14 اگست 1947 کو بظاہر پاکستان کے عوام نے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل
کی۔ لیکن ذہنی غلامی سے نجات حاصل نہ کر سکی۔ ایک طویل عرصہ تک غلامی میں
رہنے والی قوموں کے دماغ اور ذہین آزادی کو قبول کرنے سے قاصر رہتے ہے۔ وہ
اپنی شخصی، بنیادی اور قومی حقوق سے نہ بلد رہتے ہے۔ غلامی نے ان کی سوچ
اور صلاحیتوں کو محدود کر دیا ہوتا ہے۔ اور وہ غلامی کی زنجیروں سے لطف
اندوز ہوتے ہے۔ کسی قوم کو غلام بنانے کے کچھ مخصوص طریقے ہوتے ہے۔
قوم کے اندر اندرونی انتشار اور اختلاف پیدا کیے جاتے ہے۔ اور ان کی بنیاد
زبان نسل تہذیب اور رہن سہن پر رکھی جاتی ہے۔ لوگوں کی ذہین اور ان کی سوچ
کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اور یہ تمام اسباب پاکستانی قوم میں ایک طویل عرصے
سے سرایت کیے جا رہے ہے۔ ریاست کے تمام ستونوں کو کھوکھلا کیا جا چکا ہے۔
اور یہ ستون صرف اور صرف ذاتی مفاد کے لئے دستوں و گریباں ہے۔ عوام کو اپنے
ذاتی مقاصد کے لئے قوم سے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم کیا جا چکا ہے۔
اور اس کا آغاز قیام پاکستان کے فوراً بعد ہو چکا تھا۔ قومی مفاد پر اپنی
ذات کو ترجیح دینے والوں نے تو بانی پاکستان کو بھی نہیں بخشا تھا۔ ان کو
ایک ایسی ایمبولینس میں ہسپتال لے جایا گیا جو چلنے سے انکاری تھی۔ اور
بانی پاکستان بیماری کی حالت میں سڑک کنارے پڑے رہے۔ محسن کشی کیا ہوتی
کوئی ہم سے سیکھے۔ 1971 سے پہلے جتنے بھی دستور بنے ان کی جگہ ردی کی ٹوکری
بنی۔ 73 میں بنائے جانے والے دستور کو یہ خاصیت حاصل ہوئی کہ اس کو معطل تو
کیا جا سکتا ہے لیکن ردی کی ٹوکری کی زینت نہیں بنایا جا سکتا ہے اس لئے
تاحال یہ دستور بے تحاشا ترامیم کے ساتھ لنگڑی لولی حالت میں چلا آ رہا ہے۔
لیکن بظاہر اس کی اوقات بھی ایک پیپر سے زیادہ نہیں ہے جس کو جب چاہا جیسے
چاہا توڑا اور موڑا جا سکتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا جا سکتا
ہے۔ دستور تو ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے ہم تو ملک کو بھی دو لخت کرنے سے باز
نہیں آئے تھے۔ مشرقی پاکستان کی ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا مشرقی
پاکستان کو سیاسی اور معاشی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ 1970 کے انتخابات میں
اکثریت حاصل کرنے عوامی لیگ کو اقتدار دینے کی بجائے تصادم کا راستہ اختیار
کیا گیا۔
آج کے پاکستان کے شہید جمہوریت نے اقتدار عوامی لیگ کو سونپنے کی بجائے
حکومت کے لالچ میں ملک کے دو ٹکڑے کرنا بہتر جانا۔ ملک کی بجائے اقتدار کو
اہمیت دی گئی اور ادھر تم اور ادھر ہم کا نعرہ لگا کر ملک کو تقسیم کیا۔
لیکن سقوط ڈھاکا سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے ہم آج بھی اسی مقام پر
کھڑے ہے اور وہی غلطیاں دوہرا رہے ہے۔ ہمارے آج کے سیاست دانوں اور
اسٹبلشمنٹ میں اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ حال ہی میں ہونے والے واقعات نے
ملک کو ایک عجیب دوراہے پہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔
زیشن نے تین سال حکومت مخالف جلسے جلوس کر رہی تھی جس میں فوج کو تنقید کا
نشانہ بنایا گیا۔ اور عوام میں فوج کے خلاف نفرت کے بیج بوئے گئے۔ نواز
شریف جس کو العزیزیہ ریفرنس کیس میں سات سال سزا دی گئی تھی بیماری کی بنا
پر لندن روانہ کر دیا گیا جس نے لندن جاتے ہی عوامی جلسوں میں فوج پر حملے
کرنے شروع کر دیے۔ یاد رہے آج تک کسی عام پاکستانی شہری جو جیل میں سزا
یافتہ ہو۔ ایسی سہولت کبھی نہیں ملی ہے بلکہ عام پاکستانی سال ہا سال انصاف
کا منتظر رہتا ہے لیکن اس ملک میں عام اور خاص لوگوں کے لیے الگ الگ قانون
ہے۔
عوامی جلسوں میں نواز شریف فوج اور اس کے جرنیلوں پر عام انتخاب میں
دھاندلی کروانے کا الزام لگاتے رہے۔ نواز شریف نا صرف فوج پر سیاست میں
مداخلت کا الزام لگاتے رہے بلکہ عسکری قیادت کو دھمکاتے بھی رہے۔ ان کی
بیٹی مریم صفدر کے جلسوں میں یہ جو مارا ماری ہے اس کے پیچھے وردی ہے جیسے
نعرے لگوائے جاتے رہے۔ محترمہ کھلے عام عاصم سلیم باجوہ کے خلاف بولتی رہی
اور عوام میں تفریق پیدا کی گئی۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اپنے مقدمات اور
فوج کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔
اور ساتھ ہی ساتھ اندروں خانہ ڈیل کرنے کی بھی کوششیں کی جاتی رہی۔ جلسوں
میں کہا جاتا رہا ہماری لڑائی عمران خان کے ساتھ نہیں بلکہ اس کو لانے
والوں کے ساتھ ہے۔ اپنے بد عنوانی کے مقدمات کو ختم کروانے کے لئے عوامی
اجتماعات کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا۔ عوام کے ذہنوں میں
ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف زہر بھرا جاتا رہا۔ نیب پر پیشی کے موقع پر
غنڈہ گردی کی جاتی رہی۔ اب تھوڑی دیر یہاں پر روکتے ہے اور ماضی کے اوراق
پلٹتے ہے۔
آج کی جمہوریت کے علمبردار جماعتوں کی تخلیق آمروں کی گودوں میں ہوئی ہے
یہ آمروں کی نظریہ ضرورت کی پیداوار ہے ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے
دور میں جنم لیا اور یہ ایوب کی کابینہ کے ممبر اور وزیر خارجہ کی کرسی پر
بھی براجمان رہے اور 1970 کے انتخابات کے بعد مجیب کو اقتدار منتقل نہ کرنے
کے عمل میں پوری طرح شریک رہے جب مشرقی پاکستان جل رہا تھا تو جناب شکار
کھیلنے میں مصروف رہے۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے جناب جنرل ضیاء حق
کے کندھوں پر سوار ہو کر سیاست کے میدان میں تشریف لائے۔ ضیاء حق کو اپنے
سیاسی باپ کا درجہ دیتے رہے ہے۔ جناب بینظیر کی کردار کشی میں پیش پیش رہے۔
سیاست اور اقتدار کو اپنے خاندانی کاروبار اور جائیداد کو بڑھانے کے لئے بے
دریغ استعمال کیا۔ ان کے چیدہ چیدہ کارناموں میں سپریم کورٹ پہ حملہ کرنا
جج صاحبان کو فون کروا کر اپنی مرضی کے فیصلے کروانا امیر مومنین بننے کی
کوشش کرنا اور ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف محاذ آرائی کرنا شامل ہے۔
جناب جیسے ہی اقتدار سے باہر ہوتے ہے تو ماہی بہ آب کی طرح تڑپنا شروع کر
دیتے ہے اور غیر ملکی دشمنوں اور طاقتوں کے ساتھ مل کر ملکی سلامتی پر حملے
شروع کر دیتے ہے جناب اتنے محب وطن ہے ملک میں تب تک رہنا پسند کرتے ہے جب
تک اقتدار کی کرسی تک براجمان رہتے ہے جیسے ہی اقتدار سے رخصت ہوتے ہے تو
ملک سے بھی رخصت ہو جاتے ہے لیکن جناب کیوں کہ کاروباری ذہین کے مالک ہے تو
یہ رخصتی بھی ڈیل کا نتیجہ ہوتی ہے۔
لیکن یہ ڈیل اور وعدے کے پکے نہیں ہے جیسے ہی یہ ملک سے رخصت ہوتے ہے تو
اپنے سہولت کاروں کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیتے ہے۔ سہولت کار بھی کافی
اناڑی ہے ہر دفعہ دام میں آ جاتے ہے۔ اس بار بھی جناب ووٹ کو عزت دو کا
نعرہ لگاتے لگاتے دوبارہ سے بوٹ کو عزت دے چکے ہے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ
کچھ دنوں کے لئے منسوخ ہو چکا ہے کچھ دن بوٹ کو ہی عزت دی جائے گئی اگر بات
بن گئی تو راوی چین ہی چین ہو گا نہیں تو دوبارہ سے ووٹ کو عزت دینے کا
سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ حال ہی میں لائی گئی تحریک عدم اعتماد بوٹ کے
ساتھ گٹھ جوڑ کا ہی نتیجہ ہے لیکن یہ بوٹ والوں کی بھی کیا زندگی ہے اپنا
ہی تھوکا چاٹ لیتے ہے۔ اگلے کالم میں ہم موجودہ سیاسی صورتحال پر پنڈی
میڈیا اور عدل اور نام نہاد مذہبی جماعتوں کے کردار پر روشنی ڈالے گئے اس
امید پہ کے ہمارا کالم من و عن شائع ہو جائے گا ہم کسی سیاسی جماعت کے حامی
نہیں ہیں یہ سارا تجزیہ غیر جانبدار کے طور پر ہے ہم صرف ایک آزاد پاکستان
کے حامی ہیں۔
|