|
|
گھر میں سب سے زیادہ ڈھونڈنے اور ٹوٹنے والی چیز نظر کا
چشمہ ہوتی ہے۔ آج کل کمزور آنکھیں ہر عمر کا مسئلہ ہیں۔ ضرورت کے مطابق
جیسے دوسری فیلڈز میں ترقیاں ہو رہی ہیں ویسے ہی آنکھوں کی فیلڈ میں بھی
زبردست قسم کی ایجادات ہوئی ہیں جس نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ آج ہم جن
سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں ہم سے پہلے کے لوگ شاید ایسا سوچ بھی نہیں
سکتے تھے!!! |
|
1948 میں، ہسپانوی ماہر امراض چشم Jose Ignacio
Barraquer Moner چشموں سے تنگ آ گئے تھے۔ وہ دھندلی بصارت کا ایسا حل چاہتے
تھے جس میں دیکھنے کے لئے آپ چشمے جیسی کسی بیرونی چیز کے محتاج نہ ہوں۔
آخرکار اس نے ایک سرجری ایجاد کی۔ کارنیا آنکھوں کی سب سے باہر والی پرت
ہوتی ہے جہاں سے سب سے پہلے روشنی داخل ہوتی ہے۔ Barraquer نے مریض کے
کارنیا کے اگلے حصے کو کاٹ کر اسے مائع نائٹروجن میں ڈبو دیا۔ اس نے
frozenک ارنیا کو درست شکل میں کیا تاکہ مریض کی بینائی نارمل ہوسکے۔ اس
عمل کے بعد اس نے کارنیا آنکھوں میں دوبارہ فکس کر دیا۔ |
|
Barraquer نے اس طریقہ کار کو keratomileusis کہا ۔
اگرچہ یہ خوفناک عمل لگتا ہے لیکن اس تکنیک کے قابل اعتماد نتائج پیدا
ہوئے.آئیے دیکھتے ہیں Barraquer کی سرجری کیسے کام کرتی تھی؟Keratomileusis
آنکھوں کی خرابیاں دور کرتا ہے: |
|
|
|
آنکھ میں آنے والی روشنی کو کنٹرول کرنے کے طریقے میں
خامیاں۔ مثال کے طور پر، کارنیا اور لینس روشنی کو ریٹینا پر فوکس کرنے کے
لیے مل کر کام کرتے ہیں، لیکن کئی قسم کی اضطراری خرابیاں اس نازک نظام کو
خراب کر سکتی ہیں۔ مایوپیا، یا دور کی نظر کمزور رکھنے والے افراد کا لینس
موٹا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے دور کی چیزوں کی روشنی ریٹیینا پر فوکس نہیں
ہو پاتی اور دھندلا نظر آتا ہے۔ ہائپروپیا یا قریب کی نظر کمزور رکھنے والے
افراد کا مسئلہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ لینس لمبی ہو جانے کی وجہ سے قریب کی
چیزوں کی روشنی ریٹینا پر فوکس نہیں ہو پاتی۔جس کی وجہ سے انھیں دھندلا نظر
آتا ہے اور astigmatism والے لوگوں میں، کارنیا میں نقص آجاتا ہے جس کی وجہ
سے لائٹ صحیح جگہ پر فوکس نہیں ہوتی اوریہ دھندلا پن کا باعث بنتا ہے۔ |
|
یہاں تک کہ اچھی بصارت کے حامل افراد بھی آخرکار
پریسبیوپیا، یا "عمر رسیدہ آنکھیں" کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ
لینس میں پروٹین کی مقدار بڑھتی جاتی ہے تو لینس کی flexibility کم ہوتی
جاتی ہے جس کی وجہ سے لینس کو جلدی جلدی اپنا فوکس تبدیل کرنے میں مشکل
ہوتی ہے۔ ان پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے لوگ عینک اور کونٹیکٹ لینس کا
سہارا لیتے ہیں۔ |
|
لیکن جیسا کہ Barraquer کا طریقہ کار ظاہر کرتا
ہے، ہم خود کارنیا کی شکل کو بھی بدل سکتے ہیں۔ اور شکر ہے آج کل آنکھوں کے
سرجن جدید ٹولز کے ساتھ جو کہ ناگوار اور تکلیف دہ نہیں ہیں سارا پروسیجر
عمل میں لاتے ہیں۔ |
|
لیزر آنکھ کی سرجری میں سرجن ایکسائمر لیزرز پر انحصار
کرتے ہیں۔ یہ ٹولز اتنے درست ہیں کہ انسانی بال پر اس لیزر کے ذریعے لکھا
جا سکتا ہے- |
|
لیزر آئی سرجری اصل میں کیسے کام کرتی ہے؟ اس عمل میں کارنیا کی ایک لئیر
کھولتے ہیں اسکو ایکسائمر لیزرز سے فکس کرتے ہیں ،عام طور پر ہر آنکھ کے
لیے 30 سیکنڈ سے بھی کم وقت لگتا ہے۔ آخر میں جو لیئر کھولی تھی اس کو بند
کر دیا جاتا ہے صرف چند گھنٹوں میں آنکھ بحال ہو جاتی ہے۔ |
|
|
|
یہ سارا عمل آئی بال پر ہی ہوتا ہے – عام طور پر ہم اسے
LASIK کے نام سے جانتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ تکنیک مریض کے کانٹیکٹ لینس
کے نسخے کو ان کے کارنیا پر تراشتی ہے۔ کسی بھی جراحی کے طریقہ کار کی طرح،
LASIK کے بھی کچھ نقصانات ہیں لیکن فی الحال اس تکنیک سے آپ کی آنکھوں کو
نقصان پہنچنے کا اتنا ہی امکان ہے جتنا ایک سال تک روزانہ ڈسپوزیبل کانٹیکٹ
لینز پہننے سے ہو سکتا ہے۔ |
|
SMILE نامی ایک تکنیک سرجنوں کو اس قابل بناتی ہے
کہ وہ اس کام کو اور مہارت سے کر سکتے ہیں – جس میں ریکوری ٹائم اور کم ہو
جاتا ہے - یہ ٹیکنالوجی عمر رسیدہ آنکھوں کو بھی بحال کر سکتی ہے۔ |
|
لیزر ٹیکنالوجی میں ترقی انتہائی مؤثر ہے کیونکہ بہتر
نتائج کی وجہ سے یہ قابل بھروسہ اور قابل رسائی ہو گئی ہے۔ شاید وہ وقت
قریب ہے کہ جب Barraquer کا نظریہ " ایسی دنیا جہاں چشمے کی ضرورت نہیں "
بالآخر سچ ہو جائے گا۔ |