شاید اسے بھی نکال دیا گیا تھا اور دکھ کی بات یہ تھی کہ
أینی طور پر نکالا گیا اور دن کی روشنی کے بجاے نصف شب کے اندھیرے میں
نکالا گیا
اپنوں کی بے وفای تھی یا دشمن کی لب کشای تھی ۔
وفاداروں نے وفاداری کی یا غداروں نے غداری کی جو کچھ بھی ہوا قاعدے اور
قانون کے داٸرے میں ہوا۔
یہ بیان میرے کانوں نے سنا اور سنا سنایا نہیں بلکہ أنکھوں پڑھا بیان جو یو
ٹیوب پر دیہان دے کر سنا کہ ڈاکو کو پرایم منسٹر بنا دیا گیا ۔ سنی کو ان
سنی نا کرتے غصہ میں نکل پڑا اور جلسے میں چلا گیا۔
مجھے اس بات پر اتنا غصہ نہیں تھا کہ ڈاکو کو وزیر اعظم بنا دیا کیونکہ یہ
تو عام سی بات ہے ۔ اصل غصہ جب ایا جب یہ خبریں چلنا شروع ہویں کہ دنیا بھر
سے دوست ممالک اور دشمن ممالک سےمبارک باد وصول ہونے لگیں
۔
پھر یہ سمجھ نہیں ای کہ اس کو محب وطن قوت کی جانب سےسلامیاں دی جا رہی ہیں
۔ ڈاکو کی زیر صدارت اجلاس ہو رہے ہیں کہ قیمتوں کو کیسے کم کیا جاے ۔لوگوں
کی تنخواہ کیسے بڑھای جاے ۔ عالمی تعلقات کیسے ٹھیک کیے جایں ۔ ہونا تو یہ
چاہیے تھا کہ منصوبہ بندی کی جاتی کہ کہاں کہاں کتنے ڈاکے ڈالنے ہیں ۔
خیر جیسے أج تک بہت سی چیزوں کی سمجھ نہیں ای یہ بھی سمجھ نہیں انا ہے۔
اگر کچھ سمجھ ایا تو یہ کہ کوٸ نا کوٸ سازش یا بیرونی مداخلت ضرور ہے جو
کسی نا کسی دن سامنے ضرور اے گی۔
رات دن گردش میں ہیں سات أسمان
ہو رہے گا کچھ نا کچھ گھبرایں کیوں
گھبرانا نہیں ہے
|