آج عالمی یوم یتامی منا یا جا رہاہے ۔ دنیا بھر کی طرح آج
پاکستان میں بھی یتیموں کے حقوق پر بات کی جائے گی اور ان کے تذکرے ہوں
گے۔ننھی پریاں اور ننھے پھول آج مہکیں گے اور چہکیں گے ۔یتیم بچوں کی
مسکراہٹوں کے تبادلوں سے یقینا اﷲ کے فرشتے بھی جھوم رہے ہو ں گے۔ وہ بچے
خوش بخت ہیں جو والدین کے سائبان میں پرورش پا رہے ہیں ۔ پاکستان میں 4.2
ملین ایسے بد نصیب بچے ہیں جو سایہ پدری سے محروم ہیں ۔حقیقت میں تووہ بد
نصیب نہیں مگر بوجھل دل کیساتھ اس لیے لکھنا پڑتا ہے کہ یتیموں کے لئے
سرکاری طورپر کوئی سہارا یا سائبان میسر نہیں ہے۔ میں یہ تحریر لکھ رہاہوں
تو میرے آنسورواں ہیں اور دل بے کس و مجبور سوچ میں ہے کہ آج کے دن ایک ایک
یتیم بچے سے ملا جائے ، انہیں گلا لگایا جائے ، ان کا غم ہلکا کیا جائے، ان
کی داد رسی کی جائے ، ان کی مسکراہٹوں کو محفوظ کیا جائے ، ان کی خوشیوں کو
دوبالا کیا جائے اور انہیں پیغام دیا جائے کہ یتیمی کوئی گناہ نہیں ہے۔
یتیم ہونا اکثر اوقات احساس جرم بن جاتا ہے اس لیے یتیم بچے کو احساس
دلائیے کہ یہ اﷲ کی طر ف سے امتحان ہے اور اﷲ تعالی اُسے ہی آزماتے ہیں جو
اس کا محبوب بچہ ہوتا ہے۔یتیموں کے حقوق کے بارے میں سرکار دوعالم ؐــ نے
یتیم کی کفالت کرنے والے کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔’’میں
اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح نزدیک ہوں گے اور آپؐ نے
انگہشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملاتے ہوئے یہ بات فرمائی‘‘۔
گزشتہ سال الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر محمد عبدا لشکور کی یوم یتامی کے حوالے
سے ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ بتاتے ہیں کہ’’پاکستان میں 5 سے 6 کروڑ
خاندان اس وقت آباد ہیں ان میں بیشتر لوگوں پر اﷲ کا بہت کرم اور احسان ہے
کہ وہ خوشیاں مناتے ہیں ، اپنے بچوں کی برتھ ڈیز مناتے ہیں،وہ اور کئی طرح
کی تقریبات میں شرکت بھی کرتے ہیں اور خوشی حاصل کرتے ہیں، عیدیں مناتے ہیں
اور پاکستان کا دن مناتے ہیں۔ بلکل اسی طر ح کا ایک نیا تصور پچھلے سالوں
میں ابھر ا ہے اور وہ تصور یہ ہے کہ پاکستان کے یتیم بچوں کے لیے ایک دن
منا یا جائے، جسے یوم یتامیٰ کہا جائے۔او آئی سی اور ترکی نے مل کر اس دن
کا تعین کیا کہ آئندہ سے پندرہ رمضان کو ہر سال یوم ِیتامی منایا جائے گا ۔الحمد
ﷲ پاکستا ن کی بہت سی تنظیموں نے اشتراک کیساتھ یہ طہ کیا کہ پاکستا ن میں
یوم یتامی 15 رمضان المبارک کومنایا جایا کرے گا۔ میں ایسے سارے لوگوں کو
جن کو اﷲ نے بڑا خوشحال گھرانا دیا ہے ، ان سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ
وہ اس بات کا اہتمام کریں کہ ان کے پڑوس میں ، ان کے محلے میں ، ان کے شہر
میں کوئی یتیم بچہ کوئی ایساخاندان موجود ہوتو اس دن خاص طور پر اس کی فکر
کریں ، اس سے ملیں ، اسے تحفہ دیں ، اس کے سر پر ہاتھ رکھیں اور اس کے
تذکرے کریں۔یتیم بچوں میں جنہوں نے ماضی میں یا آج اچھی پوزیشنز لیں ہوں ا
ن کا تذکرہ کریں اور معاشرے کو یہ احساس دلائیں کہ یتیم بچہ بھی ہمارے لیے
اتنا اہم ہے جتنے ہمارے بچے ہیں تاکہ معاشرے کے اندر ایک بہت ہی خوبصورت
صورتحال پیدا ہو۔ یتیم بچہ مسکراہتا ہے تو پور امعاشرہ مسکراہتا ہے۔آئیں مل
جل کر اس ملک کے اندر آج کے دن نئے پھول اور نئی کونپلیں اُگائیں‘‘۔
حکومت وقت کو چاہے آج کے دن اعلان کرے کہ یتامی پروگرام کو بھرپور طریقے سے
چلایا جائے گا اور جس طریقے سے ہمارے بچے پڑتے ہیں اسی طرح اب سے ہر یتیم
بچے کا ڈیٹا ملک بھر سے جمع کیا جائے گا اور ان کی کفالت اور بیو ہ الاؤنس
کا بندوبست کیا جائے گا تاکہ یتیم اور غیر یتیم ایک ساتھ آگے بڑھ سکیں۔ اس
ضمن میں پاکستان میں یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت پر کام کرنے والے اداروں (پاکستان
آرفن کیئر فورم )سے بھی یتیم بچوں کا ڈیٹا بیس تیار کروایا جاسکتا ہے۔
الخدمت فاؤنڈیشن جو اس وقت 18,000 سے زائد بچوں کی کفالت کر رہا ہے، اس سے
یہ کام لیا جاسکتا ہے چونکہ ان کی Humanitarian Grounds پر ایک بڑا تجربہ
ہے۔
محمد عربیؐ نے وہ عظیم الشان اور ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جو شبِ تاریک میں
روشنی کا اندلیب ثابت ہوا ۔آپ ؐ نے فرمایا ’’تم میں بہترین وہ ہے جس سے
دوسرے انسان کو فائدہ پہنچے‘‘۔حضور رسالت مآب ؐنے رفاہِ عامّہ کے کاموں کی
منظم اور مربوط بنیاد رکھی خدمتِ خلق اور رفاہِ عامّہ کا جتنا کام ہورہا ہے
آپ ؐکی جامع تعلیمات کاپیش خیمہ ہے ۔ رسول اﷲ ؐ نے جن رفاعی کاموں اور
معاشی اقدامات پرزور دیا ہے ان میں مسکینوں کی خبر گیری، بیوہ کی امداد
،صنعت و حرفت سکھانا (Technical & Vocational Training)، حاجت مند کا نکاح
کرانا، یتیموں کی امداد، دین و ملت کی خدمت کرنے والوں کے خاندان سے حُسنِ
سلوک،انفاق فی المال، سود کی حرمت، حرام ذرائعِ معیشت کا انسداد، اسراف و
تبذیر کے احکامات شامل ہیں۔اسلام ہمیں احترام انسانیت اور خلق خدا کے ساتھ
ہمدردی کی تعلیم دیتا ہے ۔بیواؤں مزدوروں یتیموں غریبوں اور بے کسوں کے
ساتھ غمخواری اور اظہار ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے
کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے محض انسانیت کی
بنیاد پر ذات پات رنگ ونسل اور مذہب کی تمیز سے آزاد ہو کر پریشان حال
لوگوں کا ہاتھ تھامیں اور ہمدردی، مساوات اور رواداری کا نمونہ پیش کریں۔
|