غزوہ بدر سترہ رمضان دو ہجری بمطابق تیرا مارچ چھ سو چو
بیس ء کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں اور ابوجہل کی
قیادت میں مکہ کے قبیلہ قریش اور دیگر عربوں کے درمیان میں مدینہ میں جنوب
مغرب میں بدر نامی مقام پر ہوا اسے غزوہ بدر کبری بھی کہتے ہیں۔ قریش مکہ
نے مدینہ کی اسلامی ریاست پر حملہ کر نے کا فیصلہ اس لیے بھی کیا کہ جو
راستہ مکہ سے شام کی طرف جاتا تھا مسلمانوں کی زد میں تھا ۔اس راستہ کی
تجارت سے اہل مکہ لاکھوں اشرفیاں سالانہ حاصل کرتے تھے ۔ہجرت کے بعد
مسلمانوں کی سب سے پہلی لڑائی غزوہ بدر کے مقام پر لڑی جانے والی جنگ ہے جس
کو تاریخ معرکہ بدر یا غزوہ بدر سے یاد کرتی ہے ۔اس غزوہ کے موقع پر قریش
مدینہ منورہ کو تباہ کرنے اور اسلام کو مٹانے کے لیے اس طرح باہم اور اکٹھا
ہوئے تھے ۔کہ ان کا پورا سراپا لوہے کے ہتھیاروں سے آراستہ تھا اور ان کی
تعداد ایک ہزار سے زائد تھی ۔ ان کو اور ان کے فوجی اور جنگی طاقت کے سامان
کو دیکھ کر کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس معرکہ میں انکے مقابل جس
میں صرف تین سو تیرا مسلمان تھے ان کے ہاتھوں شکست ہو جائے گی ۔ بدر کی
لڑائی سب سے افضل اور سب سے زیادہ مہتم بالشان لڑائی ہے اس لئے کہ اس میں
مقابلہ نہایت سخت تھا مسلمانوں کی جماعت نہایت قلیل کل تین سو تیرا آدمی
تھے ۔جن کے پاس صرف تین گھوڑے آٹھ تلواریں اور ستر اونٹ تھے ۔جنگ بدر میں
مسلمان ایک اونٹ پر تین تین سوار ہوتے تھے جب نبی کریم ؐ کی باری آتی ہے تو
آپ کے دونوں ساتھی آپ سے کہتے کہ آپ سوار ہو جائیں ہم آپ کی باری بھی پیدل
چلیں گے ۔آپ فرماتے تم دونوں چلنے میں مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں اور مجھے
بھی تمہاری طرح اجر کی ضرورت ہے ۔ راستے میں جاتے وقت ایک انصار کے آدمی نے
کہا اے خدا کی نبی ؐ آپ نے جو ارادہ کیا ہے اسے پورا کیجئے اس ذات کی قسم
جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ اگر آپ اس سمندر کی چوڑائی میں
پار کرنے کے لئے گھس جائیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ اس میں گھس جائیں اور ہم
میں سے ایک آدمی بھی باقی نہیں رہے گا ۔اس معرکہ میں باپوں نے بیٹوں کے
ساتھ اور بھائیوں نے بھائیوں کے ساتھ جنگ کی کیونکہ اکثر لوگوں کے بھائی
باپ وغیرہ مشرکین کے ساتھ تھے ۔یعنی وہ مسلمان نہیں تھے اصولوں نے ان کے
درمیان اختلاف ڈال دیا اور تلواروں نے ان کے درمیان فیصلہ کیا ۔ بدر کے روز
مسلمانوں نے شہادت کے حصول میں ایک دوسرے سے سبقت کی ۔ اور مشرکین کا یہ
حال تھا کہ ان کا ہر آدمی چاہتا تھا کہ اس کا ساتھی اسے پہلے مرے ۔اور شہید
نزع کے وقت یہ الفاظ دہراتا کہ اے میرے رب میں نے تیرے پاس آنے میں جلدی کی
ہے تاکہ تو راضی ہو جاۓ ۔ اگر مسلمانوں کے مقابلہ میں مشرکین کی تعداد
دیکھی جائے تو انکی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی جن میں سو گھوڑے سات سو
اونٹ اور لڑائی کا کافی سامان تھا ۔اسی وجہ سے وہ لوگ نہایت اطمینان کے
ساتھ باجوں اور گانے والے عورتوں کے ساتھ میدان میں آئے تھے ۔جب حضورصلی
اللہ علیہ وسلم نے دونوں جماعتوں کا اندازہ فرمایا تو دعا مانگی ۔یا اللہ
یہ مسلمان ننگے پاؤں ہی تو ہی ان کو سواری دینے والا ہے۔یہ ننگے بدن ہیں تو
ہی ان کو کپڑا پہنانے والا ہے ۔یہ بھوکے ہیں تو ہی ان کا پیٹ بھرنے والا ہے
یہ فقیر ہے تو ہی ان کو غنی کرنے والا ہے۔ اے خدا یہ قریش ہیں اپنے سامان
غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں ۔اے اللہ اب تیری
وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا اے اللہ اگر آج یہ مٹھی بھر
جماعت ہلاک ہو گئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کہیں نہیں ہوگی۔ چنانچہ
یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالی نے فرشتوں کو بھی اس جنگ میں مدد کے لیے
بھیجا ۔اس غزوہ سے پہلے حضور ؐ نے ایک خواب دیکھا تھا جس میں اس جنگ میں
غزوہ کی لڑائی کے نقشہ کی وضاحت کی گئی تھی اس نقشہ میں کفار کی طاقت اور
تعداد کم دکھائی گئی تھی تاکہ مسلمان پس ہمت نہ ہو جائیں ۔ اور اسی جنگ کے
نقشہ کے بارے میں اللہ تعالی سورۃ انعفال میں فرماتا ہے جس کا ترجمہ ہے ۔۔۔
خدا کے احسان کو یاد کرو جب وہ تمہارے خواب میں ان کافروں کو تھوڑا دکھا
رہا تھا اور اگر وہ تم کو زیادہ کر کے دکھاتا تو تم ہمت ہار دیتے اور لڑائی
کے بارے میں آپس میں اختلاف کرتے رہتے لیکن خدا نے اس سے تمہیں بچا لیا بے
شک خدا سینوں کے راز جانتا ہے ۔۔۔چنانچہ اس غزوہ میں مسلمانوں کو نہ صرف
تاریخی کامیابی ملی بلکہ اسلام کو پھیلنے کا پوری طاقت سے موقع ملا ۔ جنگ
بدر کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے قیدیوں کے انجام
کے متعلق مشورہ طلب کیا ۔تو حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا میں
چاہتا ہوں کے آپ میرے فلاں قریبی کو میرے کنٹرول میں دے دیں تاکہ میں اسے
قتل کروں تا کے اللّه کو یہ معلوم ہو جاۓ کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لئے
کوئی محبت نہیں ہے ۔ غزوہ بدر اسلام اور کفر کا پہلا اور اہم ترین تصادم
تھا اس سے دنیا پر واضح ہو گیا تھا ۔ کہ نصرت الہی کی بدولت مومنین اپنے سے
کئی گنا فوج کو شکست دے سکتے ہیں ۔غزوہ بدر میں شامل مسلمانوں نے جس قوت
ایمانی کا مظاہرہ کیا اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کے باپ بیٹے کے
خلاف اور بیٹا باپ کے خلاف بھانجا ماموں کے خلاف اور چچا بھتیجے کے خلاف
میدان میں اترا تھا ۔حضرت عمر نے اپنے ماموں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا تھا
۔فتح جنگ کے خاتمے پر خدا اور رسول کے حکم کے تحت مال غنیمت کی تقسیم ہوئی
۔مال غنیمت کی اتنی پرامن اور دیانتدارانہ تقسیم کی مثال کم ہی ملتی تھی ۔
آج چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود غزوہ بدر کا قصہ جب آنکھوں کے سامنے سے
گزرتا ہے ۔تو جس کے دل میں ایمان ہوتا ہے وہ خود کو اس جنگ میں شامل ہو نے
کی تمنا ضرور کرتا ہے ۔ کہ کیسے تین سو تیرا مسلمانوں نے ہزاروں کی تعداد
کو دھول چٹائی تھی ۔ اب بھی کئی جگہ مسلمانوں پر ظلم ہو رہے ہیں اور
مسلمانوں کو اپنے اندر وہی ایمان جگانے کی ضرورت ہے ۔
|