وبا کے باعث 15 ملین اموات

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ابھی حال ہی میں وبا کے باعث اموات کی تعداد سے متعلق انکشاف کیا کہ گزشتہ سال 2021 کے آخر تک دنیا بھر میں تقریباً 15 ملین اموات براہ راست یا بالواسطہ طور پر کووڈ۔19 سے جڑی ہوئی تھیں۔ عالمی تنظیم کے مطابق 01 جنوری 2020 سے 31 دسمبر 2021 تک کووڈ۔19 کے باعث اموات کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ تعداد تقریباً 14.9 ملین رہی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق، زیادہ تر اموات یعنیٰ تقریباً 84 فیصد کا تعلق جنوب مشرقی ایشیاء، یورپ اور امریکہ سے ہے جبکہ عالمی سطح پر تقریباً 68 فیصد اموات صرف 10 ممالک میں ہوئی ہیں۔ دریں اثنا، پندرہ ملین اموات میں سے درمیانی آمدنی والے ممالک میں مجموعی اموات کا تناسب 81 فیصد ، جب کہ بلند اور کم آمدنی والے ممالک میں بالترتیب 15 اور 4 فیصد رہا ہے۔ عالمی سطح پر کووڈ۔19 کے باعث ہونے والی اموات میں مردوں کا تناسب 57 فیصد رہا جبکہ خواتین میں یہ تناسب 43 فیصد رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مطابق "بالواسطہ اموات" صحت کے دیگر حالات سے منسوب رہیں جن کی وجہ سے لوگ روک تھام اور علاج تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر رہے، کیونکہ صحت کے نظام کو وبائی صورتحال کا اضافی بوجھ درپیش تھا۔

وبائی صورتحال میں ویکسینیشن نے اموات کی روک تھام میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ایسے ممالک جہاں ویکسینیشن کی بلند شرح دیکھی گئی وہاں اموات اور نئے کیسز کی تعداد بھی کم رہی ہے۔اس کی بہترین مثال چین کی ہے ، جہاں تا حال 1.25 بلین سے زائد افراد کی مکمل ویکسینیشن کی جا چکی ہے جو ملک کی مجموعی آبادی کا 88.74 فیصد بنتا ہے۔چین کے محکمہ صحت کے مطابق مجموعی طور پر، کووڈ۔19 ویکسین کی تقریباً 3.35 بلین خوراکیں چائنیز مین لینڈ میں لگ چکی ہیں، تقریباً 757 ملین افراد یا نصف سے زائد آبادی کو بوسٹر جاب بھی لگ چکے ہیں۔جہاں تک 60 سال اور اس سے زائد عمر کے بزرگ شہریوں کا تعلق ہے جنہیں کووڈ۔19 سے زیادہ متاثر ہونے کا خطرہ رہتا ہے ،اُن میں 227 ملین سے زیادہ افراد یا اس ایج گروپ کے 86.23 فیصد کو ویکسین لگائی گئی ہے جبکہ 162 ملین سے زائد بزرگ شہریوں کو بوسٹر شاٹس بھی لگ چکے ہیں۔

چین میں مئی کے آغاز سے کووڈ۔19 کی مجموعی صورتحال مستحکم ہو رہی ہے، یومیہ نئے مصدقہ کیسز اور غیر علامتی کیسز کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ لیکن چینی حکام کے نزدیک وائرس کے دوبارہ پھیلاؤ کا خطرہ بدستور موجود ہے اور صورتحال اب بھی چیلنجنگ اور پیچیدہ ہے جس کے باعث انسداد وبا اقدامات میں کوئی نرمی نہیں برتی جا رہی ہے۔تاہم یہ بات اچھی ہے کہ ملک میں اس وقت مجموعی صورتحال مسلسل بہتری کی جانب جا رہی ہے اور ابھی حال ہی میں لیبر ڈے کے حوالے سے اختتام پزیر ہونے والی پانچ روزہ تعطیلات کے دوران وبائی صوررتحال بڑی حد تک قابو میں رہی ہے۔

چین میں وبا کی حالیہ "اومی کرون لہر "میں ملک کا صنعتی تجارتی مرکز شنگھائی سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے تاہم بروقت اور موئثر اقدامات کے باعث اس وقت روزانہ نئے انفیکشن کی تعداد میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔ دریں اثنا، دارالحکومت بیجنگ نے اہم علاقوں میں وسیع پیمانے پر نیوکلک ایسڈ ٹیسٹنگ اور فعال روک تھام کو اپناتے ہوئے وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کو کم کر دیا ہے۔۔ بیجنگ حکام نے شہریوں کی سہولت کی خاطر تمام کمیونٹیز میں ٹیسٹنگ مراکز قائم کر دیے ہیں جہاں شام گئے تک لوگ اس سہولت سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

بیجنگ کے انسداد امراض مرکز کے مطابق تا حال نئے انفیکشنز کی کل تعداد 500 سے زائد ہو چکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بیجنگ نے زیادہ تر اضلاع میں کمیونٹی کی سطح پر بڑے پیمانے پر نیوکلک ایسڈ ٹیسٹنگ کے کئی دور منعقد کیے ہیں ۔حکام کے مطابق بیجنگ میں "ٹرانسمیشن چین" ابھی تک مکمل طور پر منقطع نہیں ہوئی ہے، کیونکہ کمیونٹی کی سطح پر بڑے پیمانے پر جانچ کے دوران نئے کیسز مسلسل سامنے آئے ہیں۔ کچھ کیسز میں ایسے بناء علامات والے متاثرہ افراد بھی شامل ہیں جن کا نیو کلک ایسڈ ٹیسٹ کا نتیجہ منفی آیا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ تقریباً 20 ملین لوگوں نے ٹیسٹنگ میں حصہ لیا ہے۔
بیجنگ شہر میں انسداد وبا اقدامات کے تحت ذرائع نقل و حمل سمیت تفریحی مراکز کو بھی شامل کیا گیا ہے اور وسیع اجتماعی سرگرمیوں کی مکمل حوصلہ شکنی جاری ہے۔شہر میں تفریحی مقامات، انٹرنیٹ کیفے، جم اور دیگر انڈور کھیلوں کے مقامات پر سرگرمیاں بدستور معطل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لائبریریاں، ثقافتی مراکز، آرٹ گیلریاں اور دیگر ثقافتی مراکز بھی عارضی طور پر بند ہیں۔ شہر بھر کے تمام ریستورانوں کے لیے ڈائن ان سروسز بھی معطل رہیں گی۔ یہ تمام اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ چینی حکام عوام کی صحت و سلامتی پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کیے بغیر "ڈائنامک زیرو کووڈ پالیسی" پر عمل پیرا ہیں ، جو ملک میں انسداد وبا کی کوششوں میں انتہائی معاون ثابت ہوئی ہے۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 962 Articles with 411361 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More