معارف الحدیث - کتاب الطہارت - حدیث نمبر 418
عَنْ عُثْمَانَ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ
خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ جَسَدِهِ ، حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ
أَظْفَارِهِ » (رواه البخارى ومسلم)
حضرت عثمان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے وضو کیا
اور (بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق) خوب اچھی طرح وضو کیا تو اس کے سارے گناہ
نکل جائیں گے یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی۔ (صحیح بخاری و صحیح
مسلم)
تشریح
حضرت شاہ والی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ بات پہلے ذکر کی جا چکی
ہے کہ جن سلیم الفطرت انسانوں کی روحانیت بہیمت سے مغلوب نہیں ہوئی ہے وہ
حدث کی حالت میں ..... یعنی جب پیشاب پاخانے جیسے کسی سبب سے ان کا وضو ٹوٹ
جائے تو اپنے باطن میں وہ ایک گونہ ظلمت و کدورت اور ایک طرح کی گندگی
محسوس کرتے ہیں۔ (اور اصل حدث یہی کیفیت ہے) اور شریعت اسلامی نے اسی کے
ازالہ کے لئے وضو مقرر فرمایا ہے ..... جن بندوں نے بہیمیت کے سفلی تقاضوں
سے مغلوب ہو کر اپنے لطیف روحانی احساسات کو فنا نہیں کر دیا ہے وہ حدث کی
حالت میں اس باطنی گندگی اور ظلمت کو بھی محسوس کرتے ہیں اور یہ بھی محسوس
کرتے ہیں کہ وضو سے یہ کیفیت زائل ہو کر ایک روحانی پاکیزگی و نورانیت پیدا
ہو جاتی ہے۔ وضو کا اصل مقصد و موضوع تو یہی ہے اور اسی وجہ سے اس کو نماز
یعنی بارگاہِ الٰہی کی خاص حضوری کی لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اللہ
تعالیٰ نے اس میں اپنے فضل سے اس کے علاوہ بھی بہت سی برکات رکھی ہیں .....
رسول اللہ ﷺ نے جس طرح امت کو وضو کا طریقہ اور اس کے متعلق احکام بتلائے
ہیں اُسی طرح آپ ﷺ نے اس کے فضائل و برکات بھی بیان فرمائے ہیں۔ پہلے چند
حدیثیں اسی سلسلہ کی پڑھ لی جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کی
تعلیم و ہدایت کے مطابق باطنی پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے آداب و سنن وغیرہ
کی رعایت کے ساتھ اچھی طرح وضو کرے گا تو اس سے صرف اعضائے وضو کی میل کچیل
اور حدث والی باطنی ناپاکی ہی دور نہ ہو گی بلکہ اس کی برکت سے اس کے سارے
جسم کے گناہوں کی ناپاکی بھی نکل جائے گی اور وہ شخص حدث سے پاک ہونے کے
علاوہ گناہوں سے بھی پاک صاف ہو جائے گا۔ آگے آنے والی بعض حدیثوں سے اس
کی مزید تفصیل معلوم ہو گی۔۔۔۔
معارف الحدیث - کتاب الطہارت - حدیث نمبر 419
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ - أَوِ
الْمُؤْمِنُ - فَغَسَلَ وَجْهَهُ ، خَرَجَتْ مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ
نَظَرَ إِلَيْهَا بِعَيْنِهِ مَعَ الْمَاءِ ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ
الْمَاءِ ، فَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ ، خَرَجَتْ مِنْ يَدَيْهِ كُلُّ
خَطِيئَةٍ بَطَشَتْهَا يَدَاهُ مَعَ الْمَاءِ ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ
الْمَاءِ فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ ، خَرَجَ كُلُّ خَطِيئَةٍ مِنْ
رِجْلَاهُ مَعَ الْمَاءِ أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ ، حَتَّى
يَخْرُجَ نَقِيًّا مِنَ الذُّنُوبِ » (رواه مسلم)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی مسلم
بندہ وضو کرتا ہے اور اس میں اپنے چہرہ کو دھوتا ہے اور اس پر پانی ڈالتا
ہے تو پانی کے ساتھ اس کے چہرہ سے وہ سارے گناہ نکل جاتے ہیں (اور گویا
دُھل جاتے ہیں) جو اس کی آنکھ سے ہوئے تھے اس کے بعد جب وہ اپنے ہاتھ
دھوتا ہے تو وہ سارے گناہ اس کے ہاتھوں سے خارج ہو جاتے ہیں اور دُھل جاتے
ہیں جو اس کے ہاتھوں سے ہوئے، اس کے بعد جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو وہ
سارے گناہ اس کے پاؤں سے خارج ہو جاتے ہیں جو اس کے پاؤں سے ہوئے اور جن کے
لے اس کے پاؤں استعمال ہوئے یہاں تک کہ وضو سے فارگ ہونے کے ساتھ وہ گناہوں
سے بالکل پاک صاف ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
یہاں چند باتیں وضاحت طلب ہیں: ۱۔ مندرجہ بالا دونوں حدیثوں میں وضو کے
پانی کے ساتھ گناہوں کے جسم سے نکل جانے اور دُھل جانے کا ذکر ہے، حالانکہ
گناہ میل کچیل اور ظاہری نجاست جیسی کوئی چیز نہیں ہے جو پانی کے ساتھ نکل
جائے اور دُھل جائے ..... بعض شارحین حدیث نے اس کی توجیہ میں کہا ہے کہ
گناہوں کے نکل جانے کا مطلب صرف معافی اور بخشش ہے ..... اور بعض دوسرے
حضرات نے فرمایا ہے کہ بندہ جو گناہ جس عضو سے کرتا ہے اس کا ظلمانی اثر
اور اس کی نحوست پہلے اس عضو میں اور پھر اس شخص کے دل میں قائم ہو جاتی
ہے، پھر جب اللہ کے حکم سے اور اپنے کا پاک کرنے کے لئے وہ بندہ سنن و
آداب کے مطابق وضو کرتا ہے تو جس جس عضو سے اس نے گناہ کئے ہوتے ہیں اور
گناہوں کے جو گندے اثرات اور ظلمتیں اس کے اعضاء اور اس کے قلب میں قائم ہو
چکی ہوتی ہیں وضو کے پانی کے ساتھ وہ سب دھل جاتی اور زائل ہو جاتی ہیں اور
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی معافی اور مغفرت بھی ہو جاتی ہے ..... یہی
دوسری توجیہ اس عاجز نے نزدیک حدیث کے الفاظ سے زیادہ قریب ہے۔ واللہ اعلم۔
۲۔ حضرت ابو ہریرہؓ والی اس حدیث میں چہرہ کے دھونے کے ساتھ صرف آنکھوں کے
گناہوں کے دُھل جانے اور نکل جانے کا ذکر فرمایا گیا ہے حالانکہ چہرہ میں
آنکھوں کے علاوہ ناک اور زبان و دہن بھی ہیں اور بعضے گناہوں کا تعلق انہی
سے ہوتا ہے ..... اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں اعضاء
وضو کا استیعاب نہیں فرمایا ہے بطور تمثیل کے آنکھوں اور ہاتھوں پاؤں کا
ذکر فرمایا ہے ..... اس مضمون کی ایک دوسری حدیث میں (جس کو امام مالک اور
امام نسائی نے عبداللہ الصنابحی سے روایت کیا ہے) اس سے زیادہ تفصیل ہے۔ اس
میں کلی اور ناک کے پانی (مضمضہ و استنشاق) کے ساتھ زبان و دہن اور ناک کے
گناہوں کے نکل جانے اور دُھل جانے کا اور اسی طرح کانوں کے مسح کے ساتھ
کانوں کے گناہوں کے نکل جانے کا بھی ذکر ہے۔ ۳۔ نیک اعمال کی یہ تاثیر ہے
کہ وہ گناہوں کو مٹاتے اور ان کے داغ دھبوں کو دھو ڈالتے ہیں قرآن مجید
میں بھی مذکور ہے ارشاد فرمایا گیا ہے " اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ
السَّيِّاٰتِ " (ھود ۱۱۴: ۱۱) یعنی نیک اعمال گناہوں کو مٹا دیتے ہیں .....
اور احادیث میں خاص خاص اعمالِ حسنہ کا نام لے لے کر رسول اللہ ﷺ نے تفصیل
سے بیان فرمایا ہے کہ فلاں نیک عمل گناہوں کو مٹا دیتا ہے، فلاں نیک عمل
گناہوں کو معاف کرا دیتا ہے فلاں نیک عمل گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، اس
قسم کی بعض حدیثیں اس سلسلہ میں پہلے گذر چکی ہیں، اور آئندہ بھی مختلف
ابواب میں آئیں گی۔ ان میں سے بعض حدیثوں میں حضور ﷺ نے یہ تصریح بھی
فرمائی ہے کہ ان نیک اعمال کی برکت سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں، اسی
بنا پر اہل حق اہل السنۃ اس کے قائل ہیں کہ اعمالِ حسنہ سے صرف صغائر ہی کی
تطہیر ہوتی ہے، قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے: اِنْ تَجْتَنِبُوْا
كَبَآىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ
(النساء ۳۱: ۴) اگر تم کبائر منہیات (بڑے بڑے گناہوں) سے بچتے رہو گے تو
تمہاری (معمولی) برائیاں اور غلطیاں ہم تم سے دفع کر دیں گے۔ الغرض مندرجہ
بالا دونوں حدیثوں میں وضو کی برکت سے جن گناہوں کے نکل جانے اور دُھل جانے
کا ذکر ہے ان سے مراد صغائر ہی ہیں کبائر کا معاملہ بہت سنگین ہے اس زہر کا
تریاق صرف توبہ ہی ہے۔
|