میرا مذہب مجھے غیر مسلموں کی جنگ میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتا، محمد علی کلے کو ان الفاظ کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی؟

image
 
اکثر ہماری نظروں سے ایسی خبریں گزرتی رہتی ہیں کہ غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور اکثر اوقات ہم اس خبر کو سن کر چند لمحے تک اس فرد کی قسمت پر رشک کرتے ہیں اور اس کے بعد آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن کسی غیر مسلم کے اسلام قبول کرنے کا مطلب اس کی زندگی کو یکسر تبدیل ہو جانا ہوتا ہے۔ وہ ایک نئی شناخت اپنا لیتا ہے اور ایسے موقع پر اسے شدید ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو کہ آسان نہیں ہوتا اور اگر کوئی انسان بین الاقوامی شہرت کا بھی حامل ہو تو اس صورت میں اس کا اسلام قبول کرنے کا فیصلہ اور بھی دشوار ہو سکتا ہے-
 
محمد علی کلے کے اسلام قبول کرنے کی وجوہات
امریکہ سے تعلق رکھنے والے کیشیز کلے ایک سیاہ فام امریکی باکسر تھے جس نے 1960 میں امریکہ کے لیے اولمپک میں گولڈ میڈل بھی جیتا تھا۔ یہ امریکی معاشرے کا وہ وقت تھا جب کہ ملک بھر میں سیاہ فام افراد اپنے حقوق کی آواز بلند کر رہے تھے اور سفید فام افراد ان کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے تھے-یہی وجہ تھی کہ گولڈ میڈل جیتنےکے باوجود کیشیز کلے کسی بھی قسم کی سرکاری حوصلہ افزائی سے محروم رہا یہاں تک کہ ایک بار جب کیشیز کلے اپنے دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے ایک ریسٹورنٹ گئے تو انتطامیہ نے انہیں اور ان کے دوستوں کو سیاہ فام ہونے کے سبب اندر داخل ہونے سے بھی روک دیا-
 
اس بات نے انہیں بہت دل برداشتہ کر دیا تھا اور انہوں نے اپنا گولڈ میڈل اٹھا کر دریا میں پھینک دیا اور اپنے اندر کے غصے کو باکسنگ میں نکالنا شروع کر دیا اور معاشرے کے اس عدم توازن اور رنگت کی بنیاد پر ہونے والی تفریق سے پریشان رہنے لگے-
 
image
 
اسلام قبول کرنے کا اعلان
ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئين بننے کا سال کیشیز کلے کی شہرت اور مقبولیت میں اضافے کا سال تھا مگر اسی سال اسلام کی قبولیت کے اعلان نے ان کی شہرت میں مذيد اضافہ کر دیا۔ اور انہوں نے محمد علی کلے کے نام کو اپنانے کا بھی اعلان کر دیا- اب وہ ایک باکسر ہونے کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا کے ان لوگوں کے لیے ایک مثال بھی بن گئے جو رنگت کی بنیاد پر تفریق کا شکار تھے-
 
اسلام کی قبولیت کے بعد مسائل کا آغاز
محمد علی کی زندگی اب جیسے ترقی یافتہ ملک میں دوہرے مسائل کا شکار ہو گئی ایک جانب تو ان کو سیاہ فام ہونے کے سبب پہلے کی تفریق کا سامنا تھا اور اب اسلام قبول کرنے کے سبب ان کے لیے پریشانیاں بڑھنے لگی تھیں-
 
سال 1966 میں جب امریکہ اور ویتنام کی جنگ کا آغاز ہوا تو اس وقت ہر امریکی شہری کو اس بات پر پابند کیا گیا کہ وہ جنگ میں حصہ لے گا لیکن انہوں نے اس جنگ میں حصہ لینے سے انکار کر دیا-
 
ان کا کہنا تھا کہ میرا مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں کسی ایسی جنگ میں حصہ لوں جس کی اسلام میں اجازت نہ ہو ساتھ ہی میں انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ غیر مسلموں کی جنگ میں حصہ لینا اسلام میں جائز نہیں ہے-
 
image
 
جنگ میں حصہ نہ لینے کا ردعمل
امریکی حکومت کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ ایک سیاہ فام نو مسلم ان کے حکم کی تکمیل سے انکار کر رہا تھا جس کے نتیجے میں ان کو سخت ترین ردعمل کا سامنا کرنا پڑا- ان کے جیتے گئے سارے انعامات و اعزازات ان سے چھین لیے گئے-
 
ان کو باقاعدہ مجرم قرار دے دیا گیا اور جرمانہ بھی لگا دیا گیا جس کے بعد محمد علی کلے سے حکومت کے ان اقدامات کے خلاف طویل قانونی جنگ کا آغاز کر دیا جو کہ تقریباً چار سال تک جاری رہی۔ چار سال بعد عدالت نے محمد علی کلے کے اصولی مؤقف کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ان کے اوپر لگائے گئے سارے الزامات بھی واپس لے لیے گئے-
 
اور اس کے بعد محمد علی کلے کو دوبارہ سے باکسنگ رنگ میں کھیلنے کی اجازت بھی مل گئی اور اس کے بعد چار سالوں کے بعد انہوں نے بڑی بڑی لڑائیاں جیتیں- جون 2016 میں محمد علی کلے پارکسزم کی بیماری میں مبتلا ہونے کے سبب انتقال فرما گئے- مگر ان کا شمار دنیا کے ان نو مسلم افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے پوری دنیا میں بہت شہرت پائی-
 
YOU MAY ALSO LIKE: