اسلام میں شرک کو ظلم عظیم اس لیے کہا گیا کہ انسان وقتی مفادات کی خاطر
حقیر اشیاء کے آگے سجدہ ریز ہو کر انسانی وقار کو خاک میں ملا دیتا ہے۔ عزت
نفس، خوداری اور وقار ذاتی بھی ہے اور قومی بھی۔ ہر دو معاملات میں ایک
غیرت مند انسان اپنے حق میں کسی غیر کی شرکت گوارہ نہیں کرتا اور نہ ہی کسی
اجتماعی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کر کے ضمیر فروشی کرتا ہے۔ غیرت محبت
کی علامت ہے اور جو اپنے وطن ، اپنے لوگوں اور انکے مستقبل کو عزیز رکھتا
ہو وہ کبھی مصالحت کا شکار نہیں ہوتا اور نہ ہی دوسروں کی خوشنودی کے لیے
انکے آگے ایسے ناچتا ہے جیسے لندن میں کچھ کشمیری تارکین وطن اپنی غیرت
نیلام کر رہے ہیں۔ ایک برادر پڑوسی ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کا
استحکام ہمارے لیے عزیز ہے لیکن پاکستانی حکمرانوں کی کشمیر پالیسی کسی
غیرت مند کشمیری کو پاکستان کی سیاسی پارٹیوں اور عسکری اداروں کی جنگ میں
فریق بننے کی اجازت نہیں دیتی۔ یہ وہ کشمیری ہیں جو اپنے حال اور مستقبل سے
بے خبر اور لاتعلق ہیں لیکن جہاں انکے ووٹ آواز اور رائے کی کوئی اہمیت
نہیں بلکہ ووٹ رائے اور اظہار کی اجازت بھی نہیں وہاں وہ دیوانوں کی طرح
ناچ رہے ہیں۔
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے یہ درویش کو تاج سردارا۔
بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں غیرت کو صرف عورت پر مرد کے حق و اختیار تک
محدود کر دیا گیا ہے جبکہ غیرت کے معنی و مفہوم بہت وسیع ہیں۔ مغرب میں بہت
کم لوگ شرک پر یقین رکھتے ہیں لیکن انسان کی خود توقیری کا وہ سنجیدہ درس
دیتے ہیں جس میں انسان کو اپنی حیثیت، اہمیت اور وقعت کا احساس دلایا جاتا
ہے۔ یورپ یہ احساس دلانے میں کامیاب ہے جس کی وجہ سے یورپی باہمی احترام و
حقوق کا بھرپور خیال رکھتے ہیں جسکے نتیجے میں وہاں بہ نسبت کم سیاسی فتنے
فساد ہوتے ہیں۔ خو داری، عزت نفس اور وقار کا جزبہ پیدا کرنے کے لیے مغربی
ماہرین نفسیات نے سیلف ایسٹیم کی اصطلاح ایجاد کر رکھی یے۔ جس انسان کے
اندر سیلف ایسٹیم ختم ہو جائے اس کے اندر اپنے وقار کا احساس ختم ہو جاتا
ہے بالکل اس طرح جس طرح کچھ اپنی مائوں بہنوں کی عزتیں تار تار ہونے پر تو
خاموش ہیں لیکن دنیا کے کرپٹ ترین اور تیسرے درجے کے پاکستانی سیاستدانوں
کی خاطر آپس میں دست و گریباں ہیں۔
میرے کالم کا عنوان دیکھ کر کچھ قارئین ضرور سوچتے ہوں گے کہ کیا میرے
نزدیک صرف کچھ ہموطن غیرت مند ہیں؟ تو ہموطن بہنو اور بھائیو عرض یہ ہے کہ
ہم سب بچپن سے سنتے اور پڑھتے ا رہے ہیں کہ انگریز کافر نے ہمارے آباؤ
اجداد کو ہمارے ایک ہموطن کے ہاتھوں فروخت کر دیا تھا۔ اس ہموطن کو ہمارے
اکثر مسلمان کافر کہتے ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد کی یہ خرید و فروخت کئی لحاظ
سے متنازعہ اور قابل بحث ہے لیکن آج ہمارے اپنے ہم مذہبوں کے ہاتھوں جو
ہماری اپنی خرید و فروخت ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہی ہے وہ کسی بھی طرح
متنازعہ نہیں ۔ ہر پانچ سال بعد میری طرح کچھ لوگوں کے علاؤہ آپ سب ووٹ
دیتے ہیں لیکن آپکے ووٹ کی قدر و قیمت کا تعین امور کشمیر کرتا ہے۔ ووٹ آپ
دیتے ہیں لیکن پیسے وزیر امور کشمیر لیتا ہے جس کے عوض وہ فیصلہ کرتا ہے کہ
اگلے پانچ سال تک آپ کے سیاہ و سفید کا مالک کون ہو گا۔ ڈوگرے نے اگر ہمیں
خریدا تھا تو صرف ایک بار خریدا تھا جسکے بعد اس نے ریاست کو جوڑا لیکن
یہاں آپ ہر پانچ سال بعد بکتے ہیں۔ آپکے ان کاروباری سیاست دانوں نے ریاست
کو جوڑا نہیں توڑا ہے۔ آپکو برادریوں اور مسالک میں تقسیم کیا۔ کرسی کی
خاطر خود راتوں رات وفاداریاں بدل دیتے ہیں لیکن آپکو ایک دوسرے کا دشمن ہی
بنائے رکھتے ہیں۔ اس طرح کا کاروبار کرنے اور آپکی عزت نفس اور وقار سے
کھیلنے والوں کو میں کیسے غیرت مند کہہ سکتا ہوں۔ ہم تو وہ ہیں جنہوں نے
اجتماعی عزت و وقار کی خاطر یورپ کی پر تعیش آزاد زندگی قربان کر دی۔ ہماری
گرفتاری کے لیے برطانوی حکومت نے مالی انعام کا اعلان کیا تھا۔ ہم اس بحث
میں نہیں جانا چاہتے کہ وہ انعام کس نے حاصل کیا لیکن جب تحریکی راز حاصل
کرنے کے لیے دولت اور شہرت کے نام پر ہمیں خریدنے کی کوشش کی گئی تو ہم نے
اس ہر تھوک دیا۔ نتیجتا 22 سال قید تو کاٹ لی لیکن ضمیر فروشی اور قوم
فروشی نہیں کی ۔
اب سوال یہ ہے کہ جوانی جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا وہ ہم نے قربان کر
دی لیکن اپنے ہم وطنوں کو دولت و شہرت کی خاطر بیچنا گوارہ نہیں کیا تو اب
اپنے ہی ضمیر فروش ہم وطنوں کو قوم فروشی کے جرم کا ارتکاب کرنے پر کیسے
خاموش رہ سکتے ہیں۔ اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں اپنے ہی ہم وطنوں کی خرید و
فرخت بند کرانا صرف چند لوگوں کا فرض نہیں۔ اس مہم میں ہر خاص و عام اور ہر
مرد و زن کو شامل ہونا پڑے گا۔ مغربی ممالک کو آج بھی طعنہ دیا جاتا ہے کہ
انہوں نے نو آبادیاتی دور میں سیاہ فام باشندوں کی خرید و فروخت کا گھٹیا
کاروبار کیا مگر اقتدار کی خاطر یہاں چند لٹیروں کے ہاتھوں اپنے ہی لوگوں
کی خرید و فروخت کا کاروبار سیاہ فام باشندوں کی خرید و فروخت سے بھی برا
ہے کیونکہ انکو بیچنے والے غیر تھے لیکن ہمیں بیچنے والے ہمارے اپنے ہیں۔
وقت ہے کہ اس دھرتی کے تمام غیرت مند متحد ہو جائیں۔ ہم ہمیشہ کسی کے
ہاتھوں بکنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے ہیں۔ ہم انسانوں کی دنیا میں صرف ایک
پروڈکٹ نہیں ہیں؟ کیا ہماری کوئی سوچ، رائے اور تمنا نہیں؟ کیا ہمارے مقدر
کا فیصلہ ہمیشہ دوسرے کرتے رہیں گے اور یہ بھی وہ لوگ کریں جنکو اپنے ملک و
ملت پر کوئی اختیار نہیں؟ یقینا ہم اس سے بہتر زندگی کے مستحق ہیں۔ اور
پاکستانی حکمران جو ہمارے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں انکی اپنی عوام
بھی بہتری کی مستحق اور خوائش مند ہے۔ پاکستانی حکمران جو خود پاکستان میں
اسلام نافذ نہیں کر سکے وہ ہمیں اسلام کے نام پر بلیک میل نہ کریں۔ اسلامی
اتحاد ایک الگ اشو ہے اور ریاست جموں کشمیر کی وحدت کی بحالی ایک الگ اشو
ہے۔ ریاست جموں کشمیر میں اسلام پاکستان سے ہو کر نہیں آتا وہ پاکستان کے
قیام سے صدیوں پہلے یہاں موجود تھا۔ ہندوستان بھی ہمیں سیکولر ازم کا درس
نہ دے۔ ہماری سوسائٹی صدیوں سے رواداری کا نمونہ رہی۔ بھارتی فلسفہ اگر
اتنا ہے پر اثر ہوتا تو بھارت مذھب کی بنیاد پر تقسیم نہ ہوتا۔
ہموطن بہنو و بھائیو یہ صورت حال اس لیے ہے کہ ہم غیرت مندوں نے صحیح معنوں
میں اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ ہماری خرید و فروخت کرنے والے انفرادی مفادات
کی خاطر متحد ہو جاتے ییں۔ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں لیکن انسانی خرید
و فروخت کو غلط سمجھنے اور قومی غیرت کا ادراک رکھنے والے ہم لوگ ایک دوسرے
کے ساتھ نہیں مل بیٹھتے۔ ہم صرف فیس بک پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں لیکن
ہمارے مقدر کے فیصلے زمین پر ہوتے ہیں۔ وقت ہے کہ ہم مل بیٹھیں۔ یہ صرف
سیاسی کارکنوں کا نہیں بلکہ ہر گھر کے ہر فرد اور شعبے کے ہر رکن کا فرض ہے
کہ وہ حرکت میں آئے چائے وہ ایک استاد ہے، امام ہے، سرکاری یا غیر سرکاری
ملازم ہے۔ مرد ہے یا عورت ہے۔ یہ سب کے مستقبل کا مسلہ ہے۔ ریاست کے تمام
غیرت مندوں کو سر جوڑنا ہو گا۔ ہر غیرت مند مرد عورت اور بچے بوڑھے کو عزت
نفس سے محروم سیاسی سوداگروں کی سیاسی مارکیٹ کا پروڈکٹ بننے کے بجائے ایک
جیتا جاگتا انسان بننا ہو گا جس کی اپنی عزت نفس، خوداری اور وقار ہے۔ اگر
ہم غیرت مند ہیں تو ہمیں اپنے حق کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا۔ اگر ہم نے خود
کو چند بیوپاریوں کے رحم و کرم پر چھوڑا تو پھر یہ شعر ہم پر صادق آئے گا۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔
|