انسانی تَخلیق اور انسانی تعلیم و تربیت !

#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَةُالاَحقاف ، اٰیت 15 تا 18 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ووصینا
الانسان بوالدیه
احسٰنا حملته امهٗ
کرھا ووضعتهٗ کرھا و
حملهٗ وفصٰلهٗ ثلٰثون شھرا
حتٰی اذابلغ اشدهٗ وبلغ اربعین
سنة قال رب اوزعنی ان اشکر
نعمتک التی انعمت علیه وعلٰی و
الدی وان اعمل صالحاترضٰه واصلح لی
فی ذریتی انی تبت الیک وانی من السلمین
15 اولٰئک الذین نتقبل عنھم احسن ما عملوا
ونتجاوزعن سیاٰتہم فی اصحٰب الجنة وعدالصدق
الذین کانوایوعدون 16 والذی قال لوالدیه اف لکما اتعدٰننی
ان اخرج وقد خلت القرون من قبلی وھمایستغیثٰن اللہ ویلک اٰمن ان
وعداللہ حق فیقول ماھٰذا الا اساطیر الاولین 17 اولٰئک الذین حق علیہم
القول فی امم قد خلت من قبلھم من الجنة والانس انھم کانواخٰسرین 18
انسانی جنت کی عملی تشکیل تو اُسی وقت سے شروع ہو جاتی ہے جس وقت اللہ کے حُکم سے ایک جنین کو رحمِ مادر کی جنت میں جسمانی تَخلیق و رُوحانی تعلیم اور ذہنی تربیت کے لیۓ پُہنچا دیا جاتا ہے ، اِس تعلیم و تربیت کے لیۓ جب کوئی جنین اللہ کے حُکم سے رحمِ مادر میں پُہنچا دیا جاتا ہے تو پہلے تین ماہ کے دوران تو اُس جنین کی ماں کو اُس جنین کا وزن کم کم ہی محسوس ہوتا ہے لیکن دُوسرے تین ماہ کے دوران اُس جنین کی ماں پر اُس جنین کا وزن روز بروز بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور پھر اِس دوران جس جنین کو رحمِ مادر میں پرورش کے کُچھ غیر معمولی اَسباب مُیسر آجاتے ہیں تو وہ چھ ماہ بعد ہی دُنیا میں آنے کے قابل ہوجاتا ہے لیکن جس جنین کو رحمِ مادر میں پرورش کے اَسباب معمول کے مطابق ملتے ہیں تو وہ رحمِ مادر میں نو ماہ پُورے کرنے کے بعد دُنیا میں آتا ہے لیکن اِن میں سے کسی جنین کے حمل اور شیر خوارگی کی مجموعی مُدت تیس ماہ سے زیادہ نہیں ہوتی ، شاہراہِ حیات پر قدم رکھنے کے لیۓ دُنیا میں آنے والے اِن دونوں قسم کے بچوں کی فطرت میں اُن کے دُنیا میں آنے سے پہلے ہی یہ وصیت بھی نقش کردی جاتی ہے کہ تُم نے اپنی ماں اور اپنے باپ کے ساتھ کبھی بھی اُف تُف کے لب و لہجے میں بات نہیں کرنی ہے بلکہ تُم نے جب بھی اُن کے ساتھ بات کرنی ہے تو ہمیشہ ہی اَخلاق و مُروت کے ساتھ بات کرنی ہے اور اِن میں سے ہر ایک جنین کو یہ بات خاص طور پر ذہن نشین کرائی جاتی ہے کہ اُس کی ماں نے اُس کو اپنے رحم میں اُٹھانے اور اپنے رحم سے باہر لانے میں جو ناقابلِ فراموش تکلیف اُٹھائی ہے اُس تکلیف کو بھی اُس نے کبھی فراموش نہیں کرنا لیکن جب وہ دو قسم کے دونوں جنین فطرت کی آغوش سے نکل کر اپنے ماں باپ کی آغوش میں آجاتے ہیں تو اُن کی اُس عملی تربیت کے بعد اُن میں سے ایک جنین تو۔جوان ہو کر اِس اَخلاق و کردار کا حامل ہوتا ہے جو چالیس برس کی عُمر تک پُہنچنے کے بعد دل ہی دل میں اپنے پرورش کار سے یہ درخواست کرتا رہتا ہے کہ بارِ الٰہ ! تُو مُجھے توفیق عطا فرما کہ میں تیری اُن نعمتوں کا شکر ادا کر سکوں جو نعمتیں تُونے مُجھے اور میرے والدین کو دی ہوئی ہیں اور تُو مُجھے یہ توفیق بھی عطا فرما کہ میں اپنی اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کر سکوں اور میں عُمر بھر تیرے اَحکام کے مطابق چلتا رہوں اور اِس طرح اِس زمین پر اِس انسان کے والدین کا اور اِس انسان کی اولاد کا یہ گھرانا ایک جنتی گھرانا بن کر ظاہر ہوتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کا مضمونِ بالا وہی ہے جو مفہومِ بالا میں بالا میں ہم نے تحریر کیا ہے لیکن اِس مضمون کے عملی و عقلی مقاصد میں یہ حقائق بھی شامل ہیں کہ عالَمِ انسان و عالَمِ انسانیت کے بلند مقام سے نیچے عالَمِ حیوان و عالَمِ حیوانیت کی جتنی بھی پَست حیوانی اَقسام موجُود ہیں اُن تمام حیوانی اَقسام کے نسلی سلسلے میں انسانی نسلوں کی طرح آبائی فکر و خیال کا کوئی اُلجھاؤ نہیں ہوتا بلکہ اُن تمام حیوانی نسلوں کی حیوانی جبلت میں حیوانی خواہشات کا وہی ایک داعیہ موجُود ہوتا ہے جس داعیۓ کے باعث اُن حیوانی نسلوں میں اُلجھاؤ کے بجاۓ ایک سُلجھاؤ ہی سُلجھاؤ موجُود ہوتا ہے اور اُس حیوانی سطح کے تمام حیوانات کے بچے ایک مُختصر سے عرصے تک تو اپنے والدین کے قدم سے قدم ملا کر چلتے ہیں لیکن ایک مُختصر عرصے کے بعد جلد ہی وہ اپنے جسم و جان کو سنبھالنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور اپنے جسم و جان میں اپنے آپ کو سنبھالنے کی اُس اہلیت و صلاحیت کو محسوس کرتے ہی وہ خود مُختار ہو کر اپنے اپنے جسم اور اپنی اپنی جان کے لیۓ اپنے اپنے دانے دُنکے کی تلاش میں نکل جاتے ہیں لیکن انسان عالَمِ انسانیت کی جس بلند سطح پر مُتمکن ہے اُس بلند سطح پر اُس کے آبائی فکر و خیال کے سُلجھاؤ کے بجاۓ ایک اُلجھاؤ ہی اُلجھاؤ موجُود ہوتا ہے کیونکہ اِس انسانی سطح پر جو انسان پیدا ہوتے ہیں اُن انسانوں میں انسانی خیالات کی ایک ایسی یلغار چلتی رہتی ہے جو انسان کو انسان کے اُن آبائی خیالات کے اُس طوفانی یلغار کا شکار بناۓ رکھتی ہے جس میں حیوانی سطح کا عملی سکون نہیں ہوتا بلکہ انسانی سطح کا ایک عقلی اضطراب ہوتا ہے اِس لیۓ قُدرت نے انسان کے بچے کو زیادہ دیر تک والدین کی نگرانی میں رکھنے کا جو وقت دیا ہوا ہے وہ اِس شرط کے ساتھ مشروط کر کے دیا ہوا ہے کہ انسان نے اپنی نگرانی میں پروان چڑھنے والے بچے کی جو تعلیم و تربیت کرنی ہے وہ علمِ وحی کے مطابق کرنی ہے کیونکہ علمِ وحی کی اُس تعلیم و تربیت سے ایک خاص طرز کا جو انسان پروان چڑھتا ہے وہ اپنے بعد آنے والی انسانی نسلوں کو شاد و آباد کرکے جنت کے راستے پر گامزن کردیتا ہے بخلاف اِس کے کہ جس انسان کے جس بچے کی تعلیم و تربیت علمِ وحی کے بغیر ہوتی ہے اُس سے بھی ایک خاص طرز کا وہ انسان پروان چڑھتا ہے جس کی شخصیت میں وحی کا نُورانی سُلجھاؤ نہیں ہوتا بلکہ صرف ایک ایسا بے نُور نسلی اُلجھاؤ ہوتا ہے جو اپنے بعد آنے والی انسانی نسلوں کو ناکام و نامراد بنا کر جہنم کے راستے پر گامزن کر دیتا ہے ، علمِ وحی کی اِس تعلیم و تربیت میں بظاہر تو انسانی حیات و نفسیات کا ایک نفسیاتی پہلو ہی نظر آتا ہے لیکن اِنسان کے اِس نفسانی پہلو میں چونکہ جنت کی ایک لذت و راحت کا تصور بھی شامل ہوتا ہے اِس لیۓ انسانی نفسیات کا یہ معاملہ محض انسانی نفسیاتی کا ایک نفسانی معاملہ نہیں ہے بلکہ اِس میں انسان کی جنسی ہیجان کا وہ معاملہ بھی شامل ہوتا ہے جس کے زیرِ اثر ہونے کے باعث انسان تزویج کے عمل سے گزر کر اپنی وہ نسلیں پیدا کرتا ہے جو نسلیں اپنے مُثب یا مَنفی عمل کی بنا پر جنت یا جہنم کی مُستحق ہوتی ہیں ، اِس لیۓ قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں انسان کے اِس نفسانی و ہیجانی معاملے کو انسان کی جنسیات و نفسیات کے دونوں حوالوں کے ساتھ بیان کیا ہے اور ایک ترجیحی بُنیاد پر پہلے انسان کے اُس جنسی و ہیجانی پہلو کو انسان کے والدین کے جنسی عمل کے حوالے سے پہلے بیان کیا ہے اور اُس کے بعد انسان کے اُس نفسیاتی پہلو کا وہ جنسی پس منظر بھی بیان کیا ہے جس سے انسان کا وہ نسلی سلسلہ چلتا ہے جو اپنے اعمالِ نیک و بد کی بنا پر جنت یا جہنم کا مُستحق ہوتا ہے ، انسانی زندگی کی حقیقت زندگی کی ایک نسلی مشین سے گزر کر جنت کے اُس مشن کو قبول کرنا ہے جس مشن کا صلہ جنت ہے اور جنت کی حقیقت انسان کو اُس کی ہر ضرورت کی ہر شئی اُس کے اعمال کی مشقت کے بجاۓ اُس کے بلا مشقت خیال سے ملنے کا احساس ہی وہ جنت ہے جو ہر انسان کے عملِ تخلیق سے پہلے ہر انسان کو رحمِ مادر کی صورت میں دی جاتی ہے اور رحمِ مادر کی اُس پہلی جنت میں ہر انسان کو مشقت کے بغیر ایک خواہش و خیال ہی سے ہر وہ چیز مل جاتی ہے جس کی اُس انسان کو اُس جنت میں ضرورت ہوتی ہے اور قُرآنِ کریم نے انسان کی زندگی سے پہلے ملنے والی اسی پہلی جنت سے یومِ آخرت اور یومِ آخرت کی اُس آخری جنت پر استدلال کیا ہے جو اِس زندگی کے بعد انسان کو وحی کی اتباع کے انعام کے طور پر ملنی ہے ، اگر انسان کا موجُودہ وجدان اور موجُودہ تجربہ زندگی سے پہلے ملنے والی اِس پہلی جنت سے انکار نہیں کر سکتا تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ انسان کا ایمان اُس دُوسری جنت کا انکار کر سکے جو دُوسری جنت اِس پہلی زندگی کے بعد اُس دُوسری زندگی میں اُس کو ملنی ہے جو انسان کے ایمانِ دُنیا و ایمانِ آخرت کے وعدے کی شرط کے ساتھ مشروط ہے ، اِس سُورت کی اِن اٰیات سے جو دو بڑے اَحکامِ لازم مُتبادر ہوتے ہیں اُن میں پہلا حُکمِ لازم بچے کی رضاعت ہے جس کا اِس سے پہلے سُورَةُالبقرَة کی اٰیت 233 میں یہ قانون بیان ہوا ہے کہ جن بچوں کی جو مائیں اپنے بچوں کو اُن کی رضاعت کی پُوری مُدت تک اپنا دودھ پلانا چاہیں تو وہ پُورے دو برس تک اُن کو دودھ پلائیں لیکن اِس قانون میں جو مشروط حُکم دیا گیا ہے اُس مشروط حُکم میں یہ گُنجائش بھی موجُود ہے کہ اگر وہ مائیں کسی خاص وجہ سے 2 برس سے کُچھ دیر پہلے بھی اپنے بچوں کو دودھ پلانا بند کردینا چاہیں تو وہ ایسا بھی کر سکتی ہیں لیکن اِس سُورت کی اٰیاتِ بالا میں جو قانون بیان ہوا ہے اُس قانون میں یہ ضابطہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اگر عورت کے حمل اور رضاعت کی مجموعی مُدت 30 ماہ ہے اور اِن 30 ماہ کے دوران ایک بچہ اگر 9 ماہ پیدا ہوتا ہے تو وہی بچہ 6 ماہ میں بھی پیدا ہو سکتا ہے اور جو بچہ 6 ماہ میں پیدا ہوتا ہے تو اُس کی ماں کو چاہیۓ کہ وہ اُس کو پورے 2 سال تک دودھ پلاۓ تاکہ اُس بچے کو رحمِ مادر میں کم مُدت رہنے کی وجہ سے جو کم خوراک ملی ہے اُس کم خوراک کی کمی پیدائش کے بعد پلاۓ جانے والے اِس دُودھ سے پُوری ہو جاۓ اور اُس کے اِس ابتدائی نظامِ پرورش میں کوئی کمی نہ رہ جاۓ ، اٰیاتِ بالا میں جو دُوسرا بڑا حُکمِ لازم بیان ہوا ہے وہ والدین کے ساتھ اپنی اولا کا وہ حسنِ سلوک ہے جس کا سُورَةُالاَسراء کی اٰیت 23 میں ہم بہت تفصیل سے ذکر کر چکے ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 532632 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More