تبدیلی والی سرکار اور شاہ دولہ کے چوہے



کچھعرصہ پہلے ایک میگزین میں مضمون پڑھا تھا جوشاہ دولہ کے چوہوں سے متعلق تھا.جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ پنجاب کے ایک علاقے میں ایک مزار ہے جہاں پر بے اولاد افراد آکر دعا مانگتے ہیں اور منت مانگنے پر کہتے ہیں کہ اگر ان کی پہلی اولاد ہوئی تو وہ اپنے اولاد کو متعلقہ مزار کے حوالے کریگی. اور یوں بچے اس جگہ پر پلتے ہیں تاہم یہاں پر آنیوالے بچوں کو مخصوص لوگ لیکر ان کے سروں کو مخصوص ساخت کے ٹوپیوں میں بند کرکے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا جسم تو بڑھتا ہے لیکن ان کے ذہن نہیں بڑھتے اور یوں یہ مخصوص سائز کے لڑکے بڑھے ہو کر بھی صرف بھیک مانگ کر گزارہ کرتے ہیں جنہیں لوگ شاہ دولہ کے چوہے کہتے ہیں.. چھوٹے سر کے یہ بڑے افراد ساری عمر بس ایک ہی سوچ رکھتے ہیں اور ان سے بھیک منگوائی جاتی ہیں. عام لوگ ان کو دیکھ کر ان سے دعائیں منگواتے ہیں اور بڑی بڑی رقمیں بھی دیتے ہیں. اوران مخصوص ساخت کے لوگوں کو اونچی چیز یا پیر سمجھتے ہیں.اتنی لمبی تمہید صرف ایک آسان سی بات سمجھانے کیلئے لکھ دی ہیں تاکہ سند بھی رہے اور آسانی سے عام لوگوں اور شاہ دولہ کے چوہوں کو سمجھ میں بھی آئے.

کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ آج کل کے سیاسی حالات میں شاہ دولہ کے چوہے کس پارٹی میں سب سے زیادہ ہے. ہمارے ہاں یہ ایک رواج اور دستور ہے جب کوئی شخص کسی سیاسی پارٹی کو جوائن کرتا ہے تو پھر اس کے لئے الگ تقریب ہوتی ہیں اور پھر اس تقریب میں متعلقہ پارٹی کے عہدیدار نئے آنیوالوں کو ٹوپیاں پہناتے ہیں‘ یہی ٹوپی پہننے کے بعد ان کارکن کو صرف وہی پارٹی نظر آتی ہیں ان کے لیڈر نظر آتے ہیں اور ان کی آنکھوں پر مخصوص پارٹی کے پٹی لگ جاتی ہیں. وہ صرف اپنی پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں ان میں ٹھیک یا غلط بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد اپنے آپ کو نظریاتی کارکن کہلانے والے کارکن "نظر ماتی " کارکن بن جاتے ہیں. خیر باتیں کہیں اور نکل رہی ہیں. یہ کریڈٹ بھی تبدیلی والی سرکار کو جاتا ہے کہ انہوں نے اس ملک میں سیاسی کلچر کو تبدیل کردیا ہے نہ صرف سیاسی کلچر بلکہ شاہ دولہ کے چوہے پیدا کردئیے ہیں جن کی سوچ بھی بس بھیک مانگنے کی حد تک ہی ہے. اگر کوئی ان سے اختلاف کرتا ہے تو پھر شاہ دولہ کے چوہوں کی طرح بد دعائیں دینا شرو ع کردئیے ہیں. حقیقی شاہ دولہ کے چوہے تو بد دعائیں دیتے ہیں مگر تبدیلی والی سرکار کے شاہ دولہ کے چوہے گالیوں پر اتر آتے ہیں.

تبدیلی والی سرکار نے اپنے کارکنوں کے سروں پر اپنی پارٹی کی ٹوپیاں نہیں رکھی لیکن ان کی ذہن اور دماغ اس الیکٹرانک دور میں بغیر کسی سانچے کے اپنے مخصوص طرز پر لے آئے ہیں جس کی وجہ سے ان شاہ دولہ کے چوہوں کو صرف اپنی پارٹی اور پارٹی کے لیڈر فرشتے نظر آتے ہیں اور باقی ساری دنیا چور ہیں‘ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ اگر کوئی ان شا ہ دولوں سے اختلاف رکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں وہ کسی سیاسی پارٹی کو سپورٹ کرتا ہو لیکن تبدیلی والی سرکار کے ان چوہوں کو یہ بات کون سمجھائے.کرسی کا اپنا نشہ ہو تا ہے بھلے سے اسے کوئی مانے یہ نہ مانے لیکن اس کرسی کے نشے کیلئے ازل سے ابد تک جنگ جاری رہے گی جو انسان کی فطرت بھی ہے کہ وہ اپنی پسند کی بات سننا اور منوانا چاہتا ہے

کم و بیش ساڑھے تین سال تک وفاق میں حکومت کرنے والی پارٹی کے رہنماؤں کا حال یہ ہے کہ ابسلوٹلی ناٹ سے شروع ہونیوالا نعرہ پشاورمیں صوبے کے دیگر اضلاع سے لائے جانیوالے کارکنوں کے سامنے امریکی مخالف نعرے لگاکر عوام کو بے وقوف بنانا چاہ رہا تھا‘ کراچی اورلاہور میں ہونیوالے جلسوں میں الگ الگ نعرے لگائے گئے.حکومتی ایوانوں سے کک آؤٹ ہونیوالے تبدیلی والی سرکار کے ان رہنماؤں کا بیانیہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا جارہا ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سفید جھوٹ بولنے والے ان رہنماؤں پر تبدیلی والی سرکار کے شاہ دولہ کے چوہے آنکھیں بند کرکے یقین رکھتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ساری دنیا کو چور‘ فراڈیا اور پتہ نہیں کیا کیا سمجھنے والے اپنے رہنما کے حوالے سے بہت حساس ہیں.

کم و بیش اٹھانوے کروڑ میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے بنی گالہ سے وزیراعظم ہاؤس میں آنیوالے تبدیلی والی سرکار کا دعوی تھا کہ وہ وی آئی پی کلچر کے خلاف تھا‘ لیکن یہ دعوے صرف کرسی سے قبل کے تھے‘ توشہ خانے سے مفت میں لئے جانیوالے سرکاری تحفوں کو اڑانے والے رہنما کا بیان ہے کہ انہوں نے اس رقم سے سڑکیں بنائی‘ عجیب لاجک ہے‘ گورنر ہاؤسز کو یونیورسٹیاں بنانے کے دعویدار حکمران اور ان کے لاڈلے وزراء کا بیان تھا کہ تبدیلی سرکار کے آتے ہی آئی ایم ایف کے منہ پر رقم مارنے کا اعلان کیا گیا مگر رقم آئی ایم ایف کے منہ پر مارنے کے بجائے پورا سٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے منہ پر مارا گیا‘ اور مزے کی بات یہ کہ تبدیلی والی سرکار کے ان چوہوں کے چہروں پر شرم و حیا تک نہیں آئی اور نہ ہی آنے کا امکان ہے.

عوام یہ بھی جانتی اور مانتی ہیں کہ تبدیلی والی سرکار سے پہلے والے بھی چور تھے اور باری باری کے چکر نے اس ملک کے غریب عوام کا بیڑہ غرق کردیا ساتھ میں اسلام کے نام پر لوگوں کیساتھ فراڈ کرنے والے نام نہاد رہنما بھی شامل ہیں مگران سب کے باوجود ان سب میں ایک حد تک شرم و حیا موجود تھی جبکہ ان کے مقابلے میں تبدیلی کے نام پر مسلط کئے جانیوالوں کے دعوے یہ تھے کہ ہم پورے پاکستان میں واحد فرشتے ہیں باقی ساری چور ہیں اور اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کے بعد بھی ان کی یہی اوقات رہی -اب اگر کوئی سوشل میڈیا پر بات لکھتا اور کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ متعلقہ شخص کسی پارٹی کو سپورٹ کرہا ہے بلکہ وہ تبدیلی کے نام پر آنیوالوں کو بتا رہا ہے کہ وہ اگر چور تھے تو تم لوگ بھی مہا چور ہوں ساتھ میں ڈھیٹ بھی‘ اسی کے ساتھ شاہ دولہ کے چوہوں کے مصداق مخصوص دماغ اور سوچ کے مالک ہو‘ اس پر کسی کو اعتراض نہیں کہ تمھارا اپنا جسم اور اپنی خالی سر‘ لیکن یہ بات غلط ہے کہ شاہ دولہ طرز کے یہ چوہے ہر ایک پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں کہ تم بھی ہمارے طرح کے چوہے بن کر آنکھیں بند کرکے زندہ باد و مردہ باد کے نعرے لگواؤ.. ورنہ ہم تمھاری ایسی کی تیسی کرینگے. یہ تک اور رجحان بہت خطرناک ہے اور اس سے آنیوالے وقت میں سب سے زیادہ اسی تبدیلی والی سرکار کو نقصان ہوگا.
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 585 Articles with 413848 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More