نہ اب رقیب، نہ ناصح، نہ غمگسار کوئی
تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا
!#والد محترم
کچھ یادیں دھندلی ہوجاتی ہیں،پر کچھ یادیں ایسی بھی رہ جاتی ہیں جو کبھی
مٹنے کا نام ہی نہیں لیتی،ان میں سے کچھ یادیں آپ کو رلاتی ہیں تو کچھ
ہنساتی ہیں۔ کہانیاں،افسانے،کردار،وہی بُنتا ہے جو کرب میں مبتلاہو،دردمیں
ہو، پر حقیقت کو بُنانہیں جاتا بس اسے لفظوں میں سمو کر یادوں کی پنوں پہ
چھاپ دیا جاتا ہے۔
عید کا دن یوں تو خوشی کا دن ہوتا ہے۔ہر شخص روزمرہ زندگی سے تھورا ہٹ کر
خوشیاں منانا چاہتا ہے۔کچھ وقت اپنوں کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے۔کچھ لمحے
محبت کے سائے میں جینا چاہتا ہے۔ اپنے سے وابستہ رشتوں کو خوشی سے مہکتا
ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ رنگ برنگے کپڑے،کانچ کی چوڑیاں، مہندی کا رنگ اور آپس
میں میل جول کچھ عید کے نمایاں رنگ ہیں جو ہم میں سے اکثر ہی لوگ دیکھتے
اور جیتے ہیں۔۔۔۔
مگر اکثر لوگ اس بے شمار خوشیوں کے دن بہت اداس ہوتے ہیں۔ان کے لئے عید کے
دن اور عام دن میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ماسوائے اس کے کہ عید کا دن عام
دنوں سے زیادہ اداسی اور خاموشی سے گزر جاتا ہے۔۔ دن کوئی بھی ہو اس کو گزر
ہی جانا ہوتا ہے۔ چاہے کوئی خوشی سے منائے یا اداسی سے۔
اداسی کی موجودگی یا اپنوں کے بچھڑ جانے سے دِنوں کے آنے اور جانے میں کوئی
فرق نہیں آتا۔۔۔ فرق آتا ہے تو صرف اور صرف دل کی اداسی میں جو اماوس کی
رات کی مانند ہوتی جاتی ہے۔
لفظوں کا کھیل بہت ظالم ہے ہم تمام عمر ان لفظوں میں جیتے اور مرتے
ہیں۔۔۔لفظ احساس رکھتے ہیں۔۔۔لفظ جذبات رکھتے ہیں۔۔۔لفظ زندگی بھی ہیں۔۔لفظ
موت بھی۔۔۔لفظ خوشی بھی ہیں۔۔۔لفظ تڑپ بھی۔۔۔لفظ آہ بھی ہیں۔۔
ساری عمر یہ الفاظ کا کھیل ہمیں مصروف رکھتا ہے۔”زندگی“ کے پانچ حروف میں
”دکھ“ کے تین حروف شامل ہو جائیں تو ”عید“کے تین حروف کبھی بھی ”خوشی“ کے
چار حروف کو محسوس نہیں کر سکتے۔کیونکہ تین حروف ”دکھ“ کے ہمیشہ ہی ”خوشی
“کے چار حروف کو کھا جاتے ہیں جیسے کہ ”موت“۔۔۔۔ اور”موت“ کے تین حروف
”عید“ کے تین حروف کو نگل جاتے ہیں جیسے اندھیرا اجالے کو رات ہوتے ہی نگل
جاتا ہے۔
پھر یہ ”موت“ کے تین حروف ہر سال ”دکھ “کے تین حروف کو مزید شدت سے نازل
کرتے ہیں پھر حروف کی آندھی آتی ہے۔؟اور سسکیاں،چیخیں،آہیں، اور کسک کے بے
شمار حروف معصوم سے ”دل“کے دو حروف پر بہت گِراں گزرتے ہیں کہ انسان جیتے
جی مر جاتا ہے۔۔۔
جو آتا ہے اس نے واپس بھی لوٹ جانا ہے۔۔۔آنا جتنی خوشی لاتا ہے بچھڑنا اتنا
ہی غمزدہ ہوتا ہے۔
حروف کا ظالم کھیل جاری رہتا ہے۔۔۔ کسی کی ”دھڑکن “کے پانچ حروف بند ہو
جائیں تو سانس کے ”چار“ حروف خودبخود بند ہو جاتے ہیں۔ پھر صرف ”روح “کے
تین حروف اکیلے آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔جس کے بعد”دعا“کے تین حروف بھی
آسمان کا رخ کرتے ہیں مگر دعا کے حروف اکیلے نہیں جاتے بلکہ ”سسکیوں“ کے چھ
اور ”آہ “کے دو حروف بھی اس کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔
جانے والے چلے جاتے ہیں۔رہ جانے والے ہر عید پر یاد کر کے روتے ہیں۔۔۔
سسکتے ہیں ،تڑپتے ہیں۔۔۔بے شمار عید کے رنگوں میں بھی یاد درد بن کر اور
بچھڑنے والے کی جدائی غم بن کر موجود رہتی ہے۔
زندگی میں غم وہ نہیں جو نظر آئے۔۔۔غم وہ ہے جو کسی کو اور نہ خود کو نظر
آئے،جس کی سمجھ بھی نہ آئے، بس رفتہ رفتہ دیمک کی طرح ہمارے وجود کوچاٹ
جائے اور جب تک ہمیں یا کسی کو علم ہو ہمارا وجود کھوکھلا ہو چکا ہوتا ہے۔۔
۔ کھوکھلا وجود رکھنے والے اکثر ہی پھر بے تحاشا ہنستے ہیں اور ہنستے ہنستے
مر جاتے ہیں دنیا ان کی ہنسی سے دھوکہ کھاتی ہے اور وہ غم کو دھوکہ دیتے
ہیں۔دھوکے کا یہ کھیل سانسوں کی ڈوری ٹوٹنے پر ختم ہوتا ہے۔ کسی اپنے کی
سانس کی ڈوری ٹوٹ جائے یا کسی اپنے کی جدائی میں آپ کی سانس کی ڈوریاں ٹوٹ
جائیں مگر سانس کی ڈوری کو تو بے شک ٹوٹ ہی جانا ہے۔۔۔۔یوں کسی باپ کو
اولاد کا دکھ، اولاد کو والدین کا دکھ، کسی بھائی کو بہن بھائی کا دکھ، کسی
بہن کو بھائی کی جدائی، کسی عورت کو شوہر کی جدائی، اور کسی مرد کو بیوی کی
جدائی ،عید پر یونہی اداس کر کے کھوکھلا کرتی جاتی ہے۔
کتنی اذیت ہے ناں نمازِ عید پڑھ کر سب سے پہلے اپنے بچھڑے ہوئے رشتوں کی
قبر پر جانا۔۔۔ جن کے اپنے قبرستان میں رہتے ہیں، جن کے اپنوں کا ٹھکانہ
قبرستان بن چکا ہو،انکا ہر خوشی کے دن قبرستان جانا اور جا کر اپنوں کی شکل
نہ دیکھ سکنا اور صرف مٹی کی ڈھیریاں دیکھ کر واپس لوٹنا ان کے وجود کو
دھیرے دھیرے دیمک زدہ کرتا ہے۔اور جس وجود کو دیمک لگ جائے اسکی کیسی عید
اور کیسی خوشیاں؟۔۔۔ بھلا دیمک زدہ وجود بھی کبھی خوش ہوا کرتے ہیں؟؟
ہاں! میں ایک دیمک زدہ وجود ہوں۔۔۔
اور تم سب بھی کسی نا کسی کی جدائی میں ایک دیمک زدہ وجود رکھتے ہو۔
|