اعتکاف
(Babar Alyas , Chichawatni)
از۔۔۔۔بابرالیاس
معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 904
عَنْ أَنَسٍ قَالَ : كَانَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
"يَعْتَكِفُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ ، فَلَمْ
يَعْتَكِفْ عَامًا ، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ ، اعْتَكَفَ
عِشْرِينَ". (رواه الترمذى)
اعتکاف
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف
فرمایا کرتے تھے۔ ایک سال آپ اعتکاف نہیں کر سکے، تو اگلے سال بیس دن تک
اعتکاف فرمایا۔ (جامع ترمذی)
تشریح
حضرت انس ؓ کی اس روایت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ ایک سال اعتکاف نہ ہو سکنے
کی کیا وجہ پیش ائی تھی۔ سنن نسائی اور سنن ابی داؤد وغیرہ میں حضرت ابی بن
کعب کی ایک حدیث مروی ہے اس میں تصریح ہے کہ ایک سال رمضان کے عشرہ اخیر
میں آپ ﷺ کو کوئی سفر کرنا پڑ گیا تھا اس کی وجہ سے اعتکاف نہیں ہو سکا
تھا اس لیے اگلے سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ اور صحیح بخاری میں
حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت سے مروی ہے کہ جس سال آپ ﷺ کا وصال ہوا اس سال
کے رمضان میں بھی آپ ﷺ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا تھا۔ یہ بیس دن کا
اعتکاف غالباً اس وجہ سے فرمایا تھا کہ آپ کو یہ اشارہ مل چکا تھا کہ
عنقریب آپ کو اس دنیا سے اٹھا لیا جائے گا اس لیے اعتکاف جیسے اعمال کا
شغف بڑھ جانا بالکل قدرتی بات تھی ؎ وعدہ وصل چوں شود نزدیک آتش شوق تیز
تر گردد
معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 903
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : « أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ ، كَانَ يَعْتَكِفُ العَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى
تَوَفَّاهُ اللَّهُ ، ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ » (رواه
البخارى ومسلم)
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں
اعتکاف فرماتے تھے، وفات تک آپ کا یہ معمول رہا، آپ کے بعد آپ کی ازواج
مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
رمضان مبارک اور بالخصوص اس کے آخری عشرہ کے اعمال میں سے ایک اعتکاف بھی
ہے .... اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف سے یکسو اور سب سے منقطع ہو کر بس
اللہ سے لو لگا کے اس کے در پہ (یعنی کسی مسجد کے کونہ میں) پڑ جانے، اور
سب سے الگ تنہائی میں اس کی عبادت اور اسی کے ذکر و فکر میں مشغول رہے، یہ
خواص بلکہ اخص الخواص کی عبادت ہے۔ اس عبادت کے لیے بہترین وقت رمضان مبارک
اور خاص کر اس کا آخری عشرہ ہی ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس کو اس کے لیے انتخاب
کیا گیا۔ نزول قرآن سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی طبیعت مبارک میں سب سے یکسو
اور الگ ہو کر تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر کا جو
بیتابانہ جذبہ پیدا ہوا تھا جس کے نتیجہ میں آپ مسلسل کئی مہینے غارِ حرا
میں میں خلوت کزینی کرتے رہے، یہ گویا آپ کا پہلا اعتکاف تھا اور اس
اعتکاف ہی میں آپ کی روحانیت اس مقام تک پہنچ گئی تھی کہ آپ ﷺ پر قرآن
کا نزول شروع ہو جائے۔ چنانچہ حرا کے اس اعتکام کے آخری ایام ہی میں اللہ
کے حامل وحی فرشتے جبرئیل اورہ اقرأ کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے
.... تحقیق یہ ہے کہ یہ رمضان المبارک کا مہینہ (1) اور اس کا آخری عشرہ
تھا اور وہ رات شب قدر تھی، اس لیے بھی اعتکاف کے لیے رمضان مبارک کے آخری
عشرہ کا انتخاب کیا گیا۔ روح کی تریبیت و ترقی اور نفسانی قوتوں پر اس کو
غالب کرنے کے لیے پورے مہینے رمضان کے روزے تو تمام افراد امت پر فرض کیے
گئے، گویا کہ اپنے باطن میں ملکوتیت کو غالب اور بہیمیت کو مغلوب کرنے کے
لیے اتنا مجاہدہ اور نفسانی کواہشات کی اتنی قربانی تو ہر مسلمان کے لیے
لازم کر دی گئی کہ وہ اس پورے محترم اور مقدس مہینے میں اللہ کے حکم کی
تعمیل اور اس کی عبادت کی نیت سے دن کو نہ کھائے نہ پئے، نہ بیوی سے متمتع
ہو، اور اسی کے ساتھ ہر قسم کے گناہوں بلکہ فضول باتوں سے بھی پرہیز کرےاور
یہ پورا مہینہ ان پابندیوں کے ساتھ گزارے ..... جپس یہ تو رمضان مبارک میں
روحانی تربیت و تزکیہ کا عوامی اور کمپلسری کورس مقرر کیا گیا، اور اس سے
آگے تعلق باللہ میں ترقی اور ملاء اعلیٰ سے خصوصی مناسبت پیدا کرنے کے لیے
اعتکاف رکھا گیا۔ اس اعتکاف میں اللہ کا بندہ سب سے کٹ کے اور سب سے ہٹ کر
اپنے مالک و مولا کے آستانے پر اور گویا اسی کے قدموں میں پڑ جاتا ہے، اس
کو یاد کرتا ہے، اسی کے دھیان میں رہتا ہے، اس کی تسبیح و تقدیس کرتا ہے،
اس کے حضور میں توبہ و استغفار کرتا ہے، اپنے گناہوں اور قصوروں پر روتا
ہے، اور رحیم و کریم مالک سے رحمت و مغفرت مانگتا ہے، اس کی رضا اور اس کا
قرب چاہتا ہے۔ اسی حال میں اس کے دن گزرتے ہیں اور اسی حال میں اس کی راتیں
.... ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی بندے کی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے ....
رسول اللہ ﷺ اہتمام سے ہر سال رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے تھے،
بلکہ ایک سال کسی وجہ سے رہ گیا تو اگلے سال آپ نے دو عشروں کا اعتکاف
فرمایا .... اس تمہید کے بعد اس سلسلے کی حدیثیں پڑھئے۔ تشریح ..... ازواج
مطہرات اپنے حجروں میں اعتکاف فرماتی تھیں، اور خواتین کے لیے اعتکاف کی
جگہ ان کے گھر کی وہی جگہ ہے جو انہوں نے نماز پڑھنے کی مقرر کر رکھی ہو،
اگر گھر میں نماز کی کوئی خاص جگہ مقرر نہ ہو تو اعتکاف کرنے والی خواتین
کو ایسی جگہ مقرر کر لینی چاہئے۔
|
|