مقام سے گری اور آلام میں گھری ہوئی اَقوام !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالجاثیة ، اٰیت 25 تا 37 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
واذا
تتلٰی علیھم
اٰیٰتنا بینٰت ماکان
حجتھم الّا ان قالواائتوا
باٰبائنا ان کنتم صٰدقین 25 قل
اللہ یحییکم ثم یمیتکم ثم یجمعکم
الٰی یوم القیٰمة لاریب فیه ولٰکن اکثرالناس
لایعلمون 26 وللہ ملک السمٰوٰت والارض ویوم
تقوم الساعة یومئذ یخسرالمبطلون 27 وترٰی کل امة
جاثیة کل امة تدعٰٓی الٰی کتٰبھا الیوم تجزون ماکنتم تعملون
28 ھٰذا کتٰبنا ینطق علیکم بالحق اناکنا نستنسخ ماکنتم تعملون 29
فاماالذین اٰمنوا وعملوا الصٰلحٰت فیدخلھم ربہم فی رحمتهٖ ذٰلک ھوالفوز
العظیم 30 واماالذین کفروا افلم تکن اٰیٰتی تتلٰی علیکم فاستکبرتم وکنتم قوما
مجرمین 31 واذاقیل ان وعداللہ حق والساعة لاریب فیھا قلتم ماتدری ماالساعة
ان نظن الّا ظنا وما نحن بمستیقنین 32 وبدالھم سیاٰت ما عملوا وحاق بھم ماکانوابهٖ
یستھزءون 33 وقیل الیوم ننسٰکم کما نسیتم لقاء یومکم ھٰذا وماوٰکم النار ومالکم من نصیر 34
ذٰلکم بانکم اتخذتم اٰیٰت اللہ ھزوا وغرتکم الحیٰوة الدنیا فالیوم لایخرجون منہا ولاھم یستعتبون 35
فلله الحمد رب السمٰوٰت ورب الارض رب العٰلمین 36 وله الکبریا فی السمٰوٰت والارض وھوالعزیز الحکیم 37
اے ہمارے رسُول ! جب ہماری اٰیات کی شمعیں مُنکرینِ قُرآن کے ماحول کو روشن کر دیتی ہیں تو اُن کے پاس کہنے کے لیۓ اِس ایک پرانی بات کے سوا کوئی بھی نئی بات نہیں ہوتی کہ اگر تُم موت کے بعد حیات کے اپنے اِس دعوے میں سچے ہو تو پھر ہمارے مرے ہوۓ باپ دادا کو زندہ کرکے ہمارے سامنے لے آؤ تاکہ ہم اُن کو زندہ دیکھ کر موت کے بعد ملنے والی حیات پر ایمان لے آئیں اِس لیۓ آپ اِن مِنکرِ آخرت پر ایک بار پھر یہ اَمر واضح کردیں کہ زندگی اور موت دینا صرف اُس اللہ کے اختیار میں ہے جو وقت آنے پر تُم سب کو اِس زندگی کے بعد ایک موت دے گا اور پھر اِس موت کے بعد ایک نئی زندگی دے کر تُم سے پہلے زندگی کا حساب لینے کے لیۓ تُم سب کو ایک جگہ پر جمع کر دے گا لیکن اکثر لوگ اپنی لاعلمی کے باعث زندگی کے اِس عظیم انقلاب سے ابھی تک لاعلم کے لاعلم ہیں تاہم جس روز اِس زمین و آسمان کا وہ خالق اِس زمین و آسمان کی اِس مخلوق کو ایک جگہ پر جمع کردے گا تو آپ دیکھیں گے کہ اُس وقت انسانیت کے مقام سے گری ہوئی اقوام اپنے اُن اعمالِ نیک و بد کے آلام میں گھری ہوئی ہوں گی جن اعمالِ نیک و بد کی اُن کو اُس روز ایک مُنصفانہ سزا یا ایک عادلانہ جزا دی جاۓ گی ، ہماری یہی کتابِ حق ہے جو انسان کو اُس یومِ برحق کی یہ مبنی برحق خبر دے رہی ہے کیونکہ ہم ہر ایک قوم کے ہر ایک فرد کا ہر ایک عمل اُس کی زندگی کے ہر ایک لَمحے میں لکھوا رہے ہیں اِس لیۓ اُس روز صلاحیت کار لوگوں کی جو صلاحیت سامنے آۓ گی اُس کا بھی جزاۓ جنت کی صورت میں ایک عظم الشان صلہ دیا جاۓ گا اور جن ناکار لوگوں کے ناکارہ اعمال سامنے آئیں گے تو اُن کا بھی سزاۓ جہنم کی صورت میں ایک بدلہ دیا جاۓ گا کیونکہ زمین پر زمین کے یہ ناکارہ لوگ جب ہمارے اَحکام سنتے تھے تو یہ اُن اَحکام کا انکار کیا کرتے تھے ، یقین جانو کہ حسابِ عمل کا وہ دن برحق ہے یہ الگ بات ہے کہ جب مُنکرینِ حساب کے سامنے اُس دن کا ذکر آتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ گمان کی حد تک تو شاید یہ بات ٹھیک بھی ہی لیکن یقین کے ساتھ تو ہم نہیں جانتے کہ اُمتوں کے قیام کا وہ انقلاب کیا ہے حالانکہ اُن پر اُس انقلاب کی حقیقت بار بار واضح کی جا چکی ہے اور یہ اَمر بھی اُن پر بار بار اُن پر واضح کیا جاچکا ہے کہ جو انسان دُنیا میں اللہ کا اَحکام کو بُھلاۓ ہوۓ ہوگا اُس کو بھی اُس روز بُھلا دیا جاۓ گا لیکن اُس روز اُس کو یہ ضرور یاد دلایا جاۓ گا کہ تُمہارے اِس اَنجامِ بد کا سبب ہماری آیات و ہدایات کا وہی انکار ہے جو جب سے اَب تک تُم کرتے چلے آ رہے ہو تاہم اگر تُم موت سے پہلے اِس معاملے کو سمجھنا چاہتے ہو تو زمین و آسمان کے اُس خالق کا یہی تعارف تُمہارے لیۓ کافی ہے جو دوبارہ تُمہارے سامنے پیش کیا گیا ہے اور زمین و آسمان کے اُس غلبہ کار حاکم کے یومِ جزا و سزا کا بھی یہی تعارف تُمہارے لیۓ کافی ہے جس سے دوبارہ تُم کو آگاہ کیا گیا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کے آغاز میں اِس سُورت میں زیرِ بحث آنے والے جن پانچ مضامین کا ذکر کیا گیا تھا اُن پانچ مضامین میں اِس علم بھری سُورت کا پہلا علمی مضمون تنزیل ، دُوسرا علمی مضمون تخلیق ، تیسرا علمی مضمون تحقیق ، چوتھا علمی مضمون یقین علی الآخرت اور پانچواں علمی مضمون ایمان بالتوحید تھا ، اِس سُورت کے اِس آخری مضمون سے پہلے جس طرح اِس سُورت کے اُن پانچ مضامین کا ایک فکری و فطری رَبط کے مطابق کہیں پر ملا جُلا اور کہیں کہیں پر الگ الگ بھی ذکر ہوا ہے اسی طرح اِس سُورت کی اِن آخری اٰیات کے اِس آخری مضمون میں بھی اُن پانچ مضامین کا کہیں پر ملا جُلا اور کہیں کہیں پر الگ الگ ذکر ہوا ہے لیکن اگر ہم اِس سُورت کے اِس اختتامی مضمون کو مزید آسان پیراۓ میں بیان کرنے کی کوشش کریں تو اِس مضمون میں پہلی بات جو اِس کے پڑھنے والے کو زیادہ نمایاں طور پر نظر آتی ہے وہ قُرآن کا یہ دعوٰی ہے کہ قُرآن ایک ایسی روشن کتاب ہے کہ جس میں سمجھانے کی ہر ایک بات ایک ایسی واضح اور ایک ایسی غیر مُبہم صورت میں بتائی اور سمجھائی گئی ہے کہ جو انسان نے اِس کتاب کی اِس تعلیم کو دل سے سمجھنا چاہتا ہے وہ سمجھ جاتا ہے اور جو انسان اِس کتاب کی تفہیم سے رُو گردانی کرتا ہے وہ رُو گردان کا رُو گردان ہی رہ جاتا ہے اور اِس کتاب سے انسان کی یہی مُسلسل رُو گرانی ہے جس کی بنا پر اِس کتاب کے ایک ایک مضمون کو بار بار بیان کیا گیا ہے تاکہ جو انسان اِس کتاب کے ایک مضمون کو اِس کے ایک مقام پر نہیں سمجھ سکا یا سمجھ کر یاد نہیں رکھ سکا تو وہ انسان اِس کے کتاب کے اُس مضمون کو اِس کتاب ایک دُوسرے اور تیسرے یا اِس کے بعد کے کسی مقام پر سمجھ کر یاد رکھ سکے اور ہر انسان اپنے بُرے اعمال کے اُن بُرے نتائج اور اُن بُرے نتائج کے اُس بُرے اَنجام سے بچ جاۓ جس بُرے اَنجام سے انسان کا خالق انسان کو بچانا چاہتا ہے لیکن جس انسان نے قُرآن کے اِس مُفصل بیان کو مانا ہے سو مانا ہے لیکن جس انسان نے قُرآن کے اِس بیان کو نہیں مانا ہے تو اُس انسان نے اِس پر ہر زمانے میں ہر زمانے کا وہی پرانا اور لگا بندھا اعتراض کیا ہے کہ اگر موت کے بعد زندگی کا ہونا ایک یقینی اَمر ہے تو قُرآن کے اِس دعوے کی دلیل کے طور پر صاحبِ قُرآن ہمارے مرے ہوۓ باپ اور ہمارے مرے ہوۓ دادا کو زندہ کرکے ہمارے سامنے لے آۓ تو ہم اُس کے اِس دعوے پر ضرور ایمان لے آئیں گے اور قُرآن نے مُنکرینِ قُرآن کے اُس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ موت اور زندگی صاحبِ قُرآن کے اختیار میں نہیں ہے بلکہ اللہ تعالٰی کے اپنے اختیار میں ہے اور اُس زندگی کا موت کے بعد وہی مقررہ وقت ہے جس وقت کا نام وہی یومِ الآخرہ ہے جس یوم الآخرہ پر یہ کتاب انسان کو ایمان لانے کی بار بار دعوت دے رہی ہے ، اِس سُورت کے اِس آخری مضمون میں دُوسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ جو انسان کسی بھی وجہ سے تنزیلِ کتاب کے اِس نزولی زمانے میں ایمان بالآخرت کے اِس قُرآنی اعتقاد پر ایمان نہیں لاسکا ہے تو وہ بعد کے جس زمانے میں بھی قُرآن کے اِس مضمون کو پڑھے تو اُس زمانے میں ہی قُرآن کے بیان کیۓ ہوۓ اِس اعتقادِ آخرت پر ایمان لے آۓ کیونکہ اِس کتاب کو سمجھ کر پڑھے بغیر انسان کے پاس اِس کتاب کے اِس عتقاد پر ایمان لانے کا کوئی دُوسرا ذریعہ نہیں ہے اور اِس اعتقاد پر ایمان لاۓ بغیر یومِ آخرت میں انسان کی نجات کا بھی کوئی دُوسرا ذریعہ نہیں ہے ، پھر اِس سُورت کے اِس آخری مضمون میں تیسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ یومِ آخرت پر ایمان لانے کا وقت بھی موت کی آخری گھڑی آنے اور موت کی آخری ہچکی لینے سے پہلے کا وقت ہے کیونکہ زندگی کی گھڑیوں میں جب موت کی گھڑی شامل ہو جاتی ہے تو انسان عالَم دُنیا سے نکل کر عالَمِ آخرت میں داخل ہوجاتا ہے اور عالَمِ آخرت کی اُس پہلی سرحد میں قدم رکھتے ہی انسان ایمان لانے کے اُس اختیار سے محروم ہو جاتا ہے اُس کا جو اختیار اُس کی زندگی کی اُس ڈوری کے ساتھ بندھا ہوا ہوتا ہے زندگی کی جس زندگی کی ڈوری کے کٹتے ہی اُس کا وہ سارا اختیار ختم ہو جاتا ہے ، اِس سلسلہِ کلام کی قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ دُنیا اور آخرت کی درمیانی مُدت کے جو دو کنارے باہم ملے ہوۓ ہیں اُن کا آخری کنارا جنت و جہنم تک پھیلا ہوا ہے ، یہی وجہ ہے کہ عملِ خیر کی کُچھ جزا دُنیا میں بھی کبھی کبھی ظاہر میں ہوتی ہے اور عملِ شر کی کُچھ سزا بھی دُنیا میں کبھی کبھی ظاہر ہوتی رہتی ہے تاکہ انسان دُنیا کی اِس مُختصر جزا و سزا کو دیکھ پرکھ کر آخرت کے اُس مقام تک پُہنچنے سے پہلے ہی آخرت کی جزا و سزا کی حقیقی کیفیتوں کو سمجھ کر اُس کی سزا سے نجات پانے اور اُس کی جزا سے لطف اُٹھانے اُٹھانے کا فیصلہ کر سکے !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558089 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More