور اعلیٰ منصب کے باوجود کشتی کو ڈوبتے دیکھا تو پتلی گلی سے نکل لیے۔ پاکستان میں سیاست اسی عمل کا نام ہے۔ (15اپریل 2022ء) |