رزقِ جسم و جان اور رزقِ دین و ایمان !

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالدُخان ، اٰیت 1 تا 16 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
حٰمٓ 1
ولکتٰب المبین 2
انا انزلنٰه فی لیلة مبٰرکة
انا کنا منذرین 3 فیھا یفرق
کل امر حکیم 4 امرا من عندنا
انا کنا مرسلین 5 رحمة من ربک انهٗ
ھوالسمیع العلیم 6 رب السمٰوٰت والارض
وما بینھما ان کنتم موقنین 7 لاالٰه الا ھویحیٖ
ویمیت ربکم ورب اٰبائکم الاولین 8 بل ھم فی شک
یلعبون 9 فارتقب یوم تاتی السماء بدخان مبین 10 یغشی
الناس ھٰذا عذاب الیم 11 ربنااکشف عناالعذاب انا مؤمنون 12
انٰی لھم الذکرٰی وقد جاءھم رسول مبین 13 ثم تولو عنه وقالوا معلم
مجنون 14 اناکاشفوا العذاب قلیلا انکم عائدون 15 یوم نبطش البطشة الکبرٰی
انامنتقمون 16
اللہ کا تعارف کرانے والے مُعلّمِ کتاب محمد پر یہ مُتکلّم کتاب اُس رحمت بڑھانے والی رات میں شُعلہِ نُور و شعور لے کر نازل ہوئی ہے جس رحمت والی رات میں ہم نے انسان کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم کی روشنی میں لانے کا فیصلہ کیا تھا ، ہماری اِس کتاب کے اِس بر وقت نزول نے حق و باطل کے درمیان وہ سمعی و بصری اور علمی و عملی فرق قائم کردیا ہے جو سمعی و بصری اور علمی و عملی فرق قائم کرنے کے لیۓ ہم پہلے بھی اہلِ زمین کی سمعی و بصری اور علمی و عملی ضرورت کے مطابق اہلِ زمین کی طرف اپنے علم کے وہ عالم رسُول بہیجتے رہے ہیں جو اِس سے پہلے بھی اِسی کتابِ وحی کا علمِ حق لے کر اہلِ زمین کی طرف آتے رہے ہیں ، اگر تُم یقین کرو تو اللہ کی یہی وہ رحمت ہے جو زمین و آسمان کے درمیان موجُود ہے اور زمین و آسمان کا وجُود بھی اسی رحمت کے دَم قدم سے موجُود ہے اور اِس کتابِ وحی کی یہ رحمت انسان کے دین و ایمان کے لیۓ ایسا ہی ایک آسمانی رزق ہے جیسا انسان کے جسم و جان کے لیۓ زمین سے نکلنے والا زمینی رزق ہے اِس لیۓ اِس اَمر میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیۓ کہ اللہ کا یہی وہ قانُونِ وحی ہے جس قانُونِ وحی کے تحت اللہ گزشتہ زمانوں کی گزشتہ اَقوام کو زندگی و موت دیتا رہا ہے اور آنے والے زمانوں میں آنے والی اَقوام کو بھی وہ پہلی اقوام کی طرح زندگی اور موت دیتا رہے گا ، اگر اِس وقت کا انسان اِس وقت کسی شک و شبہے کے بغیر اِس قانُونِ وحی پر ایمان نہیں لاۓ گا تو اِس انسان پر جلد ہی زجر و توبیخ کا وہ قیامت خیز زمانہ آجاۓ گا جب اِس کی اِس زمین و آسمان کے ہر پست و بالا پر قیامت کا وہ غبار چھا جاۓ گا جس سے نجات کی کسی انسان کو کہیں پر بھی کوئی راہ نظر نہیں آۓ گی اور اُس قیامت کے اُس غبار میں انسانی جمعیت یہ دُھائی دے گی کہ ہم اِس قانُونِ حق پر ایمان لاتے ہیں لیکن وہ بعد اَز وقت کا ایمان اُس انسانی جمعیت کو کوئی بھی فائدہ نہیں دے گا کیونکہ اِس وقت یہ لوگ ہمارے جس رسُولِ برحق کو مجنون اور اُس کی دعوتِ حق کو جنون کہکر اعراض و رُو گردانی کر رہے ہیں اُس وقت یہ لوگ ہمارے اُس رسُول کی ہدایت سے محروم ہو چکے ہوں گے اِس لیۓ اُس وقت اِن لوگوں پر جو سختی کی جاۓ گی اُس سختی میں کوئی نرمی نہیں لائی جاۓ گی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب حق کے اِن مُنکروں کے ساتھ نرمی کی جاتی ہے تو حق کے یہ مُنکر اپنے انکارِ حق میں پہلے سے کہیں زیادہ جری ہو جاتے ہیں اِس لیۓ اُس وقت ہم بھی اِن پر اپنے انتقام کی گرفت پہلے سے زیادہ سخت کر دیں گے تاکہ حق کے یہ مُنکر اپنے مُجرمانہ اعمال کی پُوری پُوری سزا پاسکیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے اپنی نزُولی و کتابی ترتیب میں اپنے جس کلامِ وحی کا 69 صیغ و ضمائر کے ساتھ قُرآنِ کریم کے 69 مقامات پر ذکر کیا ہے اُس کلامِ وحی کا پہلا مضمون سُورَةُالبقرة کی اٰیت 185 میں بیان ہونے والا وہ مضمون ہے جس مضمون میں اِس آسمانی تنزیل کی تمہید اور تکمیل کو ماہِ رمضان کے ساتھ خاص کیا گیا ہے ، اِس تنزیل کی اِس تمہید و تکمیل کے اُس پہلے مضمون کے بعد اِس سُورت کی اِن پہلی اٰیات میں اُس کلامِ وحی کا وہ دُوسرا مضمون بیان کیا گیا ہے جس دُوسرے مضمون میں ماہِ رمضان کی اُس ایک خاص شب کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے جس خاص شب میں اِس کلامِ وحی کی تمہید اور تکمیل ہوئی ہے ، اِس کلامِ وحی کے اِن دو مضامین کے بعد اِس کلامِ وحی کا تیسرا مضمون سُورَةُالقدر کا وہ مضمون ہے جس مضمون میں نزولِ وحی کی تمہید و تکمیل کی اُس ایک خاص شب کی اُس خاص وسعت کا ذکر کیا گیا ہے جس ایک شب کی وسیع مُدت ایک ہزار مہینوں کی وسیع مُدت سے زیادہ وسیع مُدت ہے ، آسمانی تنزیل کی اِس قُرآنی تفصیل سے جو بات نکھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ زمان و مکان میں شب جو ہمیشہ سے تاریکی کی ایک تاریک علامت رہی ہے اُس کی اُس تاریکی میں وحی کے شُعلہِ نُور کا ظہور اِس اَمر کی دلیل ہے کہ شب کی تاریکی سے مُراد زمان و مکان میں جہالت کی تاریکی ہے اور جہالت کی اُس تاریکی میں وحی کے شُعلہِ نُور کے ظہور سے مُراد علم کے اُس آفتاب کا ظہور ہے جس نے زمان و مکان کی اُس تاریکی میں طلُوع ہو کر زمان و مکان کی تاریکی کو روشنی میں بدل دیا ہے اور اِس ایک شب کی ہزار مہینوں کی وسعت سے زیادہ وسعت اِس اَمر کی دلیل ہے کہ وحی کی جو روشنی زمان و مکان کی اِس تاریکی کے درمیان 80 برسوں کی مُدت میں مُحیط ہونی تھی وہ روشنی جب قلبِ محمد علیہ السلام سے گزاری گئی تھی تو اُس روشنی کی رفتار نے زمان و مکان سے 80 برس میں گزرنے کا سفر اُس ایک شب کے ایک ہی لَمحے میں مُکمل کر لیا تھا ، اِس سُورت کا موضعِ سُخن یہ ہے کہ ہر چیز کی بقاۓ جان کے لیۓ ایک رزق ہوتا ہے جو اُس چیز کو زندہ و قائم رکھتا ہے جس طرح کہ انسان کے جسم و جان کا رزق انسان کا وہ آب و دانہ ہے جو انسان کی ضرورت کے مطابق زمین میں رکھا گیا ہے اور انسان کی ضرورت کے مطابق سال بہ سال زمین سے باہر لایا جاتا ہے اور زمین کے ہر انسان کی ضرورت کے مطابق زمین کے ہر انسان تک پُہنچایا جاتا ہے ، قُرآنِ کریم نے انسان کے جسم و جان کے اِس رزق سے یہ استدلال کیا ہے کہ جس طرح انسان کے جسم و جان کے لیۓ زمین سے اُبھرنے والا یہ رزق ضروری ہے اسی طرح انسان کے دین و ایمان کے لیۓ آسمان سے اُترنے والا وہ رزق بھی ضروری ہے جس رزق کے مَخزن و مَخرج کا نام قُرآن ہے ، اٰیاتِ بالا میں اِس اَمر کی مزید تشریح اِس طرح کی گئی ہے کہ انسان جب تک اِس قُرآنی نُور کے سامنے رہتا ہے جہالت کے خطرات سے بچا رہتا ہے اور جب وہ اِس نُور سے دُور ہو جاتا ہے اُس کی زندگی پر وہ قیامت خیز غبار چھا جاتا ہے جس غبار کے ساۓ میں آنے کے بعد انسان کو اپنی ہدایت و رہنمائی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ، اہل روایت نے اِس غبار سے اپنا وہ خیالی قحط مُراد لیا ہے جو قحط اُن کی روایاتِ باطلہ کے مطابق اہلِ مکہ پر اُس وقت آیا تھا جب سیدنا محمد علیہ السلام نے اہلِ مکہ پر قحط نازل کرنے کے لیۓ اللہ تعالٰی سے بد دُعا کی تھی لیکن اہل روایت کی یہ روایت جن دو وجوہ کی بنا پر باطل و مردُود ہے اُن دو وجوہ میں سے پہلی وجہ یہ ہے کہ انسان کو ڈرا دھمکا کر دین قبول کرانا اللہ تعالٰی کے دائمی قانُون کے خلاف ہے اور دُوسری وجہ یہ ہے کہ قُرآنِ کریم کے مطابق اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام کو اہلِ زمین کے لیۓ رحمة للعٰلمین بنا کر مبعوث فرمایا ہے اِس لیۓ اہلِ روایت کی یہ باطل قُرآن کے بھی خلاف ہے اور سیدنا محمد علیہ السلام کے رحمتِ عالم ہونے کے بھی خلاف ہے اور اِن دو وجوہ کی بنا پر ایک باطل و مردُود روایت ہے ، مزید براں یہ کہ اہلِ روایت نے اللہ تعالٰی کی طرف سے رمضان کے ساتھ خاص کی گئی اِس شب کو رمضان سے نکال کر جو شعبان میں داخل کیا ہے اور پھر اِس شب کو شعبان میں داخل کرنے کے بعد پہلے تو یہ باطل اعتقاد قائم کیا ہے کہ شعبان کی یہ شب رزق کی تقسیم کی ایک خاص شب ہے اور اِس اعتقاد کے بعد شعبان کی اُس شب میں اہلِ اسلام کو قبرستان میں جانے کی جو تعلیم دی گئی ہے وہ تعلیم اس بات کی دلیل ہے کہ اِن اہلِ روایت کے نزدیک حصولِ رزق کا ذریعہ خُداۓ رحمٰن نہیں ہے بلکہ انسانی قبرستان ہے اور اہلِ روایت کی قبر پرستی کی یہ قبرستانی تعلیم ایک شیطانی تعلیم ہے !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462049 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More