لاء آف گیونگ ( Law of giving)

فلاحی ادارے معاشرے کا حسن ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب معاشرہ اور افراد اپنا اپنا کردار ادا نہیں کرتے تو این جی اوز یعنی فلاحی ادارے وجود میں آتے ہیں۔ یہ ادارے عوام کے تعاون سے اپنی خدمات کی ترسیل کرتے ہیں ۔ فلاحی اداروں سے قطع نظر بھی یہ کوشش کی جانی چاہئے کہ ہم میں سے ہر فرد اپنی ذات میں خود ایک این جی او بن جائے اور اپنے اطراف موجود یتامیٰ، مساکین و بیواؤں اور مجبوروں کی فلاح و بہبود کیلئے انفرادی و اجتماعی اقدامات کرے تو معاشرے کا نہ صرف حسن بحال ہو جائے گا بلکہ سوسائٹی کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

فلاحی اداروں کو اپنی کاوشیں جاری رکھنے کے سلسلے میں مختلف چیلنجز سے گزرنا پڑ تا ہے جس کی وجہ سے مجموعی رفاہی کاموں کا دائرہ کار ہمارے ہاں محدود نہیں تو بہت وسیع بھی نہیں ہے ۔ تاہم اس کے باوجود مستند فلاحی اداروں کا وجود معاشرے کیلئے نہایت حوصلہ افزاء ہے ۔ ویسے بھی پاکستانی قوم کی چیریٹی کے حوالے سے تعریف تو دنیا کے ہر فورم پر کی جاتی ہے۔

میری نظر میں جو چند قابلِ قدر اور با اعتماد رفاہی ادارے ہیں ، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے ۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ بہت محدود وسائل میں بہت بڑا کام کر رہا ہے ۔ یہ پاکستان کے پسماندہ دیہاتوں میں کام کرنے والا سب سے بڑا دیہی تعلیمی نیٹ ورک ہے جس کے تحت ان دور دراز دیہاتوں میں 650 سے زائد سکول کم وسیلہ خاندانوں کے 1 لاکھ کے قریب بچوں کو نہ صرف زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں ، بلکہ تعلیمی ضروریات بھی ان کی دہلیز تک پہنچاتے ہوئے ہزاروں مستحق اور یتیم بچوں کی تعلیمی کفالت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ دیہاتوں کے نظر انداز سپیشل بچوں کے علاوہ اقلیتی برادی کے بچوں کیلئے تعلیمی کاوشیں بھی غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی کارکردگی میں شامل ہیں ۔
غزالی ٹرسٹ کی انہی کاوشوں کی بدولت ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید عامر جعفری کو حال ہی میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ ’’تمغہ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا ہے ۔ صدر مملکت پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی خدمات کی تعریف کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے یہ اعزاز سید عامر جعفری کو سونپا ۔ بلاشبہ یہ ایوارڈ دئیے جانے کا مطلب حکومت پاکستان کی جانب سے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی کارکردگی کا اعتراف ہے ۔ دوسری جانب عالمی فلاحی ادارے بھی غزالی ٹرسٹ کے معترف ہیں ۔

ایسے علاقے جہاں لوگوں کو روز مرہ ضروریات پوری کرنے کیلئے وسائل ہی میسر نہیں ، جہاں لوگ اپنے بچوں کی پڑھائی کیلئے فکرمند ہوتے ہوئے بھی ان کی تعلیم کیلئے کچھ نہیں کر پاتے ۔ ایسوں کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا ذمہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نے اٹھایا اور ان کے بچوں کی تعلیمی کفالت مخیر حضرات کے تعاون سے کی جا رہی ہے ۔ خواندہ دیہات غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کا ویژن ہے ۔ یقینی طور پر دیہات خواندہ ہوں گے تو ہی وطن عزیز 100 فیصد خواندگی کا ہدف حاصل ہو سکے گا ۔

مخیر حضرات اپنے عطیات کی لسٹ میں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کو بھی ضرور شامل کریں ۔ یہ ہر لحاظ سے ایک مستند ادارہ ہے ۔ ایسی این جی اوز کا وجود ہمارے معاشرے کیلئے کسی غنیمت سے کم نہیں ہے ۔ خدمات کی بلا تعطل ترسیل کیلئے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ جیسے اداروں کی سرپرستی اشد ضروری ہے ۔ بدقسمتی کے ساتھ ہم بحیثیت معاشرہ اپنے فرائض سے غافل ہیں ۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کیلئے معاشرے کے تمام طبقے اپنی اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں اور ایک ’’انسان دوست‘‘ معاشرے کی تشکیل کیلئے جدوجہد کریں ۔

آئیے، اس رمضان المبارک میں Law of Giving کا نظریہ اپنانے کا عہد کریں ۔ خود سے وعدہ کریں کہ ہم سب ملکر اپنے معاشرے کو بچانے کی جدوجہد کرتے ہوئے غریب ، یتیم اور نادار بچوں کی زندگی میں امید کا دیا روشن کریں گے اور ان کی سرپرستی کرتے ہوئے انہیں ملکی ترقی کی دوڑ میں شامل کریں گے۔ یہ اقدام اسلئے بھی ضروری ہے تاکہ وہ ٹھکرائے ہوئے بچوں کی حیثیت اختیار نہ کریں بلکہ پھلیں، پھولیں اور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ بلاشبہ یہ Law of Giving ہی ہے جو ہمارے سماج کی ترقی کا ضامن ہے …… اگر ہم Law of Giving کا نظریہ اپنا لیں تو ہمارا معاشرہ بہت خوبصورت ہو جائے گا۔
 

Muhammad Noor-Ul-Huda
About the Author: Muhammad Noor-Ul-Huda Read More Articles by Muhammad Noor-Ul-Huda: 85 Articles with 83109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.