بَدترین دماغی فیصلوں کی بَدترین سزائیں !

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالدخان ، اٰیت 33 تا 50 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اٰتینٰھم
من الاٰیٰت
مافیه بلٰؤامبین
33 ان ھٰؤلاء لیقولون 34
ان ھی الا موتتناالاولٰی ومانحن
بمنشرین 35 فاتواباٰبائنا ان کنتم صٰدقین
36 اھم خیر ام قوم تبع والذین من قبلھم اھلکنٰھم
انھم کانوامجرمین 37 وماخلقناالسمٰوٰت والارض وما بینھما
لٰعبین 38 ماخلقنٰھما الا بالحق ولٰکن اکثرالناس لایعلمون 39 ان یوم
الفصل میقاتھم اجمعین 40 یوم لایغنی مولی عن مولی شیئا ولاھم ینصرون
41 الا من رحم اللہ انهٗ ھوالعزیز الرحیم 42 ان شجرة الزقوم 43 طعام الاثیم 44
کالمھلی یغلی فی البطون 45 کغلی الحمیم 46 خذوه فاعتلوه الٰی سواء الجحیم 47
ثم صبوافوق راسهٖ من عذاب الحمیم 48 ذق انک انت العزیز الکریم 49 ان ھٰذا ماکنتم
بهٖ تمترون 50
اے ہمارے رسُول ! ہم نے فرعون کی قوم کو بھی حیاتِ ماضی کے حسابِ مُستقبل سے آگاہ کیا تھا لیکن جس طرح فرعون کی اُس قوم نے ہماری بات کا انکار کیا تھا اسی طرح عرب کی یہ قوم بھی ہماری اِس بات کا انکار کرتے ہوۓ آپ سے کہتی ہے کہ اُس کے نزدیک تو زندگی کی حقیقت اِس سے زیادہ کُچھ بھی نہیں ہے اُن پر جب پہلی موت آۓ گی تو وہ مرجائیں گے اور اِس موت کے کے بعد وہ کبھی زندہ نہیں کیۓ جائیں گے لیکن اگر آپ موت کے بعد ملنے والی زندگی کے دعوے میں سچے ہیں تو آپ پھر ہمارے آباو اجداد کو زندہ کر کے ہمارے سامنے لے آئیں ، اگر آپ نے اُن کو زندہ کر لیا تو ہم بھی آپ کے اِس دعوے کی تصدیق کردیں گے مگر اِس قوم نے اِس اَمر پر غور کیا ہے کہ اِس سے پہلے شاہانِ حمیر کی قومِ تُبع نے بھی یہی کُچھ کہا تھا اور یہی کُُچھ کیا تھا جو اِس قوم سے زیادہ عقلمند قوم تھی اور وہ قوم بھی اپنی موجُودہ حیات کے اسی اقرار اور اپنی موعُودہ حیات کے اسی انکار کے باعث ہی ہلاک ہوئی تھی اور اَب یہ قوم بھی اُس پہلی قوم کی طرح موت کے بعد ملنے والی حیات کا انکار کرکے اُسی پہلی قوم کی طرح ہلاک ہونا چاہتی ہے حالانکہ اُس پہلی قوم کے اَنجام کے بعد اِس دُوسری قوم کو تو اِس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیۓ کہ اگر ہم نے زمین و آسمان کو اور اِن کے درمیان نظر آنے والے اِس سارے سامانِ جہان کو بلاوجہ پیدا نہیں کیا ہے تو انسان کو بھی ہم نے بلاوجہ پیدا نہیں کیا ہے اور اگر زمین و آسمان میں پیدا کی گئی ہر ایک چیز کا ایک آغاز و اَنجام ہے تو انسان کا بھی ایک آغاز و اَنجام ہے لیکن اکثر انسان جو اِس حقیقت کا انکار کرتے ہیں اُن کا یہ انکار آنے والے اُس دن سے بیخبری ہے جس دن اُن کے آبا و اجداد سمیت ہر ایک انسان کا اُٹھایا جانا ایک طے شدہ اَمر ہے اور جب وہ دن آۓ گا تو اُس دن اتنی آپادھاپی مچی ہوئی ہوگی کہ کوئی انسان کسی اپنے یا بیگانے انسان کے کام نہیں نہیں آسکے گا سواۓ اِس کے کہ کسی انسان کے کسی عملِ خیر کے نتیجے میں اللہ کو خود ہی اُس پر رحم آجاۓ اور وہ اللہ سے کوئی رُو رعایت پاجاۓ اور اُس دن یومِ حساب جو مُنکر وہاں پر جمع ہوں گے تو اُن کو بُھوک مٹانے کے لیۓ شجرِ زقوم جیسا وہ خار دار کھانا دیا جاۓ گا جو اُبلتے ہوۓ تیل کی تَلچھٹ کی طرح جلاتا ہوا اُن کے پیٹ میں جاۓ گا اور یہ اُن کے بدترین دماغ کے بدترین فیصلوں کی وہ پہلی بدترین سزا ہوگی جو اُن کو دی جاۓ گی اور اُس وقت اُن کو کہا جاۓ گا کہ تُم اپنی جس جھوٹی عزت داری کے جس جھوٹے زُعم میں اپنے جن بدترین اعمال کے جن بدترین نتائج کا ہمیشہ انکار کیا کرتے تھے آج وہ سارے بدترین نتائج تُمہاری دائمی سزا کی صورت میں تُم پر مُسلط ہو چکے ہیں اور اَب تو تُم نے بہر حال اپنے اُن بُرے اعمال کے اِن بُرے نتائج کو ہمیشہ برداشت کرنا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا سے پہلی اٰیات میں مُوسٰی علیہ السلام کی تحریکِ آزادی کا جو تاریخی حوالہ نقل کیا گیا تھا اُس حوالے کا خاتمہِ کلام اِس اَمر ہوا تھا کہ عہدِ مُوسٰی میں مصری قوم پر فرعون کا جو حاکمانہ تسلّط قائم تھا وہ مصری قوم پر خُدا کا وہ عذاب تھا جس عذاب سے مصری قوم کو اللہ تعالٰی نے اِس بنا پر نجات دی تھی کہ اُس قوم کے کُچھ ایمان دار اَفراد نے مُوسٰی علیہ السلام کی تحریکِ آزادی میں مُوسٰی علیہ السلام کا ساتھ دیا تھا اِس لیۓ کہ زمین کی جو غلام قوم جب تک بذاتِ خود اپنی زمین پر نا جائز قبضہ جمانے والی کسی قابض طاقت کے خلاف کوئی عملی جد و جُہد نہیں کرتی تب تک اُس قوم کو آزادی کی نعمت حاصل نہیں ہوسکتی اور اَب موجُودہ اٰیات میں عربی قوم کے مُشرکانہ اَحوال و ظروف کے حوالے سے اِس اَمر پر کی نشان دہی کی گئی ہے کہ جس طرح مصری قوم پر فرعون کا تسلّط خُدا کا ایک عذاب تھا اسی طرح عرب کی اِس عربی قوم پر عرب کے بت پرست قبائلی سرداروں کا تسلّط بھی خُدا کا ایک عذاب ہے اور جس طرح مصر کی مصری قوم نے مُوسٰی علیہ السلام کی قیادت میں منظم ہو کر ایک مُسلسل جِد و جُہد کے بعد آزادی حاصل کی تھی اسی طرح عرب کی اِس عربی قوم کو بھی اپنی آزادی کے لیۓ محمد علیہ السلام کی قیادت میں منظم ہو کر ایک ایسی ہی ایک مُسلسل جِد و جُہد کرنی ہوگی جیسی مُسلسل جِِد و جُہد قومِ مُوسٰی نے اپنی آزادی کے لیۓ کی تھی کیونکہ جب تک کوئی قوم اپنی حریت و آزادی کے لیۓ کسی اَعلٰی قائد کی قیادت کی نگرانی میں بذاتِ خود کوئی عملی جِد و جُہد نہیں کرتی تب تک اُس قوم کو آزادی کی نعمت حاصل نہیں ہوتی اِس لیۓ لازم ہے کہ عرب کی یہ عربی قوم بھی اپنے اپنے قبائلی کی غلامی سے اپنی آزادی کے لیۓ محمد علیہ السلام کی قیادت میں ایک عملی جِد و جُہد کر کے اپنی آزادی حاصل کرے اور آزادی حاصل کر کے اللہ تعالٰی کے اُس مُتوازن دین میں داخل ہو جاۓ جس دین میں کوئی بڑے سے بڑا انسان اپنی ذات میں آقا نہیں ہوتا اور کوئی چھوٹے سے چھوٹا انسان بھی اپنی ذات میں غلام نہیں ہو تو بلکہ ہر ایک چھوٹا اور ہر ایک بڑا انسان اپنے برتر عملِ خیر یا اپنے کم تر عملِ خیر کے اعتبار سے کسی سے کم تر یا کسی سے برتر ہو تا ہے کیونکہ جو انسان اللہ تعالٰی کے اَحکام بجالانے میں جتنا کم تر یا برتر ہوتا وہ اللہ تعالٰی کے نزدیک بھی اتنا ہی کم تر یا برتر ہوتا ہے ، دُوسری بات جس کی اٰیاتِ بالا میں نشان دہی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہر زمانے کی ہر قوم کا ایک ذہنی و فکری اُفق ہوتا ہے جس ذہنی و فکری اُفق کے مطابق وہ قوم سوچتی اور بولتی ہے اور اِس تاریخی اُصول کے مطابق اِس وقت کے مُشرکینِ عرب کا ذہنی و فکری اُفق اُس کا طاقت پر ایمان لانا ہے اِس لیۓ اِس قوم کے قوم پرست یہ کہکر کلمہِ حق سُننے سے انکار کر رہے ہیں کہ جو انسان ہمیں توحید کی دعوت دے رہا ہے وہ ہماری قوم کے کسی قبیلے کا سر دار نہیں ہے تو ہم اپنے طاقت ور سرداروں کی بات کیوں رَد کریں اور اِس کمزور انسان کی بات کیوں قبول کرلیں جو دُشمن کے مقابلے میں ہماری حفاظت نہیں کر سکتا ، قُرآنِ کریم نے اُن لوگوں کی اِس بات کا حکایت مُوسٰی کے حوالے سے یہ جواب دیا ہے کہ تُمہارے قومی سردار مصری قوم کے فرعون سے زیادہ طاقت ور نہیں ہیں اور ہمارے نبی محمد علیہ السلام بھی اِس اعتبار سے مُوسٰی سے زیادہ کم زور انسان نہیں ہیں کہ مُوسٰی نے تو باہر سے مصر میں آکر اپنی قومی آزادی کی جنگ لڑی تھی لیکن محمد علیہ السلام اسی قوم میں پیدا ہوۓ ہیں اور اسی قوم میں موجُود ہیں اور اِس قوم کے بوڑھے اور جوان اُن کی تحریک میں شامل ہو چکے ہیں اور مُسلسل شامل ہو رہے ہیں اِس لیۓ موجُود زمینی حقیقت کی رُو سے تُمہارا اپنی کامیابی اور محمد علیہ السلام کی ناکامی کا خیال ایک بہت ہی کم زور اور ایک غیر منطقی خیال ہے ، اگر تُم اِس زُعم میں مُبتلا ہو کہ تُم عرب کے تمام قبائل سے مل کر اور عرب کے تمام قبائل کو اپنے ساتھ ملا کر محمد علیہ السلام کو شکست دے سکتے ہو تو تُمہارا یہ خیال بھی باطل ہے کیونکہ تُمہارے عربی قبائل کی اجتماعی طاقت و قوت قومِ تُبع کے سرداروں سے زیادہ نہیں ہے اور جس طرح حق کے مقابلے میں قومِ تُبع کے سارے شاہانِ حمیر اپنی تمام طاقت کے باوجُود بھی ناکام و نامراد رہے تھے اسی طرح تُم بھی محمد علیہ السلام کے پیش کیۓ ہوۓ حق کے مقابلے میں پہلی قوموں کے پہلے لوگوں کی طرح ناکام و نامراد ہی رہو گے ، اسی طرح یہ اہلِ عرب اپنے موجُودہ ذہنی اُفق کے مطابق حسابِ آخرت کا انکار کرنے کے لیۓ یہ احمقانہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر اللہ تعالٰی موت کے بعد زندگی دیتا ہے تو ہمارے باپ دادا کو زندہ کرکے ہمارے سامنے لایا جاۓ تاکہ ہم اُن کو اپنے سامنے دیکھ کر اللہ کے اِس نبی پر ایمان لے آئیں حالانکہ یہ لوگ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ قُرآن انسان سے موت کے بعد جس حیات کا اقرار چاہتا ہے وہ اِس عالَمِ موجُود کی یہ حیات نہیں ہے جس حیات کاانسان اِس وقت حامل ہے بلکہ وہ اُس عالمِ موعُود کی حیات ہے جو اِس عالَمِ موجُود میں آنے والی موت کے بعد اُس عالمِ موعُود میں انسان کو ملنی ہے جس عالَمِ موعُود میں انسان نے اِس عالَمِ موجُود سے اُس حیات کے ساتھ جانا ہے اِس لیۓ موت کے بعد حیات کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ادھر کسی نے موت کے بعد حیات پر دلیل مانگی اور اِھر چندے مُردے قبروں سے باہر نکال کر اُس کو دکھایا دیۓ لہٰذا مُشرکینِ عرب کی یہ بات بھی انکارِ حق کا ایک بہانہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے ، حاصل کلام یہ ہے کہ جو قومیں اپنے بدترین دماغ کے ساتھ اپنے لیۓ بدترین فیصلے کرتی ہیں وہ اپنے اُن بدترین فیصلوں کے نتیجے میں اُن بدترین سزاؤں کی مُستحق ہو جاتی ہیں جن سزاؤں میں سے کُچھ سزائیں تو اُن کو اِس دُنیا میں ملتی ہیں اور کُچھ سزائیں اِس دُنیا کے بعد کی دُنیا میں اُن کو ملتی ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462057 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More