|
|
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں
نئی حکومت قائم ہوچکی ہے اور نئے وزیراعظم شہباز شریف اپنی کابینہ بھی
تشکیل دے چکے ہیں- تاہم ملک بھر میں یہ چہ مگوئیاں بھی جاری ہیں کہ شائد یہ
حکومت اپنی ڈیڑھ سالہ مدت سے پہلے ہی ختم ہوسکتی ہے۔ |
|
آئیے ایک نظر دیکھتے ہیں کہ کن وجوہات کی بناء پر حکومت
کی قبل از وقت رخصتی ممکن ہوسکتی ہے۔ |
|
غیر فطری اتحادی |
کہتے ہیں کہ سیاست میں دوستی اور دشمنی کبھی بھی ہمیشہ کیلئے نہیں ہوتی ،
یہاں مفادات کیلئے اختلافات دوستیوں میں کب بدلتے ہیں کچھ پتا نہیں چلتا،
ایسا ہی کچھ عمران خان کی حکومت ختم کرنے کیلئے دیکھنے میں آیا جب دیرینہ
مخالف پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن باہم شیرشکر ہوتے دکھائی دیئے- تاہم یہ غیر
فطری اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے اختلافات کا شکار رہا
اور سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، بی
اے پی اور دیگر کا اتحاد زیادہ دیر قائم رہنا مشکل ہے۔ |
|
طاقت کا توازن
|
سیاست میں اتحاد تو ایک عام سے بات ہے لیکن یہاں اصل امتحان طاقت کے
توازن کا ہوتا ہے جیسا کہ پی ڈی ایم کے وقت شاہد خاقان عباسی کے چیئرمین
پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کو جاری کئے گئے ایک شو کاز نوٹس نے اتحاد
پارہ پارہ کردیا تھا اور پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کرلی
تھی۔ |
|
|
|
وازرتوں کی تقسیم |
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے
میں تمام جماعتوں نے مل کر کردار ادا کیا تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم
لیگ ن اس وقت سب سے بڑی حکومتی جماعت ہے اور یہی وجہ ہے وزارت عظمیٰ اور
اہم وزارتیں بھی ن لیگ کے حصے میں آئی ہیں- جبکہ دوسری بڑی جماعت اور
عمران خان کی حکومت گرانے میں سب سے زیادہ فعال کردار ادا کرنے والی
پیپلزپارٹی دوسرے نمبر پر موجود ہے۔ وفاقی کابینہ کی تشکیل میں دونوں بڑی
جماعتوں میں اختلافات کی خبریں زبان زدعام ہیں کہ شائد یہی وجہ ہے کہ
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے وزیرخارجہ کا حلف نہیں لیا اور
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے اختلافات جلد بڑی خلیج پیدا
کرسکتے ہیں۔ |
|
اسمبلی میں نمبرز گیم |
قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس 84،
پیپلزپارٹی کے پاس56، متحدہ مجلس عمل کے پاس 15، بی این پی ملی کے پاس4،
عوامی نیشنل پارٹی کے پاس ایک اور دو آزاد ارکان کے علاوہ متحدہ قومی
موومنٹ پاکستان کی 7، بی اے پی کی 4 اور آزاد ارکان کی حمایت ملنے کے بعد
مجموعی تعداد 178 ارکان کی حمایت حاصل تھی تاہم شہباز شریف کے انتخاب میں
174 ووٹ ملے ۔ |
|
|
|
اعتماد کا ووٹ سب سے بڑا خطرہ |
اب ایم کیو ایم کے ایک رکن اقبال محمد علی کے انتقال کے
بعد حکومتی ووٹ 173 رہ گئے ہیں جبکہ حکومت بنانے کیلئے 342 کے ایوان میں
172 کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے تاہم شہباز شریف کی حکومت صرف ایک ووٹ پر
کھڑی ہے اور ایسے میں صدر مملکت حاصل اختیارات کے تحت کسی بھی وقت اعتماد
کے ووٹ کا کہہ دیتے ہیں تو حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اور اگر
شہباز شریف 172 ارکان کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو حکومت ختم
ہوسکتی ہے۔ |