کسی بھی ملک و معاشرے کی اقتصادی سماجی ترقی میں تعلیم کو کلیدی اہمیت حاصل
ہے۔تعلیم ہی دراصل وہ بنیاد ہے جس پر کسی بھی معاشرے کی مضبوط بنیاد رکھی
جا سکتی ہے۔اگر یہ بنیاد کمزور ہو گی تو معاشرہ پائیدار طور پر آگے نہیں
بڑھ سکے گا اور اگر بنیاد مضبوط ہو گی تو ترقی کی نئی راہیں اُس ملک و
معاشرے کا مقدر ہوں گی۔عہد حاضر میں دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی
مثال لے لیں ، تعلیم و تحقیق ہی اُس ملک کی کامیابیوں کے پیچھے کارفرما ہو
گی۔ دوسری جانب یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ تعلیم کسی معاشرے کو محض اقتصادی
سماجی ترقی سے ہمکنار نہیں کرتی ہے بلکہ وہاں ایسی اعلیٰ اخلاقی قدروں کو
بھی پروان چڑھاتی ہے جو نسل درنسل منتقل ہوتے ہوئے اُس معاشرے کا خاصہ بن
جاتی ہیں۔
لیکن یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم کا "معیار" کیا ہے یا یوں کہا
جائے کہ ماڈل کیا ہونا چاہیے تو صحیح رہے گا۔میرے خیال میں اگر تعلیم کسی
بھی ملک کی مقامی خصوصیات کی آئینہ دار ہو گی تو مزید موئثر ہو گی،اس کا ہر
گز یہ مطلب نہیں کہ باقی دنیا سے بالکل کٹ کر ایک الگ ہی نظام تعلیم اپنایا
جائے مگر "اندھی تقلید" بھی نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان کے تناظر میں ہماری
اپنی ثقافت و روایات ہیں ،بہترین اخلاقی قدریں ہیں اور متنوع سماج ہے۔ان
تمام خصوصیات کی جھلک لازماً ہمارے نظام تعلیم میں بھی نظر آنی چاہیے ۔
پاکستان سے ہٹ کر اب اگر رخ کریں چین کا تو ، چارمئی چین میں یوتھ ڈے کے
طور پر منایا جاتا ہے۔اسی مناسبت سے چینی صدر شی جن پھنگ نے حال ہی میں
بیجنگ کی رینمن یونیورسٹی کا دورہ کیا ۔انھوں نے ملک کی تمام قومیتوں کے
نوجوانوں کو یوتھ ڈے کی مبارکباد دی اور امید ظاہر کی کہ چینی نوجوان قومی
نشاتہ الثانیہ کی جستجو کریں گے اور عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق سخت محنت
اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے اپنی جوانی کی زندگی بسر کریں گے۔ رینمن
یونیورسٹی کا شمار چین کی 10 اعلیٰ یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ چینی نائب
وزیر اعظم لیو حے کا شمار یونیورسٹی کے مشہور سابق طلباء میں ہوتا ہے۔اس
یونیورسٹی کی تاریخ 1937 میں قائم ہونے والے شانبی پبلک اسکول سے ملتی ہے۔
یونیورسٹی نے کئی دہائیوں میں ترقی کی ہے، جس میں ہیومینٹیز اور سوشل
سائنسز کے ساتھ ساتھ مارکسزم کے علوم پر توجہ دی گئی ہے۔
شی جن پھنگ اسکول کے تاریخی ارتقاء، تدریسی اور سائنسی تحقیقی کامیابیوں
اور قدیم ادب اور کتابوں کے تحفظ اور استعمال کو مضبوط بنانے کے لیے یکے
بعد دیگرے کلاس رومز، میوزیم اور لائبریریوں میں بھی گئے۔ انہوں نے کلاس
روم میں تدریسی عمل کا مشاہدہ کیا، نوجوان طلباء کے ساتھ تبادلہ خیال کیا
اور اُن کے باتوں کو غور سے سنتے ہوئے بحث میں حصہ لیا۔اس موقع پر شی جن
پھنگ نے ریٹائرڈ پروفیسرز، ماہرین اور اساتذہ کے نمائندوں سے بھی ملاقات
کی۔شی جن پھنگ نے اساتذہ اور طلباء کے نمائندوں کے ساتھ گفتگو میں اس بات
پر زور دیا کہ چین کی منفرد تاریخ، ثقافت اور قومی حالات ہیں اور چینی
خصوصیات کی حامل عالمی معیار کی جامعات کی تعمیر میں دوسروں کی تقلید نہیں
کی جا سکتی ، اسے ایک نئی راہ پر گامزن ہونا چاہیے۔ تعلیم ایک "کارآمد اور
محبت کرنے والا" مقصد ہے، اور صرف محبت کے ساتھ ہی ہم یہ ذمہ داری نبھا
سکتے ہیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ ہر طالب علم میں اپنی گرمجوشی اور جذبات
ڈالیں، تاکہ ہر بچے کو زندگی میں چمکنے کا موقع ملے۔
یہی وہ حوصلہ افزائی ہے جو ہر طالب علم کو آگے بڑھنے کا جذبہ عطاء کرتی
ہے۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ چین اپنی منفرد خصوصیات کی روشنی میں اعلیٰ
معیار کی جامعات تعمیر کرنا چاہتا ہے تاکہ نوجوان چینی نسل اپنے اسلاف کی
بلند اخلاقی قدروں سے وابستہ رہ سکے اور عہد حاضر کے جدید رجحانات پر عمل
پیرا ہوتے ہوئے اپنی قومی خصوصیات کو ہمیشہ یاد رکھ سکے۔ یہی وہ نظام تعلیم
ہے جس نے چین کو ایک ترقی پزیر ملک ہونے کے باوجود آج ترقی یافتہ ممالک کی
صف میں لا کھڑا کیا ہے اور ترقی و کامیابیوں کو سلسلہ جاری و ساری ہے۔
|