یہ نظام اور تبدیلی

پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیاسی بحران کچھ حد تک تھم تو گیا ہے مگر اس کے آفٹر شاکس کا سلسلہ نہیں معلوم کب تک جاری رہے۔ متحدہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار شہباز شریف 174 ووٹ لیکر وزیر اعظم منتخب ہوگئے ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے اس تمام انتخابی پراسس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسمبلیوں سے استعفے دینے کا اعلان کیا ہے اس سے قبل شاہ محمود قریشی نے ایک بار پھر تحریک عدم اعتماد کے پیچھے عالمی سازش کا ذکر کرتے اپوزیشن اتحادی جماعتوں پر کڑی تنقید کی۔ تاہم نومنتخب وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے حلف اٹھانے کے بعد جہاں تمام اتحادیوں کا اسی طرح اتحاد و یکجہتی کے ساتھ باقی ماندہ ڈیرہ سالہ مدت پوری کرنا ایک چیلنج ہے وہاں اس سے بھی بڑھ کر بھوک، غربت ، بےروزگاری ، مہنگائی ، معاشی عدم استحکام سمیت کئی ایک چیلنج موجود ہیں اور پھر عمران خان کا آخری دنوں کا وہ بیانیہ جس نے ملک کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا ہے حکومت کی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے صورتحال اگلے چند دنوں میں واضح ہوکر سامنے آجائے گی دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں نئی حکومت کیا حکمت عملی اپناتی ہے اور پارلیمنٹ میں نہ بیٹھنے کا اعلان کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کیا لائحہ عمل مرتب کرتی ہے۔ مگر اس سے پہلے یہ سوال ہمیشہ جواب کا منتظر رہے گا کہ آخر اس کی وجوہات اور پس منظر کیا تھا کہ اپوزیشن نے تحریک اعتماد پیش کر کے عمران خان کو اقتدار سے الگ کر دیا یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو اقتدار سے علیحدہ کیا گیا بلکہ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں پاکستان کا کوئی بھی منتخب وزیر اعظم آج تک اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا البتہ ایک تبدیلی ضرور آئی ہے کہ 90 کی دہائی تک 58 2بی کے کلہاڑے سے پوری اسمبلی پر وار کیا جاتا تھا مگر 2000 کے بعد کچھ تبدیلی یہ آئی ہے کہ اسمبلی تو برقرار رہتی ہے مگر وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر پاتے۔ جبکہ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ بظاہر تو منتخب وزرائے اعظم کی تبدیلی کے پیچھے سیاسی قوتیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتی ہیں مگر در حقیقت ان سیاسی قوتوں کے پیچھے کچھ غیر سیاسی قوتیں ضرور شامل ہوتی ہیں جو سامنے تو نہیں آتیں مگر ان کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں مسلم لیگ کے سابقہ دور حکومت میں پانامہ لیکس سے شروع ہونے والی کہانی اقامے پر ختم ہوئی تو میاں نواز شریف کو اقتدار سے الگ کر دیا گیا بظاہر تو یہ ساری ایک قانونی کارروائی تھی مگر اس سے پہلے ایک ماحول بنایا گیا تھا بالکل اسی طرح جیسے عمران خان کو ہٹانے کے لیے آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کی گئی۔ تاہم اس وقت پاکستان مسلم لیگ نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا جس کا واضح پیغام یہی تھا کہ غیر سیاسی قوتیں جو عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر آنے والے حکمرانوں کو جب چاہتی ہیں اقتدار سے الگ کر دیتی ہیں اب تمام سیاسی قوتیں مل کر ان کا مقابلہ کریں گی اور عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر آنے والوں کے مینڈٹ کا احترام کیا جائے گا مگر آج پھر عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے پھر وہی کھیل کھیلا گیا جس میں سیاسی جماعتوں کے سیاسی محرکات اپنی جگہ مگر غیر سیاسی قوتوں کے معاملات کا بھی گہرا عمل دخل ہے کل جب مسلم لیگ کی حکومت کے خلاف مہم چل رہی تھی تو پاکستان تحریک انصاف مہرہ تھی اور آج جب تحریک انصاف کی حکومت گرائی گئی تو پاکستان مسلم لیگ نواز سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں مہرے کی طور پر کام کر رہی ہیں کل تحریک انصاف کو لانے کے لیے ماحول بنایا گیا اور آج تحریک انصاف کو نکالنے کے ماحول بنایا گیا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ جن کے معاملات طے ہوجاتے انہیں اپنے ہر عمل میں آئین قانون اور جمہوریت نظر آتی ہے اور جن کے معاملات بگڑ جاتے ہیں انہیں ہر کام میں ملک اور قوم کے خلاف ہر طرف سازش نظر آتی ہے مگر اس تمام صورتحال میں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جب تک سیاسی قوتیں غیر سیاسی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلتی رہیں گی اس وقت اس ملک میں نہ تو حقیقی جمہوریت آسکتی ہے اور نہ حقیقی عوامی حکومت آسکتی ہے۔ کیونکہ یہ فرسودہ اور استحصالی نظام اشرافیہ کا نظام ہے جو طاقتور کو مزید طاقتور بناتا ہے جبکہ عام اور کمزور لوگوں کو کچل دیتا ہے جبکہ یہ تمام سیاسی جماعتیں اس نظام سے مفاد اٹھاتی ہیں یہی وجہ ہے کبھی بھی نظام کی تبدیلی کی بات نہیں کرتیں اور اگر کرنا بھی چاہیں تو اس نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی ممکن نہیں یہی وجہ عمران خان کی تبدیلی الیکٹیبلز کے ہاتھوں اپنی موت آپ مر گئی اب بھی اگر وہ دو تہائی اکثریت کے خواب دیکھ رہے ہیں تو یہ ان کے خواب ہی ہیں اس کی تعبیر صرف اسی صورت ممکن ہے یا تو سیاسی قوتیں غیر سیاسی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنا بند کر دیں یا پھر اس فرسودہ نظام کے خلاف سیاسی قوتیں متحد ہوں ورنہ اس نظام کی حالت تو یہ ہے ایک طرف چھوٹے میاں جب وزیر اعظم کا انتخاب لڑ رہے تھے تو دوسری طرف منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹ کیس میں ان پر فرد جرم عائد ہونے جارہی تھی اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا اور پھر جن عدالتوں میں دن کے اوقات میں انصاف نہیں مل پاتا وہ رات کی تاریکی میں نہ جانے کیا انصاف کرنا چاہتی تھی ایسی صورتحال میں یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی حکومتیں تبدیل ہوجائیں پارٹیاں تبدیل ہوجائیں چہرے تبدیل ہوجائیں مگر اس ملک اور قوم کا نصیب اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتا جب تک یہ نظام تبدیل نہیں ہوگا۔

 

Mazhar Iqbal Khokhar
About the Author: Mazhar Iqbal Khokhar Read More Articles by Mazhar Iqbal Khokhar: 57 Articles with 37606 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.