پاکستان اور دنیا کے چند آسیب زدہ مقامات۔۔ کیا آپ یہاں اکیلے جانے کی ہمت کریں گے؟

image
 
بچپن میں گرمیوں کی چھٹیوں میں جب نانی کے گھر کزنز جمع ہوتے تھے تو ہمارے ہاں ایک روایت تھی کہ رات کو فارغ ہو کر سب بچے نانی خالہ کے گرد بیٹھ جاتے اور ڈراؤنے قصے کہانیاں بڑے سنسنی خیز انداز میں بیان ہوتیں، بڑوں کے پاس ہر دفعہ ان قصےکہانیوں میں ایک جدت نظر آتی- جو سب مل کر انجوائے کرتے اور ڈر کے مارے کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلتا جو جہاں ہے وہیں کی بنیاد پر اسی جگہ سو جاتا۔ اور شایدیہ ٹرینڈ انٹرنیشنل ہے ڈراؤنی باتیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں پتا نہیں ان میں کیا پراسراریت ہے کہ انسان ڈرنے کے باوجود ان قصے کہانیوں کو انجوائے کرتا ہے- لوگوں کی دلچسپی کے پیش نظر آئے دن horror movies بنائی جا رہی ہوتی ہیں۔ یہ موویز فلمانے کے لئے ایسی جگہیں چنی جاتی ہیں جن کا کوئی ڈراؤنا پس منظر ہو یا ان جگہوں کی بناوٹ ایسی ہو کہ لائٹنگ افیکٹس کے ذریعے ان کو مزید haunted بنا دیا جائے۔یہاں ہم پاکستان اور دنیا کی کچھ (لوگوں کے مطابق )آسیب زدہ جگہوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ کچھ جگہیں ہیں جن سے جڑی ڈراؤنی کہانیاں یقیناً آپ کے بھی زیر سماعت آئی ہوں گی۔
 
Bride at Karsaz
کراچی کے علاقے کارساز کی دلہن صرف مردوں کو نظر آتی ہے۔ ہم نے آج تک کسی عورت سے نہیں سنا کہ اس نے اس دلہن کو دیکھا ہے۔ اب تو یہ علاقہ گنجان آباد ہے لیکن پہلے اس علاقے میں رات کے وقت عجیب سنسانیت ہوتی تھی۔ اگر کبھی رات کو اس روڈ سے واپس آنا ہو تو آیت الکرسی پڑھ کر انتہائی خوف کے عالم میں یہ راستہ گزارا جاتا تھا۔ کارساز کی دلہن کی کہانی کا پسِ منظر یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کسی پرانے وقت میں اس سڑک سے ایک دولہا دلہن گزر رہے تھے کہ اس دوران ان کی کار کو حادثہ پیش آگیا- اس حادثے کے نتیجے میں دولہا موقع پر ہی ہلاک ہوگیا جبکہ دولہن اب بھی لوگوں کو رات کے وقت اس سڑک پر دکھائی دیتی ہے- اس کہانی کی حقیقت سے آج تک پردہ نہیں اٹھ سکا-
image
 
Mohatta Palace
کراچی میں واقع موہٹہ پیلس ایک تاجر کا سمر ہاؤس تھا اور کہا جاتا ہے کہ برطانوی راج کے زمانے میں اس محل میں آنے والے کو اس تاجر کا بھوت ستاتا تھا۔ عجائب گھر کے محافظوں نے دعویٰ کیا ہے کہ رات کے وقت اس جگہ پر روحوں کی موجودگی کو "محسوس" کیا جاتا ہے۔
image
 
Sheikhupura Fort
لاہور کے اس قلعے میں کوئی ملکہ کبھی یہاں رہتی تھی۔ قلعہ بہت خراب حالت میں ہے کوئی بھی اس کی تعمیر نو میں مدد نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ جگہ ابھی بھی ان رانیوں کی روحوں کے قبضے میں ہے۔
image
 
Shamshan Ghat
شمشان گھاٹ پاکستان کے حیدرآباد کے علاقے میں ہے۔ بہت سے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہاں وہ روحیں ہیں جن کے جسم مر چکے ہیں لیکن روحیں مرنے کے بعد بھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ پائیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہندوؤں کے جلانے اور دفنانے کی رسومات ادا کی جاتی ہیں اور یہ جگہ تقریباً 250 سال پرانی ہے۔ اگر آپ واقعی کچھ خوفناک غیر معمولی سرگرمی کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں، تو یہ جگہ فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ گارڈز اور دیگر عملے کے مطابق انہوں نے چھوٹے بچوں کو غروب آفتاب کے بعد کھیلتے اور عجیب آوازیں نکالتے دیکھا ہے۔ اس نے کبھی کسی کو دروازے سے آتے نہیں دیکھا۔ بچے بس کہیں سے آتے ہیں اور بعد میں غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ ڈراؤنی فلم بنانے کے لئے بہترین لوکیشن ہے۔
image
 
Chokandi Graveyard
چوکنڈی قبرستان، کراچی، پاکستان کی قومی شاہراہ پر واقع ملک کے قدیم ترین قبرستانوں میں سے ایک ہے، جو لگ بھگ 600 سال پرانا ہے۔ کوئی بھی غروب آفتاب کے بعد یہاں جانے کی کوشش نہیں کرتا ہے کیونکہ یہاں غیر معمولی سرگرمیاں نوٹ کی گئی ہیں۔ آس پاس رہنے والے لوگوں کے مطابق انہوں نے لوگوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنی ہیں اور عجیب و غریب مناظر بھی دیکھے ہیں ۔ مجموعی طور پر چوکنڈی قبرستان کی اپنی قدیم خوبصورتی ہے جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے لیکن غروب آفتاب کے بعد کوئی بھی اسے دیکھنے کی ہمت نہیں کرتا۔ یہاں کالے جادو جیسی سرگرمیاں بھی نوٹ کی گئی ہیں ۔
image
 
Koh-i-Chiltan
بلوچستان کے اس پہاڑ کو ایک مقامی افسانے کے مطابق "چالیس بچوں کی روحوں" کے زیرِ تسلط کہا جاتا ہے۔ کہانی کچھ یوں تھی کہ مدتوں پہلے ایک جوڑا تھا ان کے بچے نہیں ہو رہے تھے انھوں نے ایک بزرگ سے دعا کرنے کو کہا بزرگ نے کہا یہ اللہ کی مرضی ہے لیکن انکی ضد پر بزرگ نے انھیں اولاد کی دعا دی۔ اس جوڑے کے گھر چالیس بچے پیدا ہوئے۔ غریب تھے اتنے بچے کیسے پالیں انھوں نے سوچا ایک بچہ رکھ لیتے ہیں اور باقی کو برفیلی پہاڑ کی چوٹی پر چھوڑ آتے ہیں۔ ماں نے بہت بھاری دل کے ساتھ بچے چھوڑے اور ایک کو ساتھ لے آئی کچھ عرصے بعد ماں نے سوچا کہ میں اپنے بچوں کی باقیات دفن کر آؤں دل نہیں مانتا تھا۔ پہاڑ پر گئی تو دیکھا سب بچے صحیح سلامت کھیل رہے ہیں وہ چالیسویں بچے کو بھی اپنے باقی 39 بچوں کے پاس چھوڑ کر خوشی خوشی شوہر کو لینے آئی تاکہ وہ بھی دیکھے لیکن جب وہ واپس گئے تو جگہ کو بالکل ویران پایا بس اس وقت سے وہاں سے بچوں کے ہنسنے کھیلنے کی آوازیں آتی ہیں۔ اب اس بات کی تصدیق کے لئے اس جگہ جانے کی ہمت کرنی ہوگی۔
image
 
دنیا کی چند خوفناک جگہیں:
 
Lawang Sewu, Indonesia
ڈچ کالونسٹ نے اسے بنایا اور جاپانیوں نے اسے ایک ظالمانہ حراستی کیمپ میں تبدیل کر دیا، جہاں قیدیوں سے پوچھ گچھ اور تشدد کیا جاتا تھا۔ کچھ قیدی تشدد کی وجہ سے مارے بھی گئے۔ ان کی روحیں یہاں بھٹکتی پھرتی ہیں۔ ان دنوں، سیاح اس کے بوسیدہ میناروں اور محرابوں کے درمیان بھوتوں کا experience کرنے آتے ہیں، 2007 میں ایک انڈونیشین horror فلم بھی یہاں فلمائی گئی ہے۔
image
 
Mount Everest, Nepal
ایورسٹ سے نمٹنے والے کوہ پیما اینڈریو ارون کے بھوت سے اچھی طرح واقف ہیں، ارون ،جو 1924 میں پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے۔ وہ اور ان کے ساتھی کوہ پیما جارج میلوری، جن کی لاش 1999 میں ملی تھی، ایک ہزار فٹ کے فاصلے پر ایورسٹ کی سختیاں جھیلتے ہوئے غائب ہو گئے تھے۔ وہ چوٹی تک پہنچنے والے پہلے کوہ پیما بننا چاہتے تھے۔ ارون کی لاش ابھی تک نہیں ملی۔
image
 
St Augustine Lighthouse, USA
 یہ کھمبے نما ٹاور، فلوریڈا میں سینٹ آگسٹین لائٹ ہاؤس ہے جو بھوتوں کو دیکھنے کے شوقین لوگوں کے لیے ایک روشنی کی طرح کام کرتا ہے، جو اندھیرے کے بعد ٹاور اور کیپر کے گھر کو تلاش کرنے آتے ہیں ۔ انہیں یہاں لائٹ ہاؤس کی تعمیر کے دوران مرنے والے خاندان کے بارے میں ڈراؤنی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں ۔ قیاس ہے کہ ایک آدمی اور اس کی بیٹیاں لائٹ ہاؤس گرنے کے سبب خلیج میں ڈوب گئے تھے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو ٹاور میں ہنستے ہوئے سنا جا سکتا ہے، اور کبھی کبھار ایک لڑکی کو وہی مخملی نیلے لباس میں دیکھا گیا ہے جس میں وہ مر گئی تھی۔
image
 
Christchurch Priory, UK
 یہ کہا جاتا ہے کہ مدتوں پرانے راہبوں کی بے چین روحیں انگلینڈ کے جنوبی ساحل پر واقع ایک عظیم الشان پیرش چرچ، کرائسٹ چرچ پروری کے میدانوں میں گھومتی ہیں۔ یہاں آس پاس کی سڑکوں پر 'گرے لیڈیز' کے بھوت نظر آتے ہیں اور پرانے سیکسن ٹاؤن کے وزٹ پر سیاح اس دکان پر جا سکتے ہیں جسے مقامی لوگ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے کیونکہ وہاں بھوتوں کی عجیب وغریب سرگرمیاں دیکھی گئی تھیں۔
image
 
عموماً بھوت پریت کی کہانیوں کے پیچھے کچھ غیر قانونی سرگرمیاں ہی ہوتی ہیں۔ لوگوں کے زریعے ان جگہوں کے بارے میں فرضی کہانیاں گڑھ دی جاتی ہیں تاکہ لوگ ان علاقوں کا رخ نہ کریں۔ ۔ ورنہ گورکن تو اپنی فیملی سمیت قبرستان میں رہتے ہیں۔ سب سے زیادہ قبرستان سے جڑی کہانیاں سننے میں آتی ہیں۔ لیکن یہ باتیں ایک معمہ ہیں جن کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔
 
YOU MAY ALSO LIKE: