انسانی تخلیق کے عظیم ترین لمحوں میں جب اس کائنات کی سب
سے اہم نوع کا اعلان ہورہا تھا تو اس وقت کئی فریقین میں اپنی برتری کیلئے
ناقابلِ فہم صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی۔انسا ن کے اشرف المخلوق ہونے کے
اعلان کیلئے ایک مجلس آراستہ ہوئی لیکن وہ مختلف خیالات کی آماجگاہ بن گئی
اور ایک ایسی نزاعی کیفیت نے جنم لیا جس میں انسانی عظمت و بڑائی کو چیلنج
کر دیاگیا ۔اپنی اپنی نوع کے امتیاز کی خاطر حکمِ خداوندی کی من پسند
تاویلیں کی گئیں ۔ فرشتوں کو اپنی عبادت پر زعم تھا لہذا انھوں نے عبادت
اور پاکیزگی کے پیمانوں سے انسانی تخلیق کے عدمِ جواز کا نظریہ پیش
کیا۔انھوں نے اپنی برتری کیلئے بحضو ر مالکِ کائنات فریاد کی کہ ہماری حمد
و ثناء پرستش اور عبادت کی موجودگی میں اس نئی نوع کی ضرورت نہیں ہے؟ایک
عذر یہ بھی تراشا گیا کہ یہ نئی مخلوق دنیا میں خون خرابہ اور فساد پیدا
کرے گی لہذا ہماری عبادت اور سپاس گزاری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں اس نئے
منصب پر سرفرازی کا موقعہ عنائت کیا جائے۔لیکن اﷲ سبحان تعالی نے یہ کہہ کر
کے جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے تمام خدشات کو رد کردیا اور پھر انسان
کی بزرگی و عظمت کا اعلان کرکے سب کو آدم کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا کا حکم
صادر کر دیا۔فرشتوں نے تو حکمِ خدا وندی کے مطابق آدم کو سجدہ کر کے اس کی
برتری کو تسلیم کر لیا لیکن ابلیس کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس نے خدائی
حکم کے سامنے کھلی بغاوت کا اعلان کردیا۔اپنی بات کی حمائت میں ابلیس نے جو
جواز ڈھونڈا وہ انتہائی کمزور،غیر منطقی، بودا اور سطحی تھا۔اس کا اصرار
تھا کہ آدم کی تخلیق چونکہ مٹی سے ہوئی ہے لہذا وہ تخلیقی جوہر کے لحاظ سے
مجھ سے کم تر ہے۔ میری تخلیق چونکہ آگ سے ہوئی ہے لہذا میں اپنی اصل کی رو
سے انسان سے افضل و برتر ہوں۔ابلیس کی نظر میں تفوق و تفاخر مٹی اور آگ کے
کسی محسوساتی شہ کے اظہار کا نام تھا جس کی رو سے قرعہ ِ فال اس کی برتری
کے نام نکلنا لازمی تھاجو خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ آگ اور مٹی
کی تخلیق کو کسی کے تفوق ، بڑھائی اور عظمت کی بنیاد کیسے قرار یا جا سکتا
تھا؟عظمت و تفوق اور تفاخر کی بنیاد تو علم و حکمت ،عقل و دانش،فیصلہ سا زی
، بصیرت،تسلیم و رضا ،ایمان اور اعمالِ صالح ہیں جھنیں بروئے کار لانے
کیلئے انسان کو علمِ اسماء عطا کیا گیا تھااور جس کے سامنے ہر ایک کو سر
نگوں ہو نا پڑاتھا۔علامہ اقبال نے اپنے خطوط میں لکھاتھا۔ ( شیطان کا قصور
یہ نہیں تھاکہ اس نے اپنی برتری اور تفوق کا بر ملا اظہار کیا تھا بلکہ اس
کی خطا یہ تھی کہ اس نے مالکِ کائنات کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے سے
انکار کر دیا تھا)۔،۔
ایک طرف تو یہ کیفیت تھی جبکہ دوسری طرف انسان کو تسخیرِ کائنات کا علم عطا
کر دیاگیا۔ارشادِ خدا وندی ہے( ہم نے تمھارے لئے ہر شہ کو مسخر کر دیا ہے )
تسخیرِ کائنات ایک ایسا معجزہ ہے جس نے انسان کو ورطہِ حیرت میں گم کردیا
ہے۔آج کا انسان چاند پر کمندیں ڈال رہا ہے،فضا پر تسلط قائم کر رہا ہے اور
دوسرے سیاروں پر زندگی کے امکانات تلاش کر رہا ہے۔ایک ایسا ہالہ تشکیل پا
چکا ہے جس میں انسان کی عظمت پر سورج ،چاند ،ستارے اور دوسری مخلوقات رشک
کر رہی ہیں۔علمِ اسماء کی وہ طاقت جس کے اندر سارا علم قید کر دیا گیا ہے
انسانی عظمت کو اوجِ ثریا سے ہمکنار کر رہا ہے۔بات صرف اس کی پروازیِ علم
کی ہی نہیں بلکہ اسے آزادانہ فیصلوں کا اختیار بھی عطا کیا گیا۔اسے بتا یا
گیا کہ میں نے تمھیں اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔اسے یہ نوید بھی سنائی
کہ(ادعونی استعجب لکم) میں تمھاری التجائیں بھی سنتا ہوں اور جواب بھی دیتا
ہوں ۔اب وہ بات جو اسے بلند و بالا مقام عطا کرتی ہے وہ ہے خدا سے اس کی
قربت اور آشنا ئی ہے۔(الست برَ بِکم)۔کیامیں تمھارا رب نہیں ہوں)ایک ایسا
سوال ہے جس کے جواب میں ساری روحوں نے جواب دیا تھا ( ہاں تو ہی ہمارا رب
ہے )کیا اس بات کا غماز نہیں ہے کہ خدائی امور میں انسان کی اہمیت ہر نوع
سے زیادہ ہے۔اس میثاق کی عارفانہ اہمیت توحیدِ خدا وندی کی اصلی رنگ میں
حقیقت آفرینی اور خدا اور بندے کے درمیان مضبوطی کی بناء پر ہے۔خدا نے(
یومِ الست) کو انسان کے دل میں ایک راز رکھ دیا تھا۔ حضرت جنید بغدادی سے
روائت ہے کہ (جب یومِ میثاقِ بنی آدم سے یہ الفاظ کہے گے ( الست بربکم ) تو
جملہ ارواح اس آواز میں مست ہو گئیں۔پھر جب وہ ارواح عالمِ وجود میں آ ئیں
اور انھوں نے کبھی کوئی خوبصورت آواز سنی تو وہ کانپ گئیں اور آواز الست کی
یاد سے بے قرار ہو گئیں کیونکہ خوبصورت آواز میں آوازِ الست کا اثر ہے۔) ۔
اقبال کا اپنا ہی انداز ہے۔روح اور تن پر اس کے اثرات اور نتائج دیکھئے ۔
(رقصِ تن در گردش آرد خاک را ۔،۔ رقصِ جاں برہم زند افلاک را)۔،۔
انسانی نفسیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ انسان کے اندر اس کی انا اسے
دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔انسان ہمیشہ تفوق و برتری کے زعم کا شکاررہتا ہے
،وہ دوسروں پر تسلط اور غلبہ قائم کرنا چاہتا ہے اور کبھی کبھی انھیں غلام
بنانے سے بھی نہیں چوکتا تھا جو کہ فخرو ناز او رگھمنڈ کی گھٹیا ترین حرکت
تھی جو انسان کے ہاتھوں سر زد ہو ئی تھی لیکن اس کے باوجود بھی انسان کی
خود نمائی اور خوستائی کی آگ سرد نہ ہوئی تھی ۔ شداد ، نمرود ، فرعون،بخت
نصر،ہٹلر ،ہلاکوخان، چنگیزخان اور نہ جانے کتنے ظالم،سفاک اور بے حس
حکمرانوں نے انسانیت کا سینہ چھلنی کیا ۔ دلخراش واقعات کو سہہ جانے کے
باوجود بھی انسان کے اندر سے اپنے رب کے سامنے جھکنے اور اس کی عبادت کی
خومٹ نہ سکی ۔اتنی بے راہ روی ،برہنگی،بے حیائی اور اخلاقی باختگی کے
باوجود بھی انسان سدا اس واحدہ لا شریک ہستی کے سامنے دو زانو رہتا ہے جس
نے اسے تفوق کی مسند عطا کی تھی۔ یہی تھا وہ پیغام ِ ازلی جو تخلیقی لمحوں
میں اس کائنات میں اچھالا گیا تھا۔(الست برَ بِکم) کے حقیقی معنی یہی ہیں
کہ انسان مالکِ کائنات سے کیا گیا وعد ہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔وہ ادھر
ادھر ضرور بھٹکتا ہے لیکن آخرِ کار اس کی دہلیزپر سجدہ ریز ہو جاتا
ہے۔انسان کو یہ سجدہ ریزی انبیاء و رسل، صوفیا اور اولیا اء اﷲ کے افعال و
کردار اور کاوشوں سے ملی ہے۔انسان اپنی صلاحیتوں سے ناممکن کو ممکن بنانا
جانتا ہے ، شاہکار ِ فطرت کی حیثیت سے وہ خلاؤں کو تسخیر کرتا ہے۔وہ ہر اس
شہ کو جو اس کی نگاہوں میں آتی ہے ،اس کے مشاہدے میں آتی ہے ، اس کے قلب
میں اترتی ہے اسے اپنی مٹھی میں بند کرنے کے جتن کرتا ہے ۔ وہ لا تعداد
ایجادات کو عملی شکل دے کر انسانیت کی خدمت بجا لانے کی تگ و دو کرتا ہے تو
مالکِ فطرت بھی اس پر مہربان ہو جا تا ہے ۔بھوک اور بیماریوں سے سسک سسک کر
مرنے والے انسانوں کے مناظر انسانی نگاہوں سے کبھی معدوم نہیں ہو سکتے
۔پہاڑوں کی کھو میں ڈر اور خوف سے دبک کر جینے والا انسان، درندوں کی ہیبت
سے لرز جانے والا انسان آج خلاؤں کو مسخر کر رہا ہے تو یہ تائیدِ ایزدی کے
بغیر کیسے ممکن ہو سکتا تھا ؟اسماء کا وہ علم جو ابلیس کی شکست کا پیش خیمہ
بنا تھا وہی علمِ اسماء انسانی ترقی اور اس کے عروج کا پیمانہ ہے ۔انسان کی
برتری کا جو فیصلہ مالکِ کائنات نے کیا تھا اس کے ثمر ات سے یہ کرہِ ارض
جنت بداماں ہو رہا ہے۔قوانینِ فطرت کی گرہ کشائی کا مرحلہ سر کرکرنے کے بعد
انسان انھیں ایک ایسے سائنسی رنگ میں آشکارا کررہا ہے کہ دنیا انگشت
بداندان ہے ۔انسانی ترقی کی پرواز حدود نا آشنا ہو چکی ہے، انسان خدا کا
ہمکار بن کر اس کرہِ ارض کی تابانی کو مزید چمکا رہا ہے اور پہ در پہ
کامرانیوں نے انسانی قلب کو تفاخرکے احساسات سے بھر دیا ہے۔قرآنِ حکیم کی
سورت رحمان میں تواتر سے اسی بات کا ذکر ہے۔۔
( تم میر ی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے)۔کاش مسلمان بھی اس آئیت میں
بیان کردہ حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالتے تو
رنگِ دنیا مزید دلکش اورخوبصورت ہو جاتا ۔،۔
|