معاف کریں ۔۔

معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 265
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَجُلًا شَتَمَ أَبَا بَكْرٍ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ ، يَتَعَجَّبُ وَيَتَبَسَّمُ فَلَمَّا أَكْثَرَ رَدَّ عَلَيْهِ بَعْضَ قَوْلِهِ ، فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَامَ ، فَلَحِقَهُ أَبُو بَكْرٍ ، وَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ كَانَ يَشْتُمُنِي وَأَنْتَ جَالِسٌ ، فَلَمَّا رَدَدْتُ عَلَيْهِ بَعْضَ قَوْلِهِ ، غَضِبْتَ وَقُمْتَ ، قَالَ : "كَانَ مَعَكَ مَلَكٌ يَرُدُّ عَنْكَ ، فَلَمَّا رَدَدْتَ عَلَيْهِ وَقَعَ الشَّيْطَانُ ، ثُمَّ قَالَ : " يَا أَبَا بَكْرٍ ثَلَاثٌ كُلُّهُنَّ حَقٌّ : مَا مِنْ عَبْدٍ ظُلِمَ بِمَظْلَمَةٍ فَيُغْضِي عَنْهَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، إِلَّا أَعَزَّ اللهُ بِهَا نَصْرَهُ ، وَمَا فَتَحَ رَجُلٌ بَابَ عَطِيَّةٍ ، يُرِيدُ بِهَا صِلَةً ، إِلَّا زَادَ اللهُ بِهَا كَثْرَةً ، وَمَا فَتَحَ رَجُلٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ ، يُرِيدُ بِهَا كَثْرَةً ، إِلَّا زَادَ اللهُ بِهَا قِلَّةً " (رواه احمد)
اللہ کو سب سے زیادہ عزیز بندہ ہے جو بدلہ لینے اور سزا دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کر دے
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابو بکر ؓ کو گالیاں دیں اور رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے، (اور آپ اس شخص کے مسلسل گالیاں دینے پر اور ابو بکرؓ کے صبر کرنے اور خاموش رہنے پر) تعجب اور تبسم فرما رہے تھے، پھر جب اُس آدمی نے بہت ہی زیادہ گالیاں دی (اور زبان کو روکا ہی نہیں) تو ابو بکر نے بھی اُس کی بعض باتوں کو اُس پر اُلٹ دیا اور کچھ جواب دیا پس رسول اللہ ﷺ کچھ ناراضی کے ساتھ وہاں سے اُٹھ کر چل دئیے (حضرت ابو بکرؓ کو اس سے بہت فکر لاحق ہوئی، اور وہ بھی معذرت کے لئے اور حضور ﷺ کی ناراضی کا سبب معلوم کرنے کے لیے آپ کے پیچھے چلے)۔ پس ابو بکرؓ آپ ﷺ کے پاس پہنچے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! (یہ کیا بات ہوئی کہ) وہ شخص مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپ وہاں تشریف فرما رہے، پھر جب میں نے کچھ جواب دیا، تو حضور ناراض ہو کر اٹھ آئے؟ آپ نے ارشاد فرمایا جب تک تم خاموش تھے، اور صبر کر رہے تھے تمہارے ساتھ اللہ کا ایک فرشتہ تھا، جو تمہاری طرف سے جواب دہی کر رہا تھا، پھر جب تم نے خود دیا، تو (وہ فرشتہ تو چلا گیا، اور) شیطان بیچ میں آ گیا (کیوں کہ اُسے امید ہو گئی کہ وہ لڑائی کو اور آگے بڑھا سکے گا)۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا، اے ابو بکر! تین باتیں ہیں جو سب کی سب بالکل حق ہیں، پہلی بات یہ ہے کہ جس بندہ پر کوئی ظلم و زیادتی کی جائے اور وہ محض اللہ عز وجل کے لیے اس سے درگزر کرے (اور انتقام نہ لے) تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس کی بھرپور مدد فرمائیں گے (دنیا اور آخرت میں اُس کو عزت دیں گے)۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص صلہ رحمی کے لیے دوسروں کو دینے کا دروازہ کھولے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض اُس کو اور بہت زیادہ دیں گے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ جو آدمی (ضرورت سے مجبور ہو کر نہیں بلکہ) اپنی دولت بڑھانے کے لئے سوال اور گدا گری کا دروازہ کھولے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کی دولت کو اور زیادہ کم کر دیں گے۔ (مسند احمد)

تشریح
انصاف کے ساتھ ظلم کا بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے، لیکن فضیلت اور عزیمت کی بات یہی ہے کہ بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود محض اللہ کے لئے معاف کر دے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ چونکہ اخص الخواص میں سے تھے، اس لئے آپ نے اُن کی طرف سے تھوڑی سی جوابدہی کو بھی پسند نہیں فرمایا۔ قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے: وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ (شورى 40: 42) اور برائی کا (قانونی) بدلہ اُسی کی مثل برائی ہے (یعنی جس درجہ کی زیادتی کسی نے کی، اُس کے بدلے میں اس کے ساتھ اسی درجہ کی زیادتی کی قانوناً اجازت ہے لیکن اللہ کا جو بندہ انتقام نہ لے اور معاف کر دے اور صلح و اصلاح کی کوشش کرے، تو اس کا خاص اجر و ثواب اللہ کے ذمہ ہے۔ رحم دلی کی جڑ سے جو شاخیں پھوٹتی ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے مجرم اور قصور وار کو معاف کر دیا جائے، اور اس سے انتقام نہ لیا جائے، رسول اللہ ﷺ اپنی امت کو بھی اس کی خاص طور سے ترغیب دیتے تھے۔ چند ہی ورق پہلے " کتاب الرقاق " کے آخر میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت سے یہ حدیث درج ہو چکی ہے کہ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے میرے رب نے نو باتوں کا خاص طور سے حکم فرمایا ہے، اور اُن میں سے ایک بات آپ نے یہ ذکر فرمائی، کہ مجھے حکم ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم و زیادتی کرے، میں اُس کو معاف کر دیا کروں۔ اس سلسلہ کی ایک دو حدیثیں یہاں اور بھی پڑھ لیجئے۔

معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 267
عَنِ عَبْدِاللهِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، كَمْ أَعْفُو عَنِ الْخَادِمِ؟ فَصَمَتَ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، كَمْ أَعْفُو عَنِ الخَادِمِ؟ فَقَالَ : كُلَّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً . (رواه الترمذى)
خادم اور نوکر کو معافی دو ، اگرچہ وہ ایک دن میں ستر دفعہ قصور کرے
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں اپنے خادم (غلام یا نوکر) کا قصور کتنی دفعہ معاف کروں؟ آپ نے اُس کو کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش رہے۔ اُس نے پھر وہی عرض کیا، کہ میں اپنے خادم کو کتنی دفعہ معاف کروں؟ آپ نے ارشاد فرمایا ہر روز ستر دفعہ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
سوال کرنے والے کا مقصد یہ تھا کہ حضرت اگر میرا خادم غلام یا نوکر بار بار قصور کرنے، تو کہاں تک میں اس کو معاف کروں، اور کتنی دفعہ معاف کرنے کے بعد میں اس کو سزا دوں؟ آپ نے جواب دیا کہ: اگر بالفرض روزانہ ستر دفعہ بھی وہ قصور کرے، تو تم اس کو معاف ہی کرتے رہو۔ حضور ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ قصور کا معاف کرنا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی حد مقرر کی جائے، بلکہ حسن اخلاق اورترحم کا تقاضا یہ ہے کہ اگر بالفرض وہ روزانہ ستر دفعہ بھی قصور کرے تو اس کو معاف ہی کر دیا جائے۔ ف۔۔۔ جیسا کہ بار بار لکھا جا چکا ہے، ستر کا عدد ایسے موقعوں پر تحدید کے لئے نہیں ہوتا بلکہ صرف تکثیر کے لئے ہوتا ہے، اور خاص کر اس حدیث میں یہ بات بہت ہی واضح ہے۔
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558166 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More