حقیقت میں کمال وخوبی والاوہ شخص ہے جودوسروں کوبھی کمال
وخوبی والابنادے،ہمارے آقاومولیٰ سرکارکائنات ﷺ حقیقت میں کمال وخوبی والے
ہیں جنہوں نے بے شمارلوگوں کوکمال وخوبی والابنادیا۔اوران کایہ فیض ہمیشہ
جاری رہے گاکہ قیامت تک اپنے جاں نثاروں کوکمال وخوبی والابناتے رہیں
گے۔اورپیارے مصطفیٰﷺ نے جن لوگوں کوکمال وخوبی والابنایاان میں سے ایک
مشہورومعروف امیرالمؤمنین حضرت علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذات
گرامی ہےجوبہت سے کمال وخوبیوں کی جامع ہے کہ آپ شیرخدابھی ہیں اوردامادِ
مصطفیٰ بھی،حیدرِکراربھی ہیں اورصاحبِ ذوالفقاربھی،خاتونِ جنت حضرت فاطمہ
زہراکے شوہرنامداربھی اورحسنین کریمین کے والد بزرگواربھی، صاحب سخاوت بھی
اورصاحب شجاعت بھی،عبادت وریاضت والے بھی اورفصاحت وبلاغت والے بھی،علم
والے بھی اورحلم والے بھی،فاتح خیبربھی اورمیدانِ خطابت کے شہسواربھی
غرضیکہ آپ بہت سے کمال وخوبیوں کے جامع ہیں اورہرایک میں ممتازویگانہ
روزگارہیں اسی لئے دنیاآپ کومظہرالعجائب والغرائب سے یادکرتی ہے اورقیامت
تک اسی طرح یادکرتی رہے گی۔
عاشقِ رسول سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں:
مرتضیٰ شیرِحق اشجع الاشجعین ٭ بابِ فضل وولایت پہ لاکھوں سلام
شیرِشمشیرزن شاہِ خیبرشکن٭ پَرتوِدستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
صدق وعدل وکرم وہمت میں ٭ چارسوشہرے ہیں ان چاروں کے
بہرتسلیم علی میداں میں ٭ سرجھکے رہتے ہیں تلواروں کے
نام ونسب:آپ کانام ،علی بن ابی طالب،اورکنیت”ابوالحسن وابوتراب”ہے
لقب،حیدرومرتضی ہے۔آپ سرورِکونین ﷺکے چچاابوطالب کے لختِ جگرہیں یعنی
حضورکے چچازادبھائی ہیں۔آپ کی والدہ محترمہ کااسم گرامی:فاطمہ بن اسدبن
ہاشم ہے۔اوریہ پہلی ہاشمی خاتون ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیااورہجرت
فرمائی(تاریخ الخلفاء ،ص113)
پرورش:حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خوش نصیبی کاباب اس طرح کھلاکہ قحط سالی کی
وجہ سے قریش بہت پریشان حال تھے۔انہیں میں مولاعلی مشکل کشاء کے
والدابوطالب بھی تھے جواپنی کبرسنی اورکثیرالعیالی کے سبب سخت معاشی
دشواریوں سے دوچارتھے۔ہمارے حضورﷺنے اپنے چچاحضرت عباس رضی اللہ عنہ سے
مشورہ کیااوردونوں نے ابوطالب کابوجھ ہلکاکرنے کے لئے یہ تدبیراپنائی کہ
جعفربن ابی طالب کوحضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی کفالت میں لے
لیااورفیروزبخت حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہمارے آقا نبی کریم ﷺکے
سایہ عاطفت میں آگئے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پرورش وپرداخت نبی کریم ﷺنے
فرمائی ۔آپ ہی کے سایہ کرم میں پروان چڑھے۔آنکھ کھلتے ہی حضورکاجمال جہاں
آرادیکھا،انہیں کی باتیں سنیں اورانہیں کی عادتیں سیکھیں۔اس لئے بتوں کی
نجاست سے آپ کادامن کبھی آلودہ نہ ہوایعنی آپ نے کبھی بت پرستی نہ کی
اوراسی لئے کرم اللہ وجہہ آپ کالقب ہوا۔یہ عزوشرف مشیتِ ربانی نے مولاعلی
رضی اللہ عنہ کے لئے مقدرکردیاتھا۔(تنزیہ المکانۃ الحیدریہ،ابن ہشام
ج،1،ص81)
قبول اسلام:عاشقِ رسول اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان "تنزیہ المکانۃ
الحیدریہ”میں تحریرفرماتے ہیں کہ بوقت اسلام آپ کی عمرآٹھ ،دس سال
تھی۔بڑوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے ۔عورتوں
میں سب سے پہلے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا،غلاموں میں حضرت
زیدبن حارثہ اوربچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہم ایمان لائے۔(تاریخ الخلفاء
،ص114)
آپ کے اسلام قبول کرنے کی تفصیل محمدبن اسحاق نے اس طرح بیان کیاہے کہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضورﷺکواورحضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہاکورات
میں نمازپڑھتے ہوئے دیکھا۔جب یہ لوگ نمازسے فارغ ہوگئے توحضرت علی رضی اللہ
عنہ نے حضورﷺسے پوچھاکہ آپ لوگ یہ کیاکررہے تھے۔حضورنے فرمایاکہ یہ اللہ
تعالیٰ کاایسادین ہے جس کواس نے اپنے لئے منتخب کیاہے اوراسی کی تبلیغ
واشاعت کے لئے اپنے رسول کوبھیجاہے۔لہٰذامیں تم کوبھی ایسے معبودکی طرف
بلاتاہوں جواکیلاہے اس کاکوئی شریک نہیں۔اورمیں تم کواسی کی عبادت کاحکم
دیتاہوں ۔حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے کہاکہ جب تک میں اپنے
باپ ابوطالب سے دریافت نہ کرلوں اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں
کرسکتا۔چونکہ اس وقت حضورﷺکورازفاش ہونامنظورنہ تھااس لئے آپ نے فرمایااے
علی ! اگرتم اسلام نہیں لاتے ہوتوابھی اس معاملہ کوپوشیدہ رکھوکسی پرظاہرنہ
کرو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اگرچہ اس وقت رات میں ایمان نہیں لائے مگراللہ
تعالیٰ نے آپ کے دل میں ایمان راسخ کردیاتھادوسرے روزصبح ہوتے ہی حضورﷺکی
خدمت میں حاضرہوئے اورآپ کی پیش کی ہوئی ساری باتوں کوقبول کرلیااوراسلام
لے آئے۔(خطباتِ محرم)
آپ کامقام:حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں
واردہیں بلکہ امام احمدرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جتنی حدیثیں آپ کی
فضیلت میں ہیں کسی اورصحابی کی فضیلت میں اتنی حدیثیں نہیں ہیں۔حضرت
جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقائے کریم ﷺنے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ
نے ہرنبی کی ذریت (یعنی نسل)اس کی صلب(یعنی اولاد)سے جاری فرمائی اورمیری
ذریت یعنی نسل حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی صلب سے چلے گی۔(المعجم
الکبیرللطبرانی ج،3،ص144،کنزالعمال،ص400)
قارئین محترم! آج پوری دنیامیں آل نبی موجودہیں وہ اولادعلی رضی اللہ عنہ
ہیں خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرارضی اللہ عنہاکے بطن پاک سے یعنی حضرت امام
حسن اورامام حسین رضی اللہ عنہماکی اولادجنہیں آل ِرسول چمن فاطمہ زہراکے
پھول کہاجاتاہے۔
حضوراعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے کیاہی خوب فرمایا:
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نورکا٭ توہے عین نورتیراسب گھرانہ نورکا
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ سرکاراقدس ﷺنے فرمایاعلی
سے منافق محبت نہیں کرتااورمومن علی سے بغض وعداوت نہیں رکھتا۔(ترمذی شریف)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کیاہی بلندوبالاشان ہے کہ آقائے کریم ﷺنے آپ سے
محبت نہ کرنے کومنافق ہونے کی علامت ٹھہرایااورآپ سے بغض وعداوت رکھنے
کومومن نہ ہونے کامعیارقراردیایعنی جوحضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہ کرے
وہ منافق ہے اورجوان سے بغض وعداوت رکھے وہ مومن نہیں۔
مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ رسول اللہ
ﷺنے فرمایا:”مَنْ سَبّ علِیّاًفَقَدْسَبَّنِیْ”یعنی جس نے علی
کوبُرابھلاکہاتوتحقیق اس نے مجھ کوبرابھلاکہا۔تاریخ الخلفاء میں لکھاہواہے
کہ نبی کریم ﷺنے یوم غدیرخُم میں ارشادفرمایا:میں جس کامولیٰ ہوں علی بھی
اس کے مولیٰ ہیں۔یاالٰہ العالمین! جوشخص علی سے محبت رکھے توبھی اس سے محبت
رکھ اورجوشخص علی سے عداوت رکھے توبھی اس سے عداوت رکھ۔
طبرانی وبزارحضرت جابررضی اللہ عنہ سے اورترمذی وحاکم حضرت علی رضی اللہ
عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کائناتﷺنے فرمایا:انامدینۃ العلم وعلی
بابھا”یعنی میں علم کاشہرہوں اورعلی اس کے دروازہ ہیں۔علامہ جلال الدین
سیوطی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریرفرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اورجنہوں نے
اس کوموضوع کہاہے انہوں نے غلطی کی ہے۔(تاریخ الخلفاء ص116)
آپ کاعلم وفضل:حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ علم کے اعتبارسے بھی علمائے
صحابہ میں بہت اونچامقام رکھتے ہیں۔آقائے کریم ﷺکی بہت سی حدیثیں آپ سے
مروی ہیں۔آپ کے فتوے اسلامی علوم کے انمول جواہرپارے ہیں۔حضرت ابن عباس
رضی اللہ تعالیٰ عنہمافرماتے ہیں کہ ہم نے جب بھی آپ سے کسی مسئلہ
کودریافت کیاتوہمیشہ درست ہی جواب پایا۔ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہاکے سامنے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کاذکرہواتوآپ نے
فرمایاکہ علی سے زیادہ مسائل شرعیہ کاجاننے والاکوئی اورنہیں ہے۔اورحضرت
ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں علمِ فرائض
ومقدمات کے فیصلہ کرنے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ علم
رکھنے والاکوئی دوسرانہیں تھا۔اورحضرت سعیدبن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
فرماتے ہیں کہ حضورﷺکے صحابہ میں سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کوئی یہ
کہنے والانہیں تھاکہ جوکچھ پوچھناہومجھ سے پوچھ لو۔اورحضرت سعیدبن مسیب رضی
اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ کی خدمت میں کوئی
مشکل مقدمہ پیش ہوتااورحضرت علی رضی اللہ عنہ موجودنہ ہوتے تووہ اللہ
تعالیٰ کی پناہ مانگاکرتے تھے کہ مقدمہ کافیصلہ کہیں غلط نہ ہوجائے۔(تاریخ
الخلفاء)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلے ایسے عجیب وغریب اورنادرروزگارہیں
کہ جنہیں پڑھ کربڑے بڑے عقلمندوں اوردانشوروں کی عقلیں حیران ہیں۔اوریہ
آقائے کریم ﷺکے دست مبارک اوران کی دعاکی برکت ہے۔مولاعلی مشکل کشاء رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ نبی کریم ﷺنے مجھے یمن کی جانب قاضی
بناکربھیجناچاہاتومیں نے عرض کیایارسول اللہ !میں ابھی ناتجربہ کارجوان ہوں
معاملات طے کرنانہیں جانتاہوں اورآپ مجھے یمن بھیجتے ہیں۔یہ سن کرحضورنے
میرے سینے پرہاتھ مارااورفرمایاالہ العالمین !اس کے قلب کوروشن فرمادے
اوراس کی زبان میں تاثیرعطافرمادے۔قسم ہے اس ذات کی جوچھوٹے بیج سے بڑادرخت
پیداکرتاہے اس دعاکے بعدسے پھرکبھی مجھے کسی مقدمہ کے فیصلہ میں کوئی
ترددنہیں رہابغیرکسی شک وشبہ کے میں نے ہرمقدمہ کاتصفیہ کردیا۔
شہادت:17،رمضان المبارک 40ھ کوحضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے صبح کے وقت
بیدارہوکراپنے بڑے صاحبزادے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایاآج رات
خواب میں رسول اللہ ﷺکی زیارت ہوئی تومیں نے خدمت اقدس میں عرض کیایارسول
اللہ ﷺآپ کی امت نے میرے ساتھ اچھاسلوک نہیں کیااورسخت نزع
برپاکردیاہے۔آقائے کریم ﷺنے فرمایاتم ظالموں کے لئے دعاکروتومیں نے دعاکی
یااللہ تومجھے ان لوگوں سے بہترلوگوں میں پہونچادے اورمیری جگہ ان لوگوں
پرایساشخص مسلط کردے جوبُراہو۔ابھی یہ بیان ہی فرمارہے تھے کہ ابن نباح
مؤذن نے آوازدی "الصلوٰۃ الصلوٰۃ”۔حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نمازپڑھنے
کے لئے گھرسے چلے راستے میں لوگوں کونمازکے لئے آوازدے دے کرآپ جگاتے
جاتے تھے۔(الاستیعاب ،ج2،ص483،ابن اثیر،ج3،ص128،البدایہ والنہایہ، ج8،ص12)
حضرت حسن بن کثیراپنے والدسے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مولیٰ علی رضی اللہ
عنہ جب نمازکے لئے گھرسے نکلنے لگے توبطخیں آپ کے سامنے آگئیں
اورزورزورسے چلانے لگیں،ہم ان کوہٹانے لگے توآپ نے فرمایاان کوچھوڑدویہ
نوحہ کررہی ہیں اورآپ تشریف لے گئے۔مسجدمیں وہ بدبخت ملعون عبدالرحمٰن بن
ملجم چھپابیٹھاتھا۔جب آپ اس کے قریب سے گزرے اوربقول بعض آپ نمازمیں
مشغول ہوئے تواس شقی نے اس زورسے آپ پرتلوارکاوارکیاکہ آپ کی پیشانی
کنپٹی تک کٹ گئی اورتلواردماغ پرجاکرٹھہری ۔تلوارلگتے ہی آپ نے
فرمایا:”فُزت بِرَب الکَعبَۃِ”۔یعنی رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ابن
ملجم بدبخت قاتل پرچاروں طرف سے لوگ دوڑے اوراس کوگرفتارکرلیا۔(تاریخ
الخلفاء،الصواعق المحرقہ،ص132)
حضرت عماربن یاسررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے کریم ﷺنے حضرت مولیٰ
علی رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ دوآدمی بڑے شقی اوربدبخت ہیں۔ایک وہ شخص جس
نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کومارااوردوسراوہ شخص جوتیرے
سرپرتلوارمارے گااورتیری داڑھی خون سے ترہوجائے گی۔(الصواعق
المحرقہ،ص132،شمس التواریخ،ج4،ص280)
سرچشمۂ ولایت مولائے کائنات سیدناعلی رضی اللہ عنہ زخمی حالت میں جمعہ
وسنیچرتک بقیدحیات رہے اوراتوارکی شب میں آپ کی روح پروازکرگئی۔اورایک
روایت یہ بھی ہے کہ 18یا19،مضان المبارک جمعہ کی شب میں آپ پرقاتلانہ حملہ
ہوااور21رمضان المبارک شب یکشنبہ 40ھ میں آپ کی روح قفس عنصری سے
پروازکرگئی ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے چارسال 8یا9،ماہ اور9دن مسندخلافت پرجلوہ
افروزرہے اورترسٹھ سال کی عمرمیں آپ کاوصال ہوا۔حضرت امام حسن ،حضرت امام
حسین اورحضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے آپ کوغسل
دیااورحضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ابن جوزی
کی روایت کے مطابق آپ کامزارشریف نجف اشرف میں ہے ۔حضرت امام حسن رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے آپ کے قاتل ابن ملجم ملعون کوقتل کیااوراس کے ہاتھ،پیرکوکاٹ
کرایک ٹوکرے میں رکھ کراس میں آگ لگادی جس سے اس کی لاش جل کرراکھ
ہوگئی۔(الصواعق المحرقہ،ص132)
اللہ رب العزت کی بارگاہ بے نیازمیں اس کے حبیب مکرم نورمجسم ﷺکے وسیلہ سے
دعاہے کہ وہ ہم سب کوخلفائے راشدین اورجملہ صحابہ کرام وامہات المؤمنین
علیہم الرضوان سے سچی محبت والفت عطافرمائے ۔اورمولیٰ کائنات مشکل کشا کے
صدقے اس وقت جملہ مسلمانوں کوہرطرح کی ارضی وسماوی حادثات وبلیات سے نجات
عطاکرے ۔آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ۔
|