پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن ’’ورلڈ ہیلتھ
ڈے‘‘ 7اپریل کو بھرپور طریقے سے منایاجاتا ہے پاکستان میں صحت کی سہولیات
پر لکھنے سے پہلے ایک چھوٹی سی بات کرنا چاہتا ہوں کہ جاوید ہاشمی سے لیکر
چودھری نثار تک ن لیگ چھوڑنے والے کسی نے آج تک نہیں کہا کہ میاں صاحب کرپٹ
ہیں یا غدار جبکہ دوسری طرف اکبر بابر سیجسٹس وجیہہ،حامدخان اورعائشہ گلا
لئی سے لیکر علیم خان تک جس نے بھی پارٹی چھوڑی سب کہتے ہیں کپتان کے خلاف
ہوگئے اور خلاف بھی ایسے ہوئے کہ جذبات میں وہ باتیں بھی کر گئے جو حقیقت
کے قریب ترین بھی نہیں ان افراد کو عمران خان کا قرب حاصل ہوا تو مشہور
ہوگئے یہاں تک کہ عمران خان کے ساتھ لگے تو خانہ کعبہ کے اندر تک پہنچ گئے
ناشکرے ایسے کہ ہر تہمت اپنے محسن پر لگا دی ان میں سے کچھ افراد گمنامی
میں چلے گئے اور باقی بھی جانے والے ہیں آئندہ عمران خان کو اپنے ساتھ بندے
نتھی کرنے سے پہلے سوچنا ہوگا اب آتے ہیں صحت کے عالمی دن پر اس دن کے
منانے کا مقصد دنیا بھر کے لوگوں کو صحت کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے۔اس سلسلہ
میں ملک بھر میں وزارت صحت،محکمہ صحت پنجاب،پاکستان میڈیکل ایسوی ایشن،دیگر
طبی تنظیموں اور این جی اوز کے زیر اہتمام واکس،سیمینارز،کانفرنسز اور دیگر
تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں صحت مند زندگی گزارنے کی سنہری
اصولوں بارے آگاہی دی جاتی ہے اور ماہرین اپنے مقالے پیش کرتے اور خبارات
خصوصی مضامین شائع کرتے ہیں دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن سب سے پہلے 1950ء
میں منایا گیا 1948ء میں عالمی ادارہ صحت (WHO) کے ذیلی ادارے ہیلتھ اسمبلی
نے ہر سال 7اپریل کو صحت کا عالمی دن منانے کی منظوری دی تھی جس کے بعد
دنیا بھر میں 7اپریل کو ’’ورلڈ ہیلتھ ڈے‘‘ منایا جاتا ہے پاکستان میں صحت
کے ڈھانچہ کو دیکھا جائے تو ہمارے ہاں 1201 ہسپتال، 5518 بنیادی صحت کے
یونٹس، 683 دیہی مراکز صحت، 5802 ڈسپنسریاں، 731 زچگی و بچوں کے صحت کے
مراکز اور 347 ٹی بی مراکز پر ہیں اور ان صحت کی سہولیات میں بستروں کی کل
دستیابی کا تخمینہ 123394 ہے جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ لیڈی ہیلتھ ورکرز شامل
ہیں جو پورے پاکستان میں خدمات فراہم کر رہی ہیں ان بنیادی صحت کی دیکھ
بھال کی خدمات کو ریفرلز کے لیے تحصیل اور ضلع کی سطح پر 989 سیکنڈری کیئر
ہسپتالوں کے نیٹ ورک کی مدد حاصل ہے پاکستان میں بنیادی صحت کی دیکھ بھال
کی خدمات کی فراہمی کے لیے BHUs کا ایک جامع نیٹ ورک موجود ہے سب سے زیادہ
آبادی والا صوبہ پنجاب کے عوام کو معیاری خدمات فراہم کرنے والے اعلیٰ
معیار کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے لیے مشہور ہے۔ 2017 میں پنجاب میں 88
تحصیل لیول ہسپتال (THQ)، 34 ڈسٹرکٹ ہسپتال (DHQ) اور 23 تدریسی ہسپتال تھے
پاکستان میں اس وقت رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد تقریباًڈیڑھ لاکھ ہے۔ ایک
اندازے کے مطابق تقریباً 30ہزار پاکستانی ڈاکٹر بیرون ملک کام کر رہے ہیں
اور تقریباً 22کروڑ کی آبادی کے لیے سوا لاکھ ڈاکٹر ہیں جوتقریبا 1764
افراد کے لیے ایک ڈاکٹر کا تناسب بنتا ہے بدقسمتی سے پاکستان میں زیادہ تر
حکمرانوں نے صحت کی طرف توجہ نہیں دی کیونکہ وہ خود تو اپنا علاج کروانے
باہر بھاگ جاتے تھے اور غریب عوام کو مرنے کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں وحشی
اور قصائی نما ڈاکٹروں کے حوالے کردیتے تھے پاکستان کو بنے ہوئے 75سال
ہوگئے اور ایک بھی ایسا ہسپتال نہیں بن سکا جس میں امیر ،سرمایہ دار یا
حکمران اپنا علاج کرواسکے آج جتنے بھی بڑے بڑے ہسپتال ہیں وہ سب کے سب قیام
پاکستان سے پہلے کے بنے ہوئے ہیں میو ہسپتال لاہور پاکستان کے قدیم اور بڑے
ہسپتالوں میں سے ایک ہے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی جو جنوبی ایشیا کے سب
سے پرانے اور معتبر طبی اداروں میں سے ایک ہے میو ہسپتال سے منسلک ہے میو
ہسپتال پرانے لاہور کے قلب میں واقع ہے اس میں بہت سے مختلف وارڈز بھی ہیں
اس ہسپتال کی عمارت 1870 میں ڈیڑھ لاکھ روپے کی کی لاگت سے مکمل ہوئی اور
اس نے 1871 میں کام شروع کیا۔ ہسپتال کا نام اس وقت کے برطانوی ہندوستان کے
وائسرائے ''رچرڈ بورکے میو کے چھٹے ارل'' کے نام پر رکھا گیا جسے مقامی طور
پر بھی جانا جاتا ہے۔ جیسا کہ لارڈ میو یہ ہسپتال اس وقت پنجاب کے 70 ہزار
لوگوں کی ضرورت پوری کرنا تھا۔ ہسپتال 3 خصوصیات (جنرل میڈیسن، جنرل سرجری،
آنکھ اور Ent) کے ساتھ شروع ہوا ہسپتال کا فن تعمیر اطالوی ہے جسے پوڈون نے
ڈیزائن کیا تھا اور اس وقت کے معروف معماروں میں سے ایک رائے بہادر کنہیا
لال نے انجینئر کیا تھا تاہم تعمیراتی اثر قرون وسطی کے اسپتالوں سے ملتا
جلتا ہے جو قرون وسطی کے دوران تعمیر کیا گیا تھا 1960 اور 1980 کے اوائل
کے درمیان اضافے کو A.R. Hye نے ڈیزائن کیا تھا ہسپتال کی مرکزی عمارت
پاکستان میں برطانوی دور کی قدیم ترین عمارتوں میں سے ایک ہے اس قدیمی اور
بڑیہسپتال کی عمارتیں درج ذیل ترتیب سے تعمیر کی گئی تھیں۔ 1871 میں میو
ہسپتال (اب شعبہ داخل مریضوں) کی مرکزی عمارت ،1891 میں اے وی ایچ (پرائیویٹ)
بلاک،1952 میں آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ،1974 میں پیڈیاٹرکس وارڈ 1982 میں انسٹی
ٹیوٹ آف اوپتھلمولوجی،حادثات اور ایمرجنسی بلاک اور پیڈیاٹرک سرجری بلاک
1984 میں،2001 میں فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلیٹیشن ڈیپارٹمنٹ اور 2018 میں
سرجیکل ٹاور اسی طرح پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی سرکاری ہسپتال کام
کررہے ہیں جو ہمیں اس وقت کی یاد دلاتے ہیں جب ہم صحت کے شعبہ میں خود کفیل
تھے آج ترقی یافتہ دنیا میں امیر اور غریب کے لیے یکساں صحت کی سہولیات ہیں
اور ہر فرد کو گھر کے دروازے کے پاس بنیادی صحت کی سہولت ہے مگر ہم اس شعبہ
میں بھی دوسرے شعبوں کی طرح پستی کا شکار رہے اور یہ سب کچھ ہمارے ان
حکمرانوں نے ممکن کیا جو عوام کو دکھ تکلیف اور پریشانیوں سے نکالنے کی
بجائے انہیں مزید اس دلدل میں دھکیلتے رہے آخر میں ہمیں اجاڑنے والے کے نام
ایک خوبصورت غزل ۔
کتاب سادہ رہے گی کب تک؟؟
کبھی تو آغاز باب ہو گا۔
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی۔
کبھی تو انکا حساب ہوگا۔
سحر کی خوشیاں منانے والو۔
سحر کے تیور بتا رہے ہیں۔
ابھی تو اتنی گھٹن بڑہے گی۔
کہ سانس لینا عذاب ہو گا۔
وہ دن گیا جب کہ ہر ستم کو۔
ادائے محبوب سمجھ کے چپ تھے۔
اٹَھے گی ہم پر جو اینٹ کوئی۔
تو پتھر اسکا جواب ہو گا۔
سکون صحرا میں بسنے والو۔
ذرا رتوں کا مزاج سمجھو۔
جو آج کا دن سکوں سے گزرا۔
تو کل کا موسم خراب ہو گا۔ |