کتابِ برحق پر کتابِ برحق کی شہادت

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحقاف ، اٰیت 4 تا 14 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل
ارءیتم ما
تدعون من دون
اللہ ارونی ماذا خلقوا
من الارض ام لھم شرک فی
السمٰوٰت ایتونی بکتٰب من قبل ھٰذا او
اثٰرة من علم ان کنتم صٰدقین 4 ومن اضل ممن
یدعوا من دون اللہ من لایستجیب له الٰی یوم القیٰمة و
ھم عن دعائھم غٰفلون 5 واذا حشرالناس کانوالھم اعداء و
کانوابعبادتھم کٰفرین 6 واذاتتلٰی علیھم اٰیٰتنا بینٰت قال الذین
کفرواللحق لماجاءھم ھٰذا سحر مبین 7 ام یقولون افترٰه قل ان
افتریته فلا تملکون لی من اللہ شیئا ھواعلم بماتفیضون فیه کفٰی
بهٖ شھیدا بینی و بینکم وھوالغفورالرحیم 8 قل ماکنت بدعامن الرسل
وما ادری ما یفعل بی ولابکم ان اتبع الا مایوحٰی الی وماانا الا نذیر مبین 9
قل ارئیتم ان کان من عنداللہ وکفرتم بهٖ وشھد شاھد من بنی اسراءیل علٰی مثلهٖ
فاٰمن واستکبرتم ان للہ لایھدی القوم الظٰلمین 10 وقال الذین کفرواللذین اٰمنوا لوکان
خیراماسبقوناالیه واذلم یھتدوابهٖ فسیقولون ھٰذا افک قدیم 11 ومن قبلهٖ کتٰب موسٰی
اماما ورحمة وھٰذا کتٰب مصدق لساناعربیا لینذرالذین ظلموا وبشرٰی للمحسنین 12 ان الذین
قالواربنا اللہ ثم استقاموا فلاخوف علیھم ولا ھم یحزنون 13 اولٰئک اصحٰب الجنة خٰلدین فیہا
جزاء بماکانوا یعملون 14
اے ہمارے رسُول ! آپ مُنکرین توحید و عاملینِ شرک سے پُوچھیں کہ تُم عالَم کے ایک خالق کی بندگی کو چھوڑ کر اپنی جن خیالی خداؤں کی بندگی کرتے ہو اُن کے بارے میں مجھے بھی تو بتاؤ کہ تُمہارے اُن خیالی خداؤں میں کون ہے جس کا اِس زمین یا اِس زمین پر چھاۓ ہوۓ اِن بلند آسمانوں کے بنانے میں کوئی عمل دخل ہے ، اگر تُم اپنے اِس مُشرکانہ عمل کے اِس دعوے میں سچے ہو تو کسی پہلی آسمانی کتاب کا حوالہ پیش کرو یا اُس پہلی آسمانی کتاب کے کسی عالم کا کوئی ایسا قول ہی پیش کردو جو کسی زمانے میں ایک علمی قول سمجھا گیا ہو ، آخر اُس انسان سے بڑھ کر اور کون سا انسان گم راہ ہوگا کہ جو اپنی حاجات میں اپنے خالق کو چھوڑ کر اپنے اُس خیالی خُدا کو پُکارتا ہو جو اُس کی کوئی پُکار سُن بھی نہیں سکتا اور اُس کی کسی پُکار کا جواب بھی نہیں دے سکتا ، قیامت کے روز جب اِس انسان جیسے گم راہ انسانوں کو جمع کیا جاۓ گا تو اِن کے وہ خیالی خُدا تو اپنے اِن پُجاریوں کو پہچاننے سے ہی انکار کردیں گے جبکہ اِس دُنیا میں اِن کا یہ حال ہے کہ جب اِن کو اللہ کے دلوں کو چُھو لینے والے سچے اَحکام سناۓ جاتے ہیں تو یہ اُن اثر آفریں اَحکام کو جادُو کہہ کر اُن کا انکار کر دیتے ہیں اور اِن کے جو لوگ آپ پر نازل ہونے والے کلامِ وحی کو آپ کا ایک خود ساختہ جُھوٹ کہہ کر رَد کر رہے ہیں تو آپ اِن کو بھی بتادیں کہ میں تُم کو جو کلام سنا رہا ہوں وہ کلام تو میں خود بنانے کا مَلکہ اور اختیار ہی نہیں رکھتا اِس لیۓ میرے اور تُمہارے درمیان اِس کلام کے نازل کرنے والے کی ذاتی صداقت ہی ایک مُعتبر شہادت ہے اور آپ اِن پر یہ اَمر بھی واضح کر دیں کہ میں اپنے سے پہلے نبیوں سے کوئی مُختلف نبی نہیں ہوں بلکہ میں بھی اُن نبیوں کی طرح بلا کم و کاست وہی کلامِ وحی سنانا ہوں جو مُجھ پر نازل ہوتا ہے اور اللہ کے اُن نبیوں کی طرح مُجھے بھی اِس بات کا کوئی علم نہیں ہے کہ آنے والے لَمحے میں اللہ کی طرف سے مُجھے کیا حُکم دیا جاۓ گا اور تُمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا جاۓ گا تاہم اِس لَمحہِ حاضر میں تُم کو میں اللہ کا وہی پیغام سنا رہاہوں جو پیغام اللہ نے مُجھے سنانے کا حُکم دیا ہے اور اللہ کا یہ وہی پیغام ہے جس سے تُم نے تو سرتابی کی ہے لیکن بنی اسرائیل کا ایک فرد اِس پر ایمان لاکر تُم سے پہلے ہی اِس کی صداقت کی شہادت دے چکا ہے جس سے یہ اَمر ثابت ہوگیا ہے کہ یہ قولِ حق صرف اُن لوگوں کا مقدر ہوتا ہے جو لوگ اِس قولِ حق کو سننے اور قبول کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن جو لوگ اِس وحی کو جدید زمانے میں آنے والا ایک قدیم جُھوٹ کہتے ہیں وہ لوگ تو اِس سے کوئی ہدایت حاصل کرنے کے بجاۓ یہ کٹ حُجتی کر رہے ہیں کہ اگر یہ کلام برحق ہوتا تو اِس کے قبول کرنے میں ہم پر کوئی بھی سبقت حاصل نہ کرسکتا حالانکہ اِس سے پہلے جب مُوسٰی نبی حق کا یہی پیغام لے کر آۓ تھے تو اِن لوگوں نے اُس وقت بھی اِس کا انکار کیا تھا اور یہی وجہ ہے اِس جدید کلام میں اُس قدیم کلامِ وحی کی تصدیق کی گئی ہے کیونکہ وہ قدیم کلامِ وحی اور یہ جدید کلامِ وحی اپنی مقصدیت کے اعتبار سے اللہ کا ایک ہی قانونِ رحمت ہے ، اِن میں جو فرق ہے تو صرف یہ فرق ہے کہ یہ جدید کلامِ وحی ایک جدید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے جو خوش دل لوگوں کے لیۓ نجات کی بشارت لے کر آیا ہے اور اِس کلام کا حتمی پیغام یہ ہے کہ جو لوگ ایک بار اللہ کے رَب ہونے کا اقرار کرلیں تو پھر اُس کی اِس رحمت و ربوبیت پر ہمیشہ قائم رہ کر دُنیا کے ہر اُس خوف و غم سے ہمیشہ کے لیۓ آزاد ہو جائیں جو خوف و غم اُن کے ماحول پر چھایا ہوا ہے اور اُس جنت کی خوشخبری سے ہمیشہ کے لیۓ شاد ہو جائیں جو خوش خبری قبولِ حق کے بدلے میں اُن کو دی گئی ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی پہلی تین اٰیات میں اُس کتابِ حق کے نزول کا ذکر کیا گیا ہے جو کتابِ حق سیدنا محمد علیہ السلام پر اللہ تعالٰی نے نازل کی ہے اور اُس کتابِ حق کے اُس ذکر کے بعد اٰیاتِ بالا میں پہلے عرب میں رُونما ہونے والے اُن حالات کا ذکر کیا گیا ہے جو حالات اِس کتابِ حق کے نزول کے بعد کُچھ اِس طرح پر رُونما ہوۓ تھے کہ ایک طرف تو وہ چند مومن و مُسلم اَصحابِ رسُول تھے جو اُس وقت اُس کتابِ حق پر ایمان لاۓ تھے اور دُوسری طرف بیشتر وہ مُنکر و مُشرک اور مُتشکک لوگ تھے جو اپنی پُوری قُوت کے ساتھ حق و اَصحابِ حق کی مُخالفت پر کمر بستہ ہوچکے تھے ، اِن خاص اور حساس حالات کے اِس خاص اور حساس پس منظر میں سب سے پہلے تو اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام کو اِن لوگوں کے ساتھ نبُرد آزما ہونے کے لیۓ جو ترتیب وار اَحکام دیۓ ہیں اُن اَحکام کی تعمیل و تکمیل کے لیۓ سیدنا محمد علیہ السلام کو جو خاص حکمتِ عملی بھی دی گئی ہے اُس خاص حکمتِ عملی کو اختیار کرنے کے لیۓ آپ کے سامنے مُوسٰی علیہ السلام کی یہ مثال پیش کی گئی ہے کہ مُوسٰی علیہ السلام نے اپنے زمانے میں جس صبر و استقامت کے ساتھ اپنے اُن حالات کا مقابلہ کیا تھا جو اُن کو اُس وقت پیش آۓ تھے اِسی طرح آپ نے بھی اپنے زمانے کے اِن حالات میں اُسی صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا ہے ، عہدِ مُوسٰی کے حوالے سے دی گئی اِس مثال کا اہم پہلو اِس اَمر کو اُجاگر کرنا ہے کہ دینِ مُوسٰی و دین محمد علہہما السلام اپنی مقصدیت و معنویت کے اعتبار سے ایک ہی دین ہیں اور اِن دونوں اَدیان کے مخالفین کی فکری و نظری نوعیت بھی ایک ہی ہے تاہم محمد علیہ السلام کی مُشکلات اِس لحاظ سے مُوسٰی علیہ السلام کی مُشکلات سے سخت اور زیادہ ہیں کہ آپ کے سامنے ایک طرف تو عرب کے وہ مُشرکینِ عرب کھڑے ہیں جو آپ کی دعوت کے پہلے مُخاطب اور پہلے دشمن ہیں اور دُوسری طرف آپ کے سامنے وہ اہلِ کتاب بھی موجُود ہیں جن کے چند گنے چنے افراد کے سوا سارے ہی وہ لوگ ہیں جو اپنی دیرینہ تاریخِ استکبار کی بنا پر انکارِ حق کے وہ پرانے مشاق دشمن ہیں جو انکارِ حق کے سارے حیلوں اور ساری حُجتوں سے واقف ہیں اور اُن کو حق کے انکار اور حق سے فرار کے وہ سارے گرُ اَزبر ہیں جو پہلے نبیوں کے مقابلے میں وہ آزماتے رہے ہیں اور اَب اِس آخری نبی کے مقابلے میں بھی آزمانا چاہتے ہیں جو اِس وقت اُن کے زمانے میں اُن کی ایک نسلی حریف قوم کے درمیان موجُود ہیں لیکن اِن اہلِ کتاب میں سے چند لوگوں نے اُسی ابتدائی زمانے میں قبولِ حق کا اعزاز بھی حاصل کر لیا تھا اور اِس بنا پر اِن اٰیات کے اِس مضمون میں مُشرکین عرب کو یہ غیرت بھی دلائی گئی ہے کہ حق تو یہ تھا کہ تُم اِس دینِ حق کو اپنے زمانے کے اہلِ کتاب سے پہلے قبول کرتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بعض اہلِ کتاب اِس کتاب پر ایمان لا نے میں تُم پر سبقت لے گۓ ہیں اور تُم اُن سے پیچھے رہ گۓ ہو مگر مشرکینِ عرب نے اِس کا یہ احمقانہ جواب دیا ہے کہ اگر آپ کا دین سچا ہوتا تو اہلِ کتاب اُس کو قبول کرنے میں ہم پر سبقت حاصل نہ کرتے بلکہ ہم ہی اِس کو قبول کرنے میں اُن پر سبقت حاصل کرلیتے ، بہر کیف اٰیاتِ بالا کے مضمونِ بالا میں اہلِ کتاب کے پہلے ایمان لانے والے جس گروہ کا ذکر کیا گیا ہے اُس گروہ کے لیۓ چونکہ { شھد } اور { شاھد } کے الفاظ استعمال کیۓ گۓ ہیں اِس لیۓ اہلِ روایت نے اِن الفاظ سے اہلِ کتاب کا کوئی فردِ واحد مُراد لیا ہے اور پھر اُس فردِ واحد کا واحد مصداق تلاش کرنے کے لیۓ مُختلف افراد کو نامزد کر کے اپنی روایتی عادت کے مطابق قُرآن کے اِس مضمون میں حسبِ توفیق و حسبِ استطاعت خلطِ مبحث پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن لفظِ شھد اور شاھد لفظِ { انسان } کی طرح اُسلوبِ کلام میں استعمال ہونے والا ایسا ہی ایک اُسلوبِ کلام ہے جیسا انسان ہے کہ جب تک ہم کسی انسان کو یہ اور وہ کے اشارہِ ضمیر کے بغیر استعمال میں لاتے ہیں تو اُس سے انسان کا ایک فرد مُراد ہوتا ہے لیکن جب ہم مُجرد انسان بولتے ہیں تو اِس سے انسا ن کی ایک نوع مُراد ہوتی ہے اور اٰیاتِ بالا کے اِس مضمون میں بھی لفظِ شھد و لفظِ شاھد سے بنی اسرائیل کا کوئی فردِ شاھد مُراد نہیں ہے بلکہ اِس سے بنی اسرائیل کی وہ نوعِ شاھد مُراد ہے جس کے بعض اہلِ کتاب عرب کے بعض اہلِ عرب سے پہلے اِس کتاب پر ایمان لے آۓ تھے اور اُس وقت اُس کی یہ عقلی و مَنطقی وجہ بھی موجُود تھی کہ وہ اہلِ کتاب ، اہلِ کتاب ہونے کی بنا پر سابقہ آسمانی کتابوں کے مزاج شناس ہونے کے باعث اِس کتاب کے مزاج کو بھی پہلے سمجھے اور پہلے اِس پر ایمان لے آۓ کیونکہ وحی قدیم ہو یا جدید ہو وحی کا دعوتی و اصلاحی مزاج بہر حال ایک ہے اِس لیۓ جو اہلِ کتاب اپنی کتاب کے مزاج آشنا ہوتے ہیں وہ اہلِ کتاب اگر قُرآن کو پڑھتے ہیں تو بہت جلد اِس کے بھی مزاج آشنا ہو جاتے ہیں اور اٰیاتِ بالا کا پیغام بھی یہی ہے کہ جن سابقہ آسمانی کتابوں کے جن حصوں میں روایات کی ملاوٹ نہیں ہوئی ہے اُن کا مقصدی پیغام قُدرت کا وہی آفاقی پیغام ہے جو قُرآن کا آفاقی پیغام ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558321 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More