عمران خان کی پہلی شناخت کھلاڑی کے طور پر ہے کیونکہ وہ
کسی سنگھ کی شاکھا سے نہیں بلکہ کرکٹ کے میدان سے سیاست کے گلیارے میں آئے
۔ انہوں نے کپتان کی حیثیت سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ چمپین بنادیا ۔ اس
زمانے میں یہ اعزاز ویسٹ انڈیز یا آسٹریلیا کے لیے کوئی حیرت کی بات نہیں
تھی لیکن پاکستان یا ہندوستان کی خاطریہ ایک خوابِ سراب کی مانند تھا ۔ یہی
وجہ ہے کہ کپل دیو اور عمران خان کے کرکٹ کی تاریخ میں ایک منفرد مقام حاصل
ہوگیا ۔ کپل دیو نے کرکٹ سے سبکدوش ہونے کے بعدتنہائی کی زندگی کو پسند کیا
اور قوم نے بھی انہیں بھلا دیا ۔ اس کے برعکس عمران خان نے ایک کینسر
اسپتال کے قیام کا اعلان کرکے عوامی زندگی کا آغاز کیا۔ عمران کی اس دوسری
پاری نے انہیں مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ۔ اس کے بعد سیاست میں آکر
انہوں نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا ۔ یہ اعزاز شاید ہی کسی کرکٹ کھلاڑی کو
حاصل ہوا ہو کہ وہ انتخاب جیت کر سربراہِ مملکت کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز
ہوجائے ۔ عالمی سطح پر عمران خان نے ملک و ملت کے لیے جو کارنامے انجام
دیئے اس کی طویل فہرست ہے۔ اسلاموفوبیہ کا انہوں نے جس طرح مقابلہ کیا یہ
انہیں خاصہ ہے۔ مقبولیت کے لحاظ سے وہ فی زمانہ مسلم رہنماوں کوئی ان کی
برابری نہیں کرسکتا ۔
پاکستان کے حالیہ سیاسی خلفشار کو کرکٹ کی اصطلاحات میں عمران کے دوست
واحباب ان کا آخری گیند پر لگایا جانے والا زور دار چھکا ّ کہہ رہے ہیں ۔
عقیدت کی عینک اتار کر دیکھیں تو ایسا نہیں لگتا ۔ عدم اعتماد کی تحریک
کواگر عمران خان کم ازکم ۶؍ ارکان کے فرق سے بھی ناکام کردیتے تب تو یہ
دعویٰ جائز ہوسکتا تھا کیونکہ ایوان کے اندر ان کی پارٹی اقلیت میں تھی
لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اپنے ارکان پارلیمان کو متحد
رکھنے میں ناکام رہے ۔ ارکانِ پارلیمان پر لگایا جانے والا الزام مڑ کر
تحریک انصاف پر لوٹ آتا ہے کیونکہ انہیں عمران خان نے امیدوار بنایا تھا ۔
وزیر اعظم پاکستان نے ایک دن پہلے دعویٰ کیا تھا کہ منحرف ارکان پارلیمان
کو اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے۔ وہ لوٹ رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسی
لیے عدم اعتماد کی تحریک کو خارج کروانے کی ضرورت پیش آئی۔
عمران خان کی جماعت چونکہ اقلیت میں آچکی تھی اسی لیے ایوان کو معطل کرکے
انتخابات کے انعقاد پر رضامندی ظاہر کرنی پڑی ۔ پاکستانی فوج قابلِ
مبارکباد ہے کہ اس نے ماضی کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اس موقع کا فائدہ
اٹھاکر اقتدار پر قبضہ نہیں کیا ۔ ایسا کرنے کے بجائے اس نے حالات پر قابو
پانے کے لیے نہایت معقول متبادل سامنے رکھے ۔ ان میں پہلا تحریک عدم اعتماد
کا سامنا کرنا اور دوسرا استعفی دینا تھا ۔ عمران خان کے لیے یہ دونوں
قابلِ قبول نہیں تھے کیونکہ وہ ان سیاسی خودکشی کے مترادف ہوتا ۔ اس لیے
بحالتِ مجبوری انہوں نے تیسرے یعنی قلیل مدت (90 دن ) کے اندر انتخاب
کروانے پر رضامندی ظاہر کردی ۔ اس کے ذریعہ وزیر اعظم مزید دوہفتہ اپنے
عہدے پر فائز رہیں گے اور آگے بھی قائم مقام رہیں گے بشرطیکہ کو عدالت
عظمیٰ کی جانب سے کو ئی حیرت انگیز فیصلہ صادر نہ ہوجائے۔ قبل از وقت
انتخاب کو عمران خان کی ایک مجبوری سمجھنا ہی حقیقت پسندی کا تقاضہ ہے ۔
عمران خان کے چاہنے والے اسے باونسر یا گوگلی بھی کہہ رہے ہیں خیر وہ جو
بھی ہو لیکن اس سے مخالف ٹیم کوئی کھلاڑی ہنوز آوٹ تو نہیں ہوا۔کرکٹ کی
زبان میں یہ میچ تادمِ تحریر ہار، جیت یا برابری یعنی ڈرا بھی نہیں ہوا ہے۔
کھیل کے دوران کئی بار یہ ہوتا ہے کہ جب ہار سامنے دکھائی دینے لگے اور
آسمان ابر آلود ہوجائے تو بیٹنگ کرنے والی ٹیم کا کپتان اندھیرے کے سبب
گیند کے نظر نہ آنے شکایت کرتا ہے۔ ایسے میں اگر امپائر ہمدرد ہو تو اس
درخواست کو قبول کرکے کھیل رکوا دیتا ہے۔ اب اس کی مرضی پر منحصر ہے کہ
کھیل کو برابری پر ختم کردے یا دوسرے دن جاری رکھنے کا فیصلہ کرے۔ کرکٹ اور
سیاست میں یہ فرق ہے کہ یہاں برابری نہیں ہوتی ۔ دنیا کے ہر سیاسی نظام میں
اقتدار اپنے مخالف کو شریک کار بنانے کا روادار نہیں ہوتا ۔ اس لیے عمران
خان کے بہی خواہ امپائر نے کھیل کو اگلے دن تک یعنی آئندہ انتخاب تک ملتوی
کردیا ۔ کرکٹ کا یہ میچ اگر خود اپنے ہی ملک میں ہورہا ہو تو میزبان ٹیم کو
رات بھر میں پچ کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا نادر موقع ہاتھ آجاتا ہے۔ مثلاً
عام طور پر پچ کو بھیگنے سے بچانے کے لیے پلاسٹک کی چادر سے ڈھانپ دیا جاتا
ہے۔ اب اگر یہ کام ٹھیک سے نہ کیا جائے اور پانی اندر چلا جائے تو وہ بھیگ
جاتی ہے اور کھیل پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ گیند کا اچھلنا کم ہوجاتا ہے۔ ایسے
میں شاٹ لگانا اور رن بنانا دونوں مشکل ہوجاتا ہے۔
موجودہ سیاسی صورتحال میں عمران خان کے پاس اس کا نادر موقع ہے بلکہ قوم کے
نام خطاب اور اپنے مختلف انٹرویوز سے وہ اس کا آغاز کرچکے ہیں ۔ قوم کو یہ
سمجھانے میں انہیں کامیابی ملنے لگی ہے کہ یہ تحریک عدم اعتماد دراصل ایک
غیر ملکی سازش کا حصہ تھی ۔ عمران خان نے اس کو اپنے روسی دورے سے جوڑ کر
امریکہ کو موردِ الزام ٹھہرا دیا ہے۔ اس معاملےانہیں چین کی حمایت بھی حاصل
ہوگئی ہے ۔ اس طرح امریکہ کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات کو اندرونی
سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ امریکہ نے اس کی تردید کرتے ہوئےمذکورہ خط
کو مسترد کردیا ہے۔ امریکہ کا موقف خط کی حد تک تو درست معلوم ہوتا ہے لیکن
چونکہ ماضی میں امریکیوں کا ریکارڈ اس قدر خراب رہا ہے اس لیے کوئی اس کی
صفائی کو قبول کرکے یقین نہیں کرسکتا۔ امریکہ سے تعلقات استوار رکھنے کے
حوالے سے پاکستان کے فوجی سربراہ نے مثبت کردار ادا کرکے ایک توازن قائم
کرنے کی کوشش کی ہے۔
عمران خان کےپاس رشوت خوری کے الزامات کا کوئی ٹھوس ثبوت تو نہیں ہے مگر
موجودہ دور کے سیاستدانوں کا کردار اس قدر مسخ ہوچکا ہے کہ عوام بغیر شواہد
کے الزامات پریقین کرلیتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان نے قوم سے خطاب کے ذریعہ
جو بیانیہ پیش کیا ہے وہ انتخابی مہم میں انہیں کامیابی سے ہمکنار کرسکتی
ہے ۔ ایسے میں وزیر داخلہ شیخ رشید کا یہ بیان قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ
تحریک عدم اعتماد نے نادانستہ طور پر عمران خان کی مقبولیت میں زبردست
اضافہ کردیا ہے۔ اس سے قبل انہیں واضح اکثریت تک نہیں مل پائی تھی اور
دوسروں کے تعاون سےانہوں نے سرکار بنائی تھی لیکن اس بار وہ تین چوتھائی
اکثریت سے کامیاب ہوکر اپنے بل پر حکومت سازی کریں گے ۔ قومی حمیت کی آگ
میں حکمرانوں کی ساری ناکامیاں جل کر خاک ہوجاتی ہیں۔ اسی کی آڑ میں روسی
صدر پوتن اپنی مقبولیت بڑھا رہے ہیں ۔ اس کے سہارے وزیر اعظم نریندر مودی
دوسری بار پہلے سے بہتر انتخابی کامیابی حاصل کرچکے ہیں اور بعید نہیں کہ
عمران خان بھی شاندار جیت درج کرائیں کیونکہ یہ جمہوریت کا نہایت مجربّ
نسخہ ہے ۔
عمران خان کے حق میں یہ بات بھی ہے کہ ان کے مخالف شہباز شریف اورسابق وزیر
اعظم نواز شریف کے مودی سرکار سے بہت قریبی تعلقات رہے ہیں ۔ مودی جی کا
نواز شریف کو اپنی حلف برداری میں شرکت کی دعوت دینا اور بن بلائے اسلام
آباد کا دورہ کرلینا ہندو پاک سفارتکاری کا ایک انوکھا باب ہے۔ مودی جی کی
کٹر ہندوتوانواز شبیہ کے باوجود پاکستانی سابق وزیر اعظم نواز شریف سے قربت
غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوجاتی ہے۔ سیاسی مبصرین اس کے پیچھے معاشی و
تجارتی مفاد کا بھی سراغ لگاتے ہیں ۔ مودی کا سرمایہ نواز ہونا اور نواز
شریف کا سرمایہ دار ہونا جگ ظاہر ہے ۔ اس سے ان الزامات کو تقویت ملتی ہے۔
ہندوستان میں جس طرح کسی سیاستداں کے مستقبل کو تاریک کرنے کے لیے اس پر
پاکستان نواز ہونے کا الزام لگا دینا کافی ہے اسی طرح کی ملتی جلتی صورتحال
پاکستان میں بھی ہے۔ اس لیے اگر میڈیا یہ ثابت کرنے پرتُل جائے کہ پاکستان
کا حزب اختلاف امریکہ کا زرخرید غلام اور ہندوستان کا دلال ہے تو اس کے دن
ازخود لد جائیں گے اور عوام کے لیے اس کو ووٹ دینا بہت مشکل ہوجائے گا ۔
اس بابت ہندوستان کے گودی میڈیا کا رویہ بھی پاکستانی عوام کے اندر اشتعال
پیدا کرنے والا تھا۔ پاکستانی سیاسی بحران کے دوران یہاں تو ایسے شادیانے
بج رہے تھے گویا پاکستان میں بی جے پی کی حکومت قائم ہونے جارہی ہے۔ ان کا
معاملہ چائے سے گرم کیتلی کا تھا یعنی یہ پاکستانی حزب اختلاف سے زیادہ شور
شرابہ کررہے تھے۔ اپنے ملک میں حزب اختلاف کو نظر انداز یا بدنام کرنے والے
ذرائع ابلاغ کی ہم سایہ ملک کے اپوزیشن سے ہمدردی نے پاکستانی عوام کو حیرت
زدہ کردیا ۔ یہ احمق بھول گئے کہ جب کوئی پاکستانی صحافی ہندوستانی وزیر
اعظم کو برا بھلا کہتا ہے تو مودی مخالف کو بھی ان سے ہمدردی ہوجاتی ہے۔
ہندوستانی میڈیا نے یہی کیا اور نادانستہ طور پر عمران خان کی مقبولیت کو
بڑھانے میں اہم کردار اداکردیا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ عقلمند دوست سے
زیادہ ضرر رساں بیوقوف دشمن ہوتا ہے۔ ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے پاکستانی
حزب اختلاف کا اسی طرح نقصان کیا ہے۔
پاکستان میں جب تک سیاسی بحران جاری تھا تو ہندوستانی میڈیا میں اسے اس قدر
زور و شور سے دکھایا کہ سری لنکا کی حالتِ زار زیر بحث آ ہی نہیں سکی۔
عمران خان کو استعفیٰ دینا پڑجاتا تو یہ عظیم انسانی بحران دبا ہی رہ جاتا
ہے خیر اب کم ازکم سری لنکا کی جانب توجہ مبذول ہوئی ہے۔پاکستان کی سیاسی
اتھل پتھل کو اس طرح پیش کیا جارہا تھا جیسے ایسی کوئی واردات اپنے ملک میں
ہوتی ہی نہ ہوحالانکہ ہر دوچار سال میں کسی نہ کسی صوبے میں کرسیوں کا سودہ
ہوتا رہتا ہے۔ قومی سطح پر بھی مرارجی دیسائی کی سرکار گری اور چرن سنگھ
بھی اعتماد کا ووٹ نہیں حاصل کرسکے۔ وی پی سنگھ کے بعد چندر شیکھر کا بھی
وہی حشر ہوا۔ اٹل بہاری واجپائی کو دو مرتبہ یہ ہزیمت اٹھانی پڑی اور یہی
حال دیوے گوڑا و اندرکمار گجرال کا بھی ہوا۔ اس طرح وطن عزیز میں آدھا
درجن سے زیادہ وزرائے اعظم استعفیٰ دے چکے ہیں۔ اس کے باوجود عمران خان کے
امکان پر اس قدر خوش ہونا حیرت انگیز تھا لیکن انتخاب کا اعلان ہوتے ہی
میڈیا کا سارا جوش سوڈا واٹر کے بلبلوں کی مانند ہوا میں تحلیل ہوکر بکھر
گیا۔ گودی میڈیا کی اس حالت پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشہ نہ ہوا
|