فتراکِ فرعون اور اِدراکِ مُوسٰی
(Babar Alyas , Chichawatni)
#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالدخان ،
اٰیت 17 تا 32 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ولقد
فتنا قبلھم قوم
فرعون وجاءھم رسول
کریم 17 ان ادواالی عباد اللہ
انی لکم رسول امین 18 وان لاتعلوا
علی اللہ انی اٰتیکم بسلطٰن مبین 19 وانی
عذت بربی وربکم ان ترجمون 20 وان لم تؤمنوالی
فاعتزلون 21 فدعا ربه ان ھٰؤلٓاء قوم مجرمون 22 فاسر
بعبادی لیلا انکم متبعون 23 واترک البحررھوا انھم جند مغرقون
24 کم ترکوامن جنٰت و عیون 25 وزروع و مقام کریم 26 ونعمة کانوا
فیہا فٰکھین 27 کذٰلک واورثنٰہاقومااٰخرین 28 فمابکت علیھم السماء والارض
وماکانوامنظرین 29 ولقد نجینا بنی اسرائل من عذاب المھین 30 من فرعون انهٗ
کان عالیا من المسرفین 31 ولقد اخترنٰھم علی علم العٰلمین 32
ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ مُشرکینِ عرب کی اِس سرکش قوم
سے پہلے فرعونِ مصر کی اُس سرکش قوم کو بھی ہم نے سرکشی کی اسی چکی میں پیس
کر اُس وقت فنا کے گھاٹ اُتار دیا تھا جس وقت اُس قوم کے پاس ہمارا وہ عالی
قدر رسُول آیا تھا جس نے ہمارے حُکم سے اپنی صداقت و امانت کے قوی دلائل کے
بعد مصر کی اُس حاکم قوم سے اپنی محکوم قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا تھا
لیکن اُس حاکم قوم نے اُس کی اُس محکوم قوم کو آزادی دینے کے بجاۓ ہمارے
اُس رسُول کے ساتھ طاقت آزمائی کا فیصلہ کر لیا تھا اور اُس مُشکل وقت میں
جب ہمارے اُس رسُول نے اُس ظالم قوم کے اُس ظلم کے خلاف ہم سے مدد کی
درخواست کی تھی تو ہم نے اُس سے کہا تھا کہ تُم اپنی قوم کے ساتھ چاند کی
اِس روشن شب میں اِس ڈھلے ہوۓ سمندر کی چھوڑی ہوئی خُشک زمین پر چلتے ہوۓ
اِس سمندر کے اِس ساحل سے گزر کر اِس سمندر کے اُس ساحل تک پُہنچ جاؤ جو
قومِ فرعون کی دَسترَس سے بہت دُور ہے اور جب فرعونِ مصر اپنے لشکر کے ساتھ
ہمارے اُس رسُول کے تعاقب میں نکلا تھا تو ہم نے اُس کو اور اُس کے لشکر کو
اُسی سمندر کے ایک چڑھے ہوۓ سمندری طوفان کے سامنے پُہنچا کر اُسی سمندر
میں غرق کر دیا تھا جس سمندر کے ایک خُشک راستے پر مُوسٰی و قومِ مُوسٰی کو
چلا کر سلامتی کے ساتھ اُس کے دُوسرے کنارے تک پُہنچادیا تھا اور اِس طرح
مُوسٰی و قومِ مُوسٰی کے وہ سارے دُشمن اُس رات اَچانک ہی اپنے سارے باغات
و محلّات چھوڑ کر اِس طرح فنا ہوگۓ تھے کہ زمین و آسمان کے درمیان اُن کی
اُس ذلّت بھری موت پر کوئی ایک بھی رونے والا مُتنفس موجُود نہیں تھا اور
ہم نے اپنے عذاب سے مرنے والی اِس قوم کے بعد ایک دُوسری قوم کو اُس کے
باغات و محلّات کا وارث بنا دیا تھا اور اسی طرح تاریخ کی ہر تحقیق سے اِس
اَمر کی بھی تصدیق ہو چکی ہے کہ ہم نے مُوسٰی کی جس قوم کو فرعون کی غلامی
کی ذلّت سے نجات دی تھی اُس قوم کے اُن چند گنے چنے لوگوں کو ہی عالَم کی
دُوسری اقوام کے درمیان عروج و کمال بخشا تھا جو لوگ اپنے علم و ہنر کے
اعتبار سے اُس قوم کے بہترین لوگ تھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم میں جس لفظِ فتنہ کا 29 بار استعمال ہوا ہے وہ لفظ فعل { فتن
یفتن } سے ایک حاصل مصدر ہے جس کا عربی سے اُردو زبان میں آنے کے بعد غلط
طور پر جو غلط مفہوم رائج ہو چکا ہے وہ چالاکی و بیباکی ، کذب و دروغ یا
پھر جُھوٹ اور بے ایمانی وغیرہ ہے لیکن عربی کے اِس عربی لفظ کا عربی زبان
میں جو جائز و مُستعمل مفہوم ہمیشہ سے رائج و مُستعمل رہا ہے اُس کا حاصل
یا تو ایک عام حوالے سے وہ ایک عام آزمائش ہوتی ہے جو کسی انسان پر آتی ہے
یا پھر اُس کے مال و اَولاد اور اُس کے دین و ایمان کے خاص حوالے سے ایک
خاص آزمائش ہوتی ہے جو اُس انسان پر آتی ہے اور اُس آزمائش کا مقصد اُس
زیرِ آزمائش انسان کی خوابیدہ رُوحانی قوتوں کو جگانا اور اُن قوتوں کے
ذریعے اُس انسان کو مُثبت حرکتِ حیات و عملِ حیات کے قابل بنانا ہوتا ہے ،
قُرآنِ کریم نے جن 29 مقامات پر اِس آزمائش کا ذکر کیا ہے اُن 29 مقامات
میں سے سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 53 ، سُورَہِ طٰهٰ کی اٰیت 85 ، سُورَہِ
عنکبوت کی اٰیت 3 ، سُورَہِ صٓ کی اٰیت 34 اور سُورَہِ دُخان کی اٰیت 18 کے
پانچ مقامات اِس لحاظ سے زیادہ قابلِ ذکر ہیں کہ اِن پانچ اٰیات میں سے
پہلی اٰیت میں انسانی آزمائش کا وہ قانُونِ عام بیان کیا گیا ہے جو آزمائش
کُچھ انسانوں کی طرف سے کُچھ انسانوں پر آتی ہے ، دُوسری اٰیت میں اُس
قانُونِ آزمائش کا ذکر کیا گیا ہے جو آزمائش قومِ مُوسٰی کے کُچھ افراد کے
مَنفی عمل سے قومِ مُوسٰی کے کُچھ افراد پر ایک مَنفی عمل کی صورت میں ظاہر
ہوئی تھی ، تیسری اٰیت میں عہدِ ماضی کی ایک قوم پر گزرنے والی ایک آزمائش
کا ذکر ہے اور اُس آزمائش کو عہدِ نبوی کی اُس سر کش قوم کی عبرت و بصیرت
کے لیۓ بیان کیا گیا ہے جو قومِ فرعون کی طرح کی ایک سرکش قوم تھی ، چوتھی
اٰیت کی چوتھی مثال وہ آزمائش ہے جس آزمائش سے سلیمان علیہ السلام گزرے تھے
اور اِس مثال سے یہ اَمر بھی مُبرہن ہو گیا ہے کہ فتنہ کا معنٰی اُردو زبان
میں رائج مفہوم کے مطابق چالاکی و بیباکی یا جُھوٹ اور بے ایمانی نہیں ہے
بلکہ اِس کا عربی مفہوم وہ مُطلق آزمائش ہے جو عام انسانوں پر بھی آتی ہے
اور خاص انسانوں پر بھی آتی رہتی ہے اور پانچویں اٰیت میں جس آزمائش کا ذکر
ہوا ہے وہ فرعون کے اُس جبر کی آزمائش ہے جو آزمائش قابلِ فہم ہونے کے
باوجُود بھی فرعون کے لیۓ ہمیشہ ہی ناقابلِ فہم بنی رہی اور اُس کی خوبیدہ
قوتیں بیدار ہو کر اُس کو راہِ راست پر نہ لاسکیں اور وہ نہ چاہنے کے
باوجُود بھی ایک عبرتناک اَنجام سے دوچار ہو کر فنا ہو گیا جبکہ اِسی اٰیت
کے ایک دُوسرے پہلو سے دُوسری آزمائش مُوسٰی علیہ السلام کے اُس صبرِ پیہم
کی آزمائش ہے جس صبرِ پیہم کے نتیجے میں اُن کی تحریکِ آزادی کامیابی سے
ہمکنار ہوئی ، قُرآنِ کریم نے فتراکِ فرعون اور اِدراکِ مُوسٰی کے اِس قصے
میں آنے والے فتنے کے اِس لفظ کا مُحوّلہ بالا پانچ اٰیت میں جمع مُتکلّم
صیغے { فتنا } کے ساتھ جو استعمال کیا ہے وہ اللہ تعالٰی کے اُس خود کار
فطری نظامِ عمل کے حوالے سے استعمال کیا ہے جو خود کار نظامِ عمل اُس کے
اِس عالَم میں اُس کے ایک مقررہ ضابطے کے تحت ہمہ وقت جاری رہتا ہے اور اُس
ہمہ وقت جاری رہنے والے ضابطے کے تحت عالَم میں انسانی اعمال کے وہ فطری
نتائجِ اعمال ظاہر ہوتے رہتے جن نتائج سے کُچھ انسان عبرت حاصل کر کے اپنا
قبلہِ عمل درست کرلیتے ہیں اور کُچھ انسان کوئی عبرت حاصل کیۓ بغیر جہالت و
بے بصری کی اُسی راہ پر چلتے رہتے ہیں جس راہ پر چلنے کے وہ عادی ہو چکے
ہوتے ہیں اور اِس مقام پر اِس آزمائش سے اِس کی حقیقی مُراد فرعون اور اُس
کی قوم کی وہ آزمائش ہے جس کا آزمائش کا اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں
صراحتًہ ذکر موجُود ہے اور اِس سلسلہِ کلام کا نتیجہِ کلام یہ ہے کہ آزمائش
نظامِ فطرت کا ایک حصہ ہے جس کا مقصدِ اعلٰی اُن تاریخی تمام اُمور سے عبرت
حاصل کرنا ہے جن تاریخی اُمور کا اِس سُورت کی اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا
میں ذکر کیا گیا ہے !!
|
|