وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دنیا کو علم ہونا چاہئے
کہ اسلام امن پسند مذہب ہے، اس کا دہشت گردی اور انتہا ء پسندی سے کوئی
تعلق نہیں۔ انتہاء پسند سوچ کسی کی بھی ہو سکتی ہے مگر اسے اسلام سے کیوں
جوڑا جاتا ہے۔ مسلم ممالک کسی بلاک یا جنگ کا حصہ بننے کی بجائے اپنا الگ
بلاک بنائیں اگر متفقہ مؤقف اختیار نہ کیا گیا تو کوئی ہمیں نہیں پوچھے
گا،مقام افسوس ہے کہ بطور مسلم امہ ہم اختلافات کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ
ہماری آواز سنی نہیں جاتی۔کشمیر و فلسطین کے مسائل کے حل میں ہم اپنا کوئی
اثر ڈالنے میں ناکام رہے ہیں۔فلسطینیوں اور کشمیریوں کا تشخص اور جغرافیائی
ہیئت تبدیل کی جا رہی ہے مگر اس پر کوئی بات نہیں ہو رہی ،دن دیہاڑے ہونے
والی زیادتیوں کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا۔کشمیریوں سے
بنیادی حقوق چھین لئے گئے ان کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ ہوا لیکن مسلم دنیا
خاموش رہی۔ اسلام آباد میں گزشتہ دنوں ہونے والے 48ویں او آئی سی وزراء
خارجہ کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے تقسیم ہونے
کے باعث ہی کشمیریوں اور فلسطینیوں کو حق خودارادیت نہیں مل سکا۔مسلم دنیا
کے ایک بلاک کی حیثیت سے ہم دیکھیں گے کہ ہم یوکرائن اور روس تنازعہ کیسے
ختم کرا سکتے ہیں تاہم ہمیں تنازعات کا نہیں امن کا حصہ دار بننا ہے۔دریں
اثناؤفاقی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے
اسلاموفوبیا کے خلاف قرارداد کے لئے اہم کردار ادا کیاہے ۔اقوام متحدہ نے
ہماری آواز پر 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے متعلق عالمی دن قرار دیا ہے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے حوالے سے بھارتی اقدامات اور فلسطین سے
متعلق اسرائیلی پالیسی پر سخت تشویش ہے جو نہتے عوام کی نسل کشی پر مبنی
ہے۔ انہوں نے یمن کے مسئلہ کا پرامن اور پائیدار حل نکالنے پر زور دیتے
ہوئے حوثی باغیوں کے سعودی شہری آبادی پر حملے کی مذمت کی۔اس موقع پر چینی
وزیر خارجہ وانگ ژی نے او آئی سی وزراء خارجہ کے اجلاس میں بطور مہمان
خصوصی شرکت کی اور کہا کہ چین مسلم دنیا کے ساتھ شراکت داری کے لئے تیار
ہے۔ انہوں نے بھی دہشت گردی کو کسی ایک فرقے کے ساتھ جوڑنے کی مخالفت اور
کشمیر پر او آئی سی کے مؤقف کی حمایت کی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ
طاغوتی طاقتوں نے دہشت گردی کا ناطہ دین اسلام سے جوڑنے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی لیکن اس کے باوجود افغانستان کی تبدیل شدہ صورتحال کے تناظر میں
پاکستان علاقائی امن و استحکام کے لئے مؤثرکردار ادا کرتے ہوئے اسلاموفوبیا
کے خلاف اقوام عالم میں بھرپور آواز اٹھا رہا ہے۔سامراج کی طرف سے دنیا بھر
میں ہونے والی انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا ملبہ اسلام اور پاکستان پر
ڈال دیاجاتا ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ امریکہ نے نائن الیون کے بعد نام
نہاد دہشت گردی کیخلاف جنگ کی آڑ میں نیٹو افواج کے ذریعے افغانستان پر
چڑھائی کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ سے تعبیر کیاتھا۔ او آئی
سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کا انعقاد کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں کیونکہ
اس سے خطے اور عالمی برادری میں پاکستان کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے۔وزیر
اعظم پاکستان عمران خان نے اسلاموفوبیا کے حوالے سے مغربی یورپی ممالک کو
جس جرات مندی کے ساتھ چیلنج کرتے ہوئے دنیا کی سلامتی کو لاحق خطرات سے
آگاہ کیاہے اسے مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ عالمی قیادتوں نے بھی سراہا ہے
۔58مسلم ممالک اقوام متحدہ میں او آئی سی کے پلیٹ فارم سے امریکہ ،اسرائیل
اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھ سکتے ہیں لیکن اس کے
لئے یکجہتی کا مظاہرہ ناگزیر ہے۔اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا احیاء آج وقت کی
اشد ضرورت ہے اگر اسلامی ممالک کی اس تنظیم کو مزید فعال کر کے اسے مسلم
دنیا کے ایک بلاک کے قالب میں ڈھال دیا جائے تو ہم اپنے وسائل اور افرادی
قوت کے بل بوتے پر دنیا کی ناقابلِ تسخیر قوت بن سکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے جس
طرح مسلم ممالک کو قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہواہے اگر اس کو عوام کی
ترقی و خوشحالی کے لئے بروئے کار لایا جائے تو وقت دور نہیں کہ مغرب اور
یورپ بھی ہمارا دستِ نگر ہو جائے۔
افغانستان میں غیر مستحکم حالات کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوئے ان پر قابو
پانے کے لئے مسلم ممالک کے نمائندوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا اور بین
الاقوامی برادری میں شامل دیگر ممالک کو اپنے تحفظات و خیالات سے آگاہ کرنا
بہت ضروری ہے اس سلسلے میں کسی مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل اس وقت تک ممکن
نہیں ہوسکتی جب تک تمام یا اکثر ممالک کے نمائندگان اس حوالے سے تبادلہ
خیالات کر کے کوئی مشترکہ مؤقف تشکیل نہیں دیتے۔ افغانستان کے حالات اور ان
کے فوری حل کے حوالے سے جو معاملات زیر بحث آئے ہیں ان کے ذریعے یقینا
اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں پر زور دیا جاسکتا ہے کہ وہ خطے میں
امن عمل کیلئے اپنی کوششیں تیز کریں تاکہ افغانستان اوراس کے ہمسایہ ممالک
کے سروں پرجو خطرات منڈلا رہے ہیں ان سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکے۔اس میں
کوئی شک وشبے کی گنجائش نہیں ہے کہ علاقائی امن و استحکام کے حوالے سے مسلم
دنیا کے مفادات چین اور روس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جن کی شراکت داری کے ساتھ
ایک مضبوط علاقائی بلاک بھی روبہ عمل ہو سکتا ہے جو امریکہ بھارت گٹھ جوڑ
سے اس خطے میں بگاڑے گئے طاقت کے توازن کو درست کرنے اور علاقائی امن و
سلامتی کے لئے وقت کا تقاضا بھی ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے غیر قانونی زیر
قبضہ جموں و کشمیر اور فلسطین دو ایسے مسائل ہیں جو گزشتہ پون صدی سے حل
طلب ہیں اس سلسلے میں بین الاقوامی اداروں نے تاحال زبانی جمع خرچ کے علاوہ
کچھ بھی نہیں کیااب او آئی سی کے ارکان اگر افغانستان میں استحکام کے حوالے
سے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر اور فلسطین سے متعلق
بھی واضح ٹھوس مؤقف اختیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ امید کی جاسکتی
ہے کہ جلد ہی ان مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ او آئی سی اپنے رکن ممالک کے
درمیان تجارت کو فروغ دے کر صحت، تعلیم، ترقی اور خوشحالی کیلئے باہمی
تعاون کو یقینی بناسکتی ہے۔ مسلم ممالک کوبھی اپنے چارٹر کی روشنی میں
کردار کا جائزہ لے کر یورپی یونین، نیٹو، آسیان، شنگھائی تعاون تنظیم، برکس
جیسی عالمی تنظیموں کی طرح آپس میں ایک دفاعی معاہدہ کرنا ہوگاکیونکہ
مسلمان ریاستوں کے باہمی تنازعات طے کرنے کا مؤثر نظام تشکیل دینا ناگزیر
ہو چکا ہے۔
|