رمضان المبارک مغفرت و بخشش کا عظیم الشان مہینہ ہے اور اس مقدس و با برکت
ماہ کا پہلا عشرہ رحمت ختم ہوچکا ہے اور دوسرا عشرہ جاری ہے جو مغفرت کا
کہلاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس مہینے کی برکت کی وجہ سے ہم سے
راضی اور خوش ہوکر ہماری مغفرت و بخشش کردے۔اس کا تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی
کا کہلاتاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں آخرت میں جہنم کی آگ سے
خلاصی اور اْس سے نجات عطافرمائے۔بلاشبہ رمضان المبارک کے درمیانی عشرہ میں
غفورالرحیم کی جانب سے مغفرت وبخشش کا دریا بہایا جاتا ہے۔ ہم پر لازم ہے
کہ اہتمام کے ساتھ روزے رکھیں، اپنے گناہوں،اپنی کوتاہیوں اور اپنی خامیوں
کو یاد کرکے سچے دل سے توبہ و استغفار کریں۔اگر اس عظیم الشان مہینہ کو
پالینے کے بعد بھی کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت اور جہنم سے خلاصی
پانے سے محروم رہ گیا تو وہ انتہائی بدقسمت اور حرماں نصیب شمارہوگا۔ بہت
سی قومیں ایسی ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے توبہ و استغفار کرنے کی وجہ سے ان
پر سے عذاب ٹال دیا۔چنانچہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے بارے میں آتا
ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے عذاب ان کے قریب آچکا تھا اور انہوں نے اپنی
آنکھوں سے اسے دیکھ لیا تھا، لیکن اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اْنہیں توبہ تائب
ہونے کی توفیق ملی، چنانچہ ساری قوم اپنے گھروں سے باہر نکل آئی اور اﷲ
تعالیٰ سے روروکر اور گڑگڑا کر توبہ کی تو اﷲ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول
فرمائی اور اْن کی مغفرت فرماکر اْن پر سے عذاب ہٹا دیا۔رمضان المبارک کو
اس لئے رمضان کہا جاتا ہے کہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے اورتوبہ و استغفار
تو ویسے بھی اس مہینہ کے اہم ترین مقاصد میں سے ہیں، چنانچہ جس شخص کی توبہ
قبول ہوگئی اوراﷲ تعالیٰ نے اسے بخش دیاتو گویا وہ رمضان المبارک کے فضائل
وبرکات سے مالامال ہوگیا۔ خود آنحضورؐ رمضان المبارک کے دوسرے عشرے میں
انتہائی کثرت اور اہتمام سے توبہ و استغفار کرتے تھے۔دوسرے عشرے کی دعا :
’’میں اﷲ تعالیٰ سے تمام گناہوں کی معافی مانگتا ہوں (جو میرا پروردگار ہے)
اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔‘‘ویسے تو اِس مہینے کے ہر لمحے
استغفارکرنا موجب ثواب اور برکت ہے ہی لیکن سحری کے وقت استغفار کرنا بہت
زیادہ اجر اور ثواب رکھتا ہے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:’’متقی لوگ باغات
اور چشموں میں اس طرح رہیں گے کہ ان کا پروردگار انہیں جو کچھ دے گا، اسے
وصول کر رہے ہوں گے۔وہ لوگ اس سے پہلے ہی نیک عمل کرنے والے تھے اورپھر وہی
رات کے پچھلے پہروں میں استغفار کرتے تھے۔‘‘
رمضان المبارک میں سحری کے بعد سے لے کرشام افطاری سے پہلے تک مسلمان رضائے
الٰہی کے لئے بھوکے اور پیاسے رہتے ہیں، تو اﷲ تعالیٰ کو اْن کی یہ ادا
اتنی پسند آتی ہے کہ اگر انسانوں کو معلوم ہوجائے کہ اﷲ تعالیٰ اِس کے بدلے
میں کیا کچھ آخرت میں عطا فرمائیں گے تو اْن کے کلیجے خوشی سے پھٹ جائیں۔اﷲ
تعالیٰ کو انسانوں کے بھوکا اور پیاسا رہنے سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ وہ تو
انسانوں کی بھلائی چاہتا ہے کہ وہ روزہ رکھنے کی برکت سے اپنی روح و جسم
اور اپنے اعضاء و جوارح (دل و دماغ،ہاتھ، پاوں اور زبان ) کی اصلاح کرکے
اپنی دْنیا اور آخرت کی زندگی سنوار کر، کامیاب ہوکر آخرت کی نعمتیں اپنے
دامن میں سمیٹ لیں۔گویاروزہ رکھنا صرف بھوکا اور پیاسارہنے کا نام نہیں
بلکہ آ نکھ، کان، زبان کا بھی روزہ ہونا چاہئے۔ جس طرح سال گزرنے کے بعد
مال کی زکوٰۃنکلتی ہے، بالکل اسی طرح روزہ بھی جسم کی زکوٰۃ کی مانند ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا کہ: ’’تین
لوگوں کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔ ایک روزہ دار کی افطار کے وقت۔ دوسری عادل
بادشاہ (یعنی عدل و انصاف کرنے والے حاکم) کی،اور تیسری مظلوم کی۔‘‘(جامع
ترمذی) لہٰذا جتنا ممکن ہوسکے جانے انجانے میں کئے گئے گناہوں پر نادم اور
شرمندہ ہو کر معافی مانگنی چاہئے کیونکہ وہ ذات بہت عظیم ہے۔ معاف کرنے پر
آئے تو بڑے سے بڑے گناہ گار کو بھی معاف کر دیتی ہے اور اس کی پکڑ بھی بہت
سخت ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ: ’’اﷲ تعالیٰ ہر رات تہائی حصے کے بعد فرماتا
ہے: ’’‘کوئی ہے جو مجھ سے رحمت مانگے، کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے، کوئی
ہے جو مجھ سے دْعا مانگے تاکہ میں اپنے بندے کی حاجت پوری کروں؟‘‘ (صحیح
بخاری)
حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اﷲ ؐنے ارشاد فرمایا
کہ: ’’رمضان المبارک کے ہر دن اوررات میں اﷲ تعالیٰ کے یہاں جہنم کے قیدی آ
زاد کئے جاتے ہیں اورہر مسلمان کے لئے ہر شب و روز میں ایک دْعا ضرور قبول
ہوتی ہے۔ رمضان المبارک کا یہ درمیانی عشرہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ا
طاعت گزار بندوں کے لئے بڑے انعام و اکرام اور غنیمت کی چیز ہے۔اﷲ تعالیٰ
کی ذات گرامی ویسے تو تمام لوگوں کے لئے غفورالرحیم ہے ہی، مغفرت و بخشش
طلب کرنے والے لوگوں کی بہت قدر دان ہے لیکن رمضان المبارک کے درمیانی عشرہ
میں اس کی جانب سے مغفرت وبخشش کا دریا بہایا جاتا ہے۔ حضرت سلمان فارسی
رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا: ’’ اس مبارک مہینے کا
درمیانی حصہ مغفرت کا ہے۔‘‘آپؐ کے اس فرمان کی روشنی میں ہم پر لازم ہے کہ
رمضان المبارک کے تقاضے اور اْس کے آداب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اہتمام
کے ساتھ روزے رکھیں، اپنے گناہوں، اپنی کوتاہیوں اور اپنی خامیوں کو یاد
کرکے سچے دل سے توبہ کریں اور استغفار کی کثرت کریں۔ قرآن مجید میں اﷲ
تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے میرے پیغمبرؐ! میرے بندوں سے کہہ دو کہ جنہوں نے
اپنی جانوں پر ظلم کئے ہیں وہ رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہوں بے شک اﷲ
تعالیٰ سارے گناہوں کو بخشنے والا مہربان ہے اور سچے دل کے ساتھ توبہ کرتے
ہوئے اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اسکے احکام تسلیم کرو قبل اس کے کہ تم پر
عذاب ا?جائے اور کوئی تمہاری مدد نہ کرسکے۔
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑا گناہ گار شخص بھی جب سچے دل
کے ساتھ اﷲ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرتا ہے اور آئندہ گناہوں سے بچنے اور
دور رہنے کا عہد کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی جانب سے اس کی مغفرت و بخشش کردی
جاتی ہے۔حضرت کعب بن عجرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ: ایک مرتبہ نبی کریم ٔ
نے ارشاد فرمایا: منبر کے قریب ہو جاو،توہم لوگ منبر کے قریب ہوگئے، جب
حضوراکرم نے منبر کی پہلی سیڑھی پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا : ’’آمین‘‘ جب
دوسری سیڑھی پر قدم مبارک رکھا تو پھر فرمایا : ’’آمین‘‘جب منبر کی تیسری
سیڑھی پر قدم مبارک رکھا تو پھر فرمایا: ’’آمین‘‘،جب آپ ؐخطبہ سے فارغ ہو
کر منبرسے نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا:’’اے اﷲ کے رسول آج آپؐ نے
منبر کی تینوں سیڑھیوں پر قدم مبارک رکھتے ہوئے ’’ آمین‘‘ کے الفاظ ارشاد
فرمائے ہیں، اس طرح پہلے نہیں ہوا،تو آپ ؐنے ارشاد فرمایا کہ: ’’اْس وقت
جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے۔ جونہی میں نے منبر کی پہلی سیڑھی پر
قد م رکھا تو انہوں نے کہا: ’’اے اﷲ کے رسول، میں دعا کرتاہوں آپ ؐ
’’آمین‘‘ کہئے۔ پھر اْنہوں نے دعا کی کہ: ’’ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان
المبارک کا مہینہ پایا اوراﷲ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش نہ کراسکا۔‘‘
میں نے کہا: ’’آمین۔‘‘ جب میں نے منبر کی دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو
جبرئیل علیہ اسلام نے دعا کی کہ: ’’ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے آپؐ کا
ذکر مبارک ہو اور وہ آپؐ پردرود نہ بھیجے۔‘‘میں نے کہا : ’’آمین۔‘‘ اور جب
میں نے منبر کی تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرئیل علیہ اسلام نے دعاکی: ’’
ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے اپنے والدین میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو
بڑھاپے کی حالت میں پایا اوروہ ان کی خدمت کر کے جنت میں نہ جاسکا۔‘‘ میں
نے کہا: ’’آمین۔‘‘ اندازہ کیجئے کہ حضور نبی کریم تورحمۃ للعالمین ہیں، آپؐ
نے اپنے دشمنوں کے لئے بھی بددعا نہیں کی لیکن یہ بددعائیں حضرت جبرئیل ؑ
نے دی ہیں جو تمام فرشتوں میں سب سے افضل ہیں اور ان پر ’’آمین‘‘ آنحضرت نے
فرمائی ہے تو ان کی قبولیت میں تو کوئی ترددہو ہی نہیں سکتا۔ پس یہ انتہائی
خوف و خشیت اور احتیاط و امتحان کا مقام ہے کہ ہم رمضان المبارک کے اس
دوسرے عشرے سے فائدہ اْٹھا کر اپنے گناہوں، کوتاہیوں، خطاوں اور لغزشات سے
تائب ہوکر اْس کی جانب سے مغفرت اور بخشش کا پروانہ حاصل کر سکتے ہیں۔
|