روزے جسمانی تربیت اور روحانی تزکیہ کا مرکب ہیں ۔ ماہِ
رمضان میں برپا ہونے والا حق و باطل کا معرکہ تدبیر و دعا کا حسین امتزاج
ہے۔ اس جنگ کا معاشی پس منظر ایک واقعہ سے سمجھیں ۔ یمامہ کے سردار ' ثمامہ
بن اثال ؓ گرفتار ہوکر مدینہ منورہ آئے تو نبی کریم ؐ کے حسنِ سلوک سے
متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے ۔ طواف کعبہ کے دوران کفار قریش نے انہیں آبائی
دین ترک کرنے طعنہ دیا تو بولے میں بے دین نہیں ہوا بلکہ حضرت محمد ؐ پر
ایمان لاکر مسلمان ہوا ہوں:’’خدا کی قسم! جب تک اللہ کے رسول ؐ اجازت نہیں
دیں گے، یمامہ سے گندم کا ایک دانہ تمھارے لیے نہیں آئے گا کیونکہ تم نے
طوافِ کعبہ میں رکاوٹ ڈالی ہے‘‘ ۔ گندم کی فراہمی کے بند ہوجانے سے مکہ میں
قحط جیسی صورت حال بنی جس نے قریش کو نبی کریم ؐ سے رجوع ہونے پر مجبورکیا
۔ آپؐ نے غلے کی فراہمی بحال کرواکر نہ صرف اخلاقی فتح حاصل کی بلکہ
ریاستِ مدینہ کا رعب بھی قائم کردیا ۔
ارشادِ ربانی ہے:’’ ذرا وہ وقت بھی یاد کرو جب اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ فرما
رہے تھے کہ دونوں گروہوں، تجارتی قافلہ اور لشکر میں سے ایک ضرور تمھارے
ہاتھ لگے گا ‘‘۔ گویا دو متبادل میں سے جنگ کا انتخاب حالاتِ زمانہ کا جبر
نہیں بلکہ پیغمبر انہ تدبیر و بصیرت کا عملی نمونہ تھا ۔ قرآن حکیم میں
اہل ایمان کی کیفیت اور بالکل برعکس مشیت الٰہی کا مقصد یوں بیان ہواہے
کہ:’’ اور تم دل سے یہ چاہ رہے تھے کہ وہ تمھارے ہاتھ لگے جو کِیل کانٹے سے
لیس نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے فیصلوں سے حق کا بول
بالا کرے اور کافروں کی جڑ کاٹ دےتاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطل باطل ہو
جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو ‘‘۔
کفارِ مکہ کے لشکرِ جرار کی خبر جب آپؐ نے کو دی تو خزرج کے سردار حضرت سعد
بن عبادہؓ نے عرض کی: ’’ یا رسول اﷲﷺ! خدا کی قسم! اگر آپ حکم فرمائیں تو
ہم سمندر میں کودنے کو تیار ہیں۔حضرت مقدادؓ نے کہا: ’’ ہم موسیٰؑ کی امت
کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب خود جاکر لڑیں، ہم تو یہیں
بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں سے بائیں سے، سامنے سے اور پیچھے سے
لڑیں گے پھر آپ نے اعلان کیا کہ ہم لوگ واقعی آپ کے تابعدار ہوں گے، جہاں
آپؐ کا پسینہ گرے گا وہاں ہم اپنا خون بہا دیں گے۔ آپؐ جنگ کا حکم فرمائیں،
ان شاء اﷲ اسلام ہی غالب آئے گا‘‘۔ اس وقت کسی صحابی کو امت مسلمہ کی نسل
کشی کا خیال تک نہیں آیا حالانکہ امکان تو تھا ۔
صحابہ کرامؓ کے جوش ِایمانی کو دیکھ کر حضور اکرم ﷺ نے دعا فرمائی: ’’
خداوند قدوس نے مجھے قافلہ و لشکر میں سے کسی ایک پر فتح عطا کرنے کا وعدہ
فرمایا ہے۔ بلاشبہ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور قسم بہ خدا! میں ابھی سے
کفار کے سرداروں کی قتل گاہ دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپؐ نے مقتولوں کے مقامِ قتل
کی نشاندہی فرمادی ۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جہاں حضور سید عالمؐ نے
فرمایا وہ کافر و ہیں قتل ہوا۔ تدبیر و دعا کی یہ ترتیب و تعلق ہے۔ رزم گاہ
ِبدر کے قریب پہنچ کر نبی کریمؐ نے منتخب جان بازوں کو بھیج کر دشمن کی نقل
و حرکت کا پتا لگایا۔ 17؍رمضان المبارک کی شب دعا فرمائی اور صبح ایسا
ولولہ انگیز خطاب فرمایا کہ مجاہدینِ اسلام کی رگوں جذبۂ شہادت موجیں
مارنے لگا ۔
نبی کریمؐ نے صف بندی کروانے کے بعد بارگاہِ خداوندی میں التجا کی: ’’ اے
اﷲ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما۔ اے اﷲ! اگر آج یہ مٹھی
بھر نفوس ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے
والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘ ۔ اس دعا کے بعدآنے والی نصرت الٰہی کا بیان
کتابِ حق ایسے کرتی ہے:’’ (اے لشکرِ اسلام!) ان کافروں کو تم نے قتل نہیں
کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا، اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (سنگ
ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے، اور یہ (اس
لئے) کہ وہ اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے اچھے انعامات سے نوازے، بیشک اللہ
خوب سننے والا جاننے والا ہے‘‘۔ موجودہ مایوس کن ماحول میں غزوۂ بدر سے
حوصلہ لینے کی بڑی ضرورت ہے۔
|