#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحقاف ، اٰیت 17 تا 19
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
والذی
قال لوالدیه
اف لکما اتعدٰننی
ان اخرج وقد خلت
القرون من قبلی وھما
یستغیثٰن اللہ ویلک اٰمن ان و
عداللہ حق فیقول ما ھٰذاالا اساطیر
الاولین 17 اولٰئک الذین حق علیہم القول فی
امم قد خلت من قبلھم من الجن والانس انھم کانوا
خٰسرین 18 ولکل درجٰت مما عملوا ولیفیھم اعمالھم وھم
لایظلمون 19 ویوم یعرض الذین کفروا علی النار اذھبتم طیبٰتکم
فی حیاتکم الدنیا واستمتعتم بھا فالیوم تجزون عذاب الھون بما کنتم
تستکبرون فی الارض بغیرالحق وبما کنتم تفسقون 20
اُن پہلے علم و عمل سے بہرہ ور والدین کی نگرانی میں پرورش پانے والی اُس
پہلی علم و عمل سے بہرہ ور اولاد کا جو ذکرِ خیر ہوا ہے اُس ذکرِ خیر کے
بعد اَب اُن والدین کا ذکر کیا جا رہا ہے جو خود بھی علم و عمل سے بے بہرہ
ہوتے ہیں اور وہ اپنے بعد زمین پر اپنی جو اولاد چھوڑ کر جاتے ہیں وہ اولاد
بھی علم و عمل سے بے بہرہ ہوتی ہے اور جب علم و عمل سے اُن کی وہ بے بہرہ
اولاد جوان ہو کر اُن کے سامنے اتی ہے تو اُن سے کہتی ہے کہ ہم تو تُمہاری
اُس تعلیم سے بہت بیزار ہیں جو تعلیم تُم ہم کو دیتے ہو اور ہم سے تُم یہ
کہتے ہو کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو جاۓ گا حالانکہ ہمارا اور
تُمہارا مُشترکہ مشاہدہ اِس اَمر پر شاہد ہے کہ ہم سے اور تُم سے پہلے زمین
پر اہلِ زمین کی جو بیشمار انسانی نسلیں مر کر مٹی ہو چکی ہیں اُن انسانی
نسلوں کا کوئی ایک فرد بھی مر کر کبھی زندہ نہیں ہوا ہے لیکن ہمارے اور
تُمہارے اِس مُشترکہ مشاہدے کے بعد بھی تُمہارا یہ خیالی اصرار جاری رہنا
ہمارے لیۓ ناقابلِ فہم ہے کہ انسان نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے اور
اُن کی یہ بات سُن کر اُن کے وہ والدین کبھی تو مضطرب ہو کر اپنی اُس گم
راہ اولاد کے لیۓ ہدایت کی دُعائیں مانگتے ہیں اور کبھی اُس سے کہتے ہیں کہ
آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تُم اللہ کے قانُونِ مکافات کا انکار کر کے
اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہو اور تُم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے ہو کہ
اللہ کا علمِ وحی سراسر ایک حقیقتِ لاریب اور تُمہارا نظری مشاہدہ سر بسر
ایک سراب و فریب ہے اور وہ اپنے والدین سے کہتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ
تُمہاری یہ سب باتیں فرسُودہ زمانے کی وہ فرسُودہ باتیں ہیں جو باتیں تُم
نے اپنے پہلے لوگوں سنی ہیں اور اَب تُم اپنے بعد کے لوگوں کو سنا رہے ہو
لیکن اِن لوگوں کی اِن باتوں سے قطع نظر حقیقت تو یہی ہے کہ زمان و مکان
میں یہی دیدہ و نادیدہ والدین اور اُن کی یہی وہ دیدہ و نادیدہ نافرمان
نسلیں ہوتی ہیں جن پر خُدا کے وہ خُدائی عذاب آتے ہیں جو اُن کو فنا کے
گھاٹ اُتار کر گزر جاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ یہ نہیں مانتے کہ اللہ کا قانونِ
مکافات برحق ہے اور یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ جو لوگ اِس قانونِ مکافات کا
انکار کرتے ہیں وہ اُس عذابِ جہنم کا شکار ہو جاتے ہیں جو اُن کی نظر سے
اوجھل ہوتا ہے اور جس وقت اہلِ زمین پر مکافاتِ عمل کا وہ یومِ حساب آتا ہے
تو وہ اہلِ زمین کے ہر مُثبت و مَنفی عمل کی ہر جزا و سزا کے ساتھ آتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
والدین اور اولاد کے جسمانی و رُوحانی اور علمی و فکری تعلق کے علمی و فکری
گوشوں کو اُجا گر کرنے والے اِس مضمون کی پہلی دو اٰیات اور موجُودہ تین
اٰیات کا مُخاطب انسان ہے اور انسان کا اطلاق انسان کے فرد اور انسان کی
نوع کی دونوں اَقسام پر ہوتا ہے اِس لیۓ پہلی دو اٰیات کے مفہوم و مطالب
میں ہم نے انسانی نوع کے فرد پر زیادہ توجہ دی تھی اور موجُودہ تین اٰیات
میں ہم نے انسانی افراد کی نوع پر زیادہ توجہ دی ہے ، انسان کی اِس فرد اور
اِس نوع میں چونکہ مرد و زن دونوں ہی شامل ہوتے ہیں اِس لیۓ موجُودہ اٰیات
میں ہم نے اِس انسانی نوع کے اِس مقصدی مفہوم کی رعایت سے اِس کے اِس مفہوم
میں مرد و زن دونوں کو شامل کر کے اِس کے اِس مفہوم کو والدین کے ایک بیٹے
یا والدین کی ایک بیٹی کے مفہوم تک محدو رکھنے کے بجاۓ اِس مضمون کو والدین
کی نرینہ و زرینہ اولاد کے وسیع مفہوم تک وسیع کرنے کی کوشش کی ہے ، قُرآنِ
کریم اِن اٰیات کے اِس مضمون میں انسان کو جن بُنیادی دینی و اخلاقی اُمور
کی تعلیم دینا چاہتا ہے اُن اُمور میں اَمرِ اَوّل یہ ہے کہ انسانی زندگی
تَخلیق سے تدفین تک پُہنچنے اور مر کر زمین میں دفن ہو جانے کا کوئی ایسا
بے مقصد عمل نہیں ہے کہ ایک انسان زمین میں پیدا ہو اور زمین پر پیدا ہو کر
مر جاۓ اور پھر مر کر زمین میں دفن ہو جاۓ اور اسی طرح انسانی زندگی کا یہ
مقصد بھی نہیں ہے کہ ایک زندہ انسان زمین پر اپنے بچے پیدا کر کے خود زمین
میں اُتر جاۓ اور اُس زندہ انسان کو اپنی موت تک اِس حقیقت کا علم تک نہ ہو
کہ اُس کے والدین اِس زمین پر اُس کی تخلیق کا باعث کیوں بنے تھے اور اُن
کے بعد وہ خود بھی اِس زمین پر والدین کی حیثیت اختیار کر کے زمین پر وہ نۓ
بچے تخلیق کرنے کا باعث کیوں بن رہے ہے جن بچوں کے پاس زندگی تو موجُود
ہوتی ہے لیکن زندگی کا وہ علمِ مطلوب موجُود نہیں ہو تا جس علمِ مطلوب کے
مطابق اُن کی زندگی بسر ہوتی ہے حالانکہ زندگی تو وہ سنجیدہ حقیقت ہے کہ جس
کو سنوار کر گزارنے کے لیۓ ہر مرد و زن کو اِس بات کا یقینی علم ہونا چاہیۓ
کہ زمین پر اُس کے آنے اور زندہ رہنے کا مقصد کیا ہے ، اَمرِ وقعہ یہ ہے کہ
جس طرح رحمِ مادر میں انسانی زندگی کی ایک ابتدا و انتہا ہوتی ہے یا جس طرح
بچپن سے جوانی تک انسانی زندگی کی ایک ابتدا و انتہا ہوتی ہے اور یا پھر جس
طرح جوانی سے بڑھاپے تک انسانی زندگی کی ایک ابتدا و انتہا ہوتی ہے اسی طرح
اِس زمین کے ہر انسان پر اِس زمین پر آنے والی موت کے بعد بھی اُس زندگی کی
ایک ابتدا ہوتی ہے جس ابتدا کی کوئی انتہا نہیں ہوتی اور اُس بے انتہا
زندگی میں ہر انسان نے اِس زندگی کی جوانی سے بڑھاپے تک اَنجام دیۓ ہوۓ
اپنے جُملہ اعمالِ خیر و شر کا وہ حساب دینا ہے جس حسابِ خیر و شر کے بعد
ہی اُس کو اُس زندگی میں اپنے اچھے یا بُرے اعمال کا وہ نیک و بد بدلہ حاصل
کرنا ہوتا ہے جس نیک و بد بدلے پر اُس کی اُس زندگی کا دار و مدار ہوتا ہے
، قُرآنِ کریم کی رُو سے زندگی سے زندگی کی طرف بڑھ کر ایک زندگی سے دُوسری
زندگی میں ڈھلنے والے اِس ابتدائی اور ارتقائی عمل کو سمجھنے کے لیۓ پہلے
اولاد کو اپنے والدین سے اِس زندگی کے بارے میں کُچھ نہ کُچھ سمجھنا لازم
ہوتا ہے اور بعد ازاں اپنی اولاد کو بھی اِس زندگی کے بارے میں کُچھ نہ
کُچھ سمجھانا بھی لازم ہوتا ہے اِس کے بعد ہی انسان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ
زندگی کیا ہے اور مقصدِ زندگی کیا ہے کیونکہ زندگی اور مقصدِ زندگی کا یہ
علم ہی وہ علم ہے جو ہر مرد و زن کو نکاح و شادی کی عُمر تک پُہنچنے سے
پہلے حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ پہلے والدین کی زندگی ایک مقصد کی حامل ہو اور
والدین کے بعد اولاد کی زندگی بھی ایک مقصد کی حامل ہو اور تاکہ جو مرد اور
جو عورت نکاح و شادی کی عُمر کو پُہنچ جاۓ تو اُس کو یہ بات یقین کے ساتھ
معلوم ہو جاۓ کہ اُن کا ایک دُوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کا نکاح سے موت تک
کا جو ایک معاشرتی معاہدہ ہو رہا ہے اُس معاہدہ کو ایک اعلٰی اَنجام دینے
کے لیۓ اُس کے پاس اُس کی ذاتی محنت سے حاصل کیۓ ہوۓ کتنے وسائل موجُود ہیں
اور انسانی ریاست کی طرف سے مُہیا کیۓ ہوۓ کون سے وہ وسائل موجُود ہیں جن
وسائل کے بل بوتے شعوری طور پر وہ یہ معاشرتی ذمہ داری اُٹھانے کے لیۓ تیار
ہوۓ ہیں لیکن عام انسانی معاشرے بالعموم اور مُسلم معاشرے میں بالخصوص عملی
صورتِ حال یہ ہے کہ جو مرد و زن نکاح کی عُمر میں پُہنچ کر معاہدہِ نکاح
کرتے ہیں تو اُس وقت اُن کے پاس اپنے جاہل مُلا اور جاہل پادری کے اُن چند
رٹے رٹاۓ ہوۓ بے مقصد و بے معنی مذہبی الفاظ کے سوا کُچھ بھی نہیں ہوتا جن
بے مقصد الفاظ کا اُن کی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا حالانکہ
انسانی نکاح کا یہ عمل انسان کا کوئی اسلامی یا غیر اسلامی ایمان و اعتقاد
نہیں ہوتا کہ جس کو مُلا اور پادری کے جالانہ خیال کے مطابق انجام دیا جاۓ
بلکہ یہ ایک انسان کا دُوسرے انسان کے ساتھ کیا جانے والا وہ معاشرتی
معاہدہ ہوتا ہے جس معاہدے کو اُس معاشرے کے اجتماعی قوانین کے مطابق سمجھا
جاتا ہے جس کے اُس قانونی معاہدے کے تحت وہ زیرِ معاہدہ افرادِ مرد و زن
انسانی معاشرے کو وہ مُہذب اولاد دیتے ہیں جو اولاد خود بھی انسان کی دینی
و رُوحانی اَقدار کی ایک قابلِ فخر جانشین بنتی ہے اور اپنے بعد اپنی اولاد
کو بھی انسانی معاشرے کا ایک قابلِ فخر جانشین بناتی ہے ، والدین و اولاد
کی یہی وہ جنتی نسل ہوتی ہے جو نسل پہلے اپنی اِس جہنم نما زمین کو ایک جنت
نما زمین بناتی ہے اور پھر اپنی اِس جنت کو اپنے عہدِ حال سے گزار کر اپنے
عہدِ مُستقبل تک پُہنچاتی ہے ، قُرآنِ کریم میں اِس کی مُثبت مثال انسان کی
وہ مُہذب اولاد ہے جس کا اِس مضمون کی پہلی دو اٰیات میں ذکر ہوا ہے اور
اِس کی مَنفی مثال انسان کی اَن گھڑ والدین کی وہ اَن گھڑ اولا ہے جس کا
موجُودہ اٰیات میں ذکر کیا گیا ہے اور جو ایسی اولاد ہے جو نہ تو اپنے
والدین سے اعلٰی انسانی اَقدار لینے کے قابل ہوتی ہے اور نہ ہی اپنی اولاد
کو اعلٰی انسانی اَقدار دینے کی اہل ہوتی ہے ، اِس بگڑی ہوئی نسسل کے یہی
وہ جاہل افراد ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کو معاہدہِ نکاح سے پہلے اَعلٰی
انسانی و اخلاقی اور دینی و رُوحانی تعلیم نہیں دیتے اِس لیۓ یہ لوگ زمین
پر اپنی وہ لادین و لاقانون اور بدلحاظ و بد زبان نسلیں پیدا کرتے ہیں جن
کا اٰیاتِ بالا میں ذکر ہوا ہے اور اللہ کی اِس زمین پر پیدا ہونے والے یہی
وہ جہنمی لوگ ہوتے ہیں جو پہلے اپنے اعمالِ بد سے اِس جنتِ ارضی کو جہنم
بناتے ہیں اور پھر اپنی اس جہنم نما زمین کو اپنے عمل کے اِس روشن حال سے
گزار کر اپنے نتائجِ عمل کے اُس تاریک مُستقبل تک لے جاتے ہیں جو اِن کے
اَنجام کا آخری مقام ہوتا ہے !!
|