7 اپریل کا سورج صبحِ روشن کی نوید لے کر اُبھرااور
افطاری کے بعد سپریم کورٹ کے 5 رُکنی بنچ نے نظریۂ ضرورت کو ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے دفن کر دیا۔ معزز عدلیہ نے پانچ صفر سے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ
ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی 3 اپریل کی رولنگ خلافِ آئین ہے اِس لیے اِسے
کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ وزیرِاعظم
آئین کے پابند تھے اِس لیے وہ صدر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس نہیں دے سکتے
تھے، قومی اسمبلی بحال ہے اور تمام وزیر اپنے عہدوں پر بحال ہیں۔ سپیکر
قومی اسمبلی کو فوری اجلاس طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ
9 اپریل کو صبح 10 بجے اجلاس بلا کر تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائی
جائے۔ جب سپریم کورٹ نے 3 اپریل والی صورتِ حال بحال کر دی تو پھر اگر 9
اپریل کو 3 اپریل سمجھ لیا جائے تو یہی آخری دن ہے جس پر تحریکِ عدم اعتماد
پر ووٹنگ مکمل ہونی ہے کیونکہ عدم اعتماد کے پیش ہونے کے 7 دنوں کے بعد
ووٹنگ ہو ہی نہیں سکتی۔ سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کے بعد تحریکِ انصاف کی
ساری منصوبہ بندی ’’ٹائیں ٹائیں فِش‘‘ ہوگئی اور سلسلہ وہیں سے دوبارہ شروع
ہوگیا جہاں سے ٹوٹا تھا۔ یہ عمران خاں کا تُرپ کا آخری پتّہ تھا جو ناکام
ہوگیا۔ جب 3 اپریل کو ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے تحریکِ عدم
اعتماد پر ووٹنگ کروانے کی بجائے خالصتاََغیرآئینی طریقے سے اسمبلی کا
اجلاس غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کیا تب تحریکیوں کے چہرے کھِل اُٹھے، کسی
صحافی نے وزیرِاعظم سے سوال کیا کہ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پھر پہلے کیوں
نہیں بتایا۔ وزیرِاعظم کا جواب تھا کہ اگر پہلے بتا دیتا توپھر اپوزیشن کو
تکلیف کیسے ہوتی۔ بجا کہ اُس وقت نہ صرف اپوزیش بلکہ پوری قوم حیران
وپریشان ہوئی کہ ایک وزیرِاعظم ایساغیرآئینی حکم کیسے دے سکتا ہے۔ یہ بھی
بجا کہ 3 سے 7 اپریل تک اپوزیشن اَن دیکھے انجانے وسوسوں کا شکار رہی لیکن
سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اُس کی خوشیوں کو چار چاند لگ گئے اور
تحریکِ انصاف کے پاس سوائے رونے دھونے کے کچھ باقی نہیں بچا۔ فیصلہ آنے کے
فوراََ بعد زبان دراز فوادچودھری نے اِس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ
سپریم کورٹ کو وہ خط تو دیکھ لینا چاہیے تھا جس کی بنیاد پر تحریکِ عدم
اعتماد کو ختم کیا گیا۔ فوادچودھری جانتا ہے کہ نعیم بخاری نے بینچ کے
سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے منٹس پیش کیے تھے جنہیں معزز بنچ نے
دیکھا اور اُن منٹس میں کسی سازش کی بُو نہ پاکر الگ رکھ دیا۔ 8 اپریل کو
وزیرِاعظم نے بھی قوم سے خطاب کے دوران اِسی خط کا حوالہ دیتے ہوئے وہی کچھ
کہا جو فوادچودھری کہہ چکا تھا۔
وزیرِاعظم نے کہا کہ لوٹوں کے ضمیر خریدے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کو چاہیے
تھا کہ پہلے ہارس ٹریڈنگ پر آرٹیکل 63-A کے تحت فیصلہ کرتی۔ حیرت ہے کہ یہی
لوٹے اگر تحریکِ انصاف میں شامل ہوں تو کہا جاتا ہے کہ ایک اور وکٹ گر گئی
لیکن جب یہ لوٹے اپنی فطرت کے عین مطابق تحریکِ انصاف سے ’’پھُر‘‘ ہو جائیں
تو بے ضمیر کہلاتے ہیں۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم
اعتمادمیں جب اپوزیشن کے 14 منحرف ارکانِ سینٹ نے اُس کے حق میں ووٹ دے کر
تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنایا تب تحریکی حلقوں سے نعرے بلند ہو رہے تھے
کہ اِن منحرفین نے اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیا۔ اب تحریکِ انصاف کے منحرفین
کو بے ضمیر کہا جا رہا ہے ’’جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے‘‘۔خاں صاحب
اکثر فرماتے رہتے ہیں کہ یورپ کو اُن سے بہتر کوئی نہیں جانتا کیونکہ
اُنہوں نے اپنی زندگی کا غالب حصّہ یورپی ممالک خصوصاََ انگلینڈ میں گزارا۔
وہ یورپی ممالک کی جمہوریت کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے لیکن اِنہی جمہوری
ممالک میں وزیرِاعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد عام سی بات ہے۔ آجکل خاں
صاحب کے سر پربھارتی جمہوریت کی مدح سرائی کا جنون سوار ہے۔ اگر خاں صاحب
نے بھارتی جمہوریت کا نظارہ کرنا ہے تو مقبوضہ کشمیر میں تڑپتی لاشوں کو
دیکھیں، عصمت مآب بیٹیوں کے سروں سے چھِنتی ردائیں دیکھیں اور پھر بھارتی
جمہوریت کی تحسین میں زمین آسمان کے قلابے ملائیں۔ تُف ہے ایسی جمہوریت پر۔
ویسے بھارت میں بھی لگ بھگ 27 مرتبہ تحریکِ عدم اعتماد پیش ہوچکی ہے۔ دراصل
خاں صاحب کسی صورت میں ’’اچکن‘‘ اتارنے کو تیار نہیں کیوں کہ اِسی اچکن کے
لیے اُنہوں نے دَردَر کی خاک چھانی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد فوادچودھری نے ٹویٹ کیا ’’اِس بَدقسمت فیصلے نے
پاکستان میں سیاسی بحران میں بہت اضافہ کر دیا ہے۔ فوری الیکشن ملک میں
استحقام لا سکتا تھا۔ بَدقسمتی سے عوام کی اہمیت کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
اب دیکھتے ہیں معاملہ آگے کیسے بڑھتا ہے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ خوش قسمت
ترین فیصلہ ہے جو ان شاء اﷲ قوم کی تقدیر بدل دے گا البتہ یہ فوادچودھری
جیسے لوٹوں کے لیے واقعی بدقسمت فیصلہ ہے کیونکہ اب کوئی بھی سیاسی جماعت
اُسے گھاس ڈالنے کو تیار نہیں۔ وفاقی وزیر شیریں مزاری نے سپریم کورٹ کے
فیصلے کو ’’جوڈیشل کُو‘‘ قرار دیاجبکہ حقیقت یہ کہ حکومت نے قدم قدم پر
آئین کی دھجیاں اُڑانے کی کوشش کرکے آئین سے غداری کا ثبوت دیا اور یہ
پریکٹس تاحال جاری ہے۔ یوں تو تحریکِ انصاف کے رَہنماؤں کی زبانیں میاں
نوازشریف کے بارے میں آگ اُگلتی رہتی ہیں لیکن یہ میاں نوازشریف ہی ہیں
جنہوں نے آئین وقانون کا احترام کرتے ہوئے جے آئی ٹی کا سامنا کیا۔ ایک
انتہائی متنازع فیصلے پر نااہل کیاگیا تو اُنہوں نے آئین وقانون کی بالا
دستی کو چیلنج نہ کیا ۔ بسترِمرگ پر پڑی اپنی اہلیہ کو دیارِغیر میں چھوڑ
کر اپنی بیٹی سمیت سزا بھگتنے کے لیے وطن لوٹ آئے۔ دوسری طرف عمران خاں اور
حواری آئین وقانون کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ 9 اپریل کے قومی اسمبلی کے
اجلاس کو سبوتاژ کرنے کے لیے مختلف منصوبے بنائے جا رہے ہیں حالانکہ سپریم
کورٹ کا یہ واضح حکم ہے کہ 9 اپریل کو بہرصورت تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ
ہوگی اور آئین کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ وزیرِ قانون فوادچودھری کہہ رہا ہے کہ
تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ اگلے ہفتے تک جا سکتی ہے۔ اُس نے کہا کہ 9
اپریل کو تحریکِ عدم اعتماد پر بحث کا آغاز ہوگا اور بحث سے قبل سیکرٹری
خارجہ ایوان کو خفیہ خط پر بریفنگ دیں گے۔ شنید ہے کہ حکومتی ارکانِ اسمبلی
عمران خاں کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر لمبی لمبی تقریریں کریں گے تاکہ
ووٹنگ کی نوبت ہی نہ آسکے۔ یہ بچگانہ حرکت سپریم کورٹ کے فیصلے کا مُنہ
چڑانے کے مترادف ہے۔ عمران خاں کے مداحوں کو یاد دلاتے چلیں کہ ماضی قریب
میں یہ کپتان ہی تھا جس نے کہا ’’یہ کیسی حرکتیں ہیں؟ اگر سپریم کورٹ اِن
(اپوزیشن) کی مرضی کے فیصلے نہیں کرتی تو یہ کہتے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کے
فیصلے کو نہیں مانتے۔ یہ تو ملک دشمنی ہے، بند کرو اپنے ملک سے دشمنی‘‘۔ اب
وہی کپتان کہہ رہا ہے کہ قوم اتوار 10 اپریل کو عشاء کی نماز کے بعد سڑکوں
پر نکلے اور بھرپور احتجاج کرے‘‘۔ کیا یہ ملک دشمنی نہیں؟۔ تلخ حقیقت یہی
کہ کپتان شیروانی کے حصول کی خاطر سب کچھ داؤ پر لگا نے کو تیار ہے۔ آج
کپتان یہ کہہ رہا ہے کہ وہ شہبازشریف کو ’’اچکن‘‘ نہیں پہننے دے گا لیکن
مدِنظر رہے کہ پوری اپوزیشن آئین وقانون کے عین مطابق تگ ودَو میں ہے جسے
کسی بھی صورت میں غیرجمہوری عمل قرار نہیں دیا جا سکتا جبکہ خاں صاحب اور
اُن کے حواریوں نے کبھی جمہوریت کی پرواہ کی نہ آئین وقانون کی۔ اب صورتِ
حال یہ ہے کہ ہماری نظریں ٹی وی سکرین پر ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ
حکومتی بنچوں کی طرف سے طے شدہ تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
ساڑھے10 بجے بلایا گیا اجلاس تھوڑی ہی دیر بعد بغیر کسی وجہ کے ساڑھے 12
بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ شاید حکمران یہ چاہتے ہوں کہ ایسے نامعقول تاخیری
حربوں سے اپوزیشن اتنی زِچ ہو جائے کہ ہنگامہ آرائی پر اُتر آئے اور سپیکر
کو اجلاس ملتوی کرنے کا بہانہ مل جائے۔ساڑھے 12 کا کہہ کر 2 بجے تک تو
سپیکر نے اسمبلی کا اجلاس شروع نہیں کیا۔ پتہ نہیں تحریکِ انصاف کی حکومت
ایسی غیرآئینی اور غیرقانونی حرکات کرکے قوم سے کس بات کا بدلہ لے رہی ہے۔
یہ سب کچھ صریحاََ آئین سے غداری ہے، ایسی آئین شکنی جس کی کبھی کسی آمر نے
بھی ہمت نہیں کی لیکن غداری کے الزامات اپوزیشن پر۔ اب دیکھتے ہیں کہ
تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوتی ہے یا تحریکِ انصاف اپنے ماتھے پر غداری
کا لیبل چپکاتی ہے۔
|