جب سب کچھ دکھائی تو دے مگر نظر کچھ نہ آئے، ایفانٹازیا کیا ہے؟

image
 
کیا آپ کسی ایسی صورت حال کا تصور کر سکتے ہیں کہ آپ کو بظاہر سب کچھ دکھائی تو دے رہا ہو مگر نظر کچھ بھی نہ آئے؟ بصارت سے جڑے اس مرض کو ایفانٹازیا کہتے ہیں، جس کی وجہ متعلقہ فرد کی آنکھوں کا اندرونی نابینا پن بنتا ہے۔
 
انسانوں میں دیکھنے کی اہلیت کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف چیزوں کے واقعی نظر بھی آنے سے متعلق ایفانٹازیا (Aphantasia) نامی اس مرض میں کسی بھی متاثرہ فرد کی اندرونی آنکھوں کی اہلیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ اندرونی آنکھ کے نابینا پن کی وجہ سے دکھائی دینے والی اشیاء کی وہ تصویری عکاسی نہیں ہوتی، جس کے باعث ہی ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کچھ دیکھ رہے ہیں۔
 
اسی تصویر کشی کی وجہ سے انسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔ نئی طبی تحقیق کے مطابق اس مرض کی انسانی آنکھوں کے پپوٹوں کی مدد سے یقینی تشخیص کی جا سکتی ہے۔
 
آنکھ کے پچھلے حصے میں کسی بھی منظر کے عکس کا نہ بننا
بات چاہے کسی دوست کے چہرے کی ہو، کسی کتاب کے سرورق کی، یا کسی گھر یا کمرے میں دیواروں کے درمیانی فاصلوں کے بصری شعور کے بعد کسی جگہ کے تنگ یا وسیع ہونے کے احساس کی، کچھ خاص قسم کے انسان ایسے کسی بھی منظر کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔
 
بصری تصور کی اہلیت سے محروم ہونے سے مراد یہ ہے کہ ایفانٹازیا کے مریضوں کی آنکھوں میں کسی بھی 'منظر کی عکس بندی‘ نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ وہ اپنی آنکھوں کے پچھلے حصوں کے نابینا پن کا شکار ہوتے ہیں۔ ایفانٹازیا کی اس طبی حالت کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی متاثرہ فرد میں اس مرض کی تشخیص زیادہ تر اس کے بالغ ہو جانے کے بعد ہی ہوتی ہے۔
 
اس موضوع پر آسٹریلیا کے شہر سڈنی کی نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے محققین کی تازہ ترین اور ایک سنگ میل قرار دی جانے والی ریسرچ سے پتہ یہ چلا ہے کہ ایفانٹازیا کی تشخیص صرف بصری طور پر نہیں بلکہ جسمانی طور پر بھی ممکن ہے، پپوٹوں کے تقابلی مشاہدے کے ذریعے۔
 
image
 
تشخیص میں پپوٹوں کا ردعمل بنیادی اہمیت کا حامل
اس ریسرچ کے دوران نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے محققین نے 60 افراد کا تحقیقی مشاہدہ کیا، جو سب کے سب طالب علم تھے۔ ان میں سے 18 افراد Aphantasia کے مریض تھے جبکہ باقی ماندہ 42 کی بصری تصور کی اہلیت عام انسانوں جیسی تھی۔ اس ریسرچ کے دوران نیورو سائنٹسٹ جوئل پیئرسن اور ان کے ساتھیوں نے پہلے تو تمام زیر مطالعہ افراد کو بہت روشن ڈیزائنوں والی کئی مختلف تصاویر دکھائیں۔ ان تصاویر کو دیکھتے ہوئے دونوں گروپوں کے ارکان کی آنکھوں میں پپوٹوں کا رد عمل یکساں تھا۔
 
اس کے بعد ان تمام پانچ درجن افراد کو مختلف ایسی تصاویر دکھائی گئیں، جو کم روشن یا کافی تاریک تھیں۔ ایسی تصویروں کو دیکھتے ہوئے دیکھنے والوں کی آنکھوں کے پپوٹے پھیل گئے تھے تاکہ ان میں سے زیادہ روشنی گزر سکے اور دیکھے جانے والے منظر کا عکس بہتر بن سکے۔ اسی طرح بہت زیادہ روشن تصویروں کو دیکھتے ہوئے دیکھنے والوں کی آنکھوں کے پپوٹے سکڑ گئے تھے تاکہ ان سے گزرنے والی روشنی کو کم رکھا جا سکے۔
 
دوبارہ دیکھتے ہوئے فرق کا احساس
اس ریسرچ کے دوران تمام زیر مشاہدہ افراد کو ایک ایک بار پھر وہی سب تصاویر دکھائی گئیں اور ان سے پوچھا گیا کہ انہیں ان تصاویر میں سے ہر ایک کتنی اچھی طرح یاد تھی۔ عام بصری اہلیت والے افراد میں ان تصویر میں سے یر ایک کو دیکھتے ہوئے ان کے پپوٹے دوبارہ اسی حد تک پھیل گئے، جتنی روشنی ان کی آنکھیں ان تصاویر میں پہلے ہی دیکھ چکی تھیں۔
 
اس کے برعکس ایسے افراد میں، جو مختلف اشیاء کے بصری تصور کی اہلیت سے محروم (اندرونی آنکھوں کے نابینا پن سے متاثر) تھے، ان میں مختلف تصاویر کو دوبارہ دیکھنے سے پپوٹوں کے پھیلنے یا سکڑنے جیسے کسی بھی عمل کا مشاہدہ نہ کیا جا سکا۔ یہی وہ واضح ترین اشارہ ہے، جس کی بنیاد پر طبی ماہرین کسی بھی انسان کے ایفانٹازیا سے متاثر ہونے کی حتمی تشخیص کر سکتے ہیں۔
 
image
 
بصری تصور کی اہلیت کی پیمائش
طبی تحقیقی جریدے 'ای لائف‘ میں شائع شدہ اس ریسرچ کے نتائج میں آسٹریلوی محققین کی ٹیم کے سربراہ جوئل پیئرسن نے لکھا ہے، ''اس مرض کی یقینی اور درست تشخیص کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی متاثرہ انسان میں دیکھی جانے والی اشیاء کی بصری عکس بندی اور ان کی بصری تصور کی اہلیت کی پیمائش کے کئی مختلف طریقے رائج ہیں۔
 
لیکن اس میں بھی فیصلہ کن بات متاثرین کی آنکھوں کے پپوٹوں کے پھیلنے یا سکڑنے کا وہ عمل ہے، جو دراصل ایفانٹازیا کے مریضوں میں بہت ہی کم دیکھنے میں آتا ہے یا سرے سے ہی نہیں۔
 
Partner Content: DW Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: